• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ طلب

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے سندھ منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو طلب کر لیا۔

سندھ منی لانڈرنگ کیس کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کوعدم تعاون کی شکایت پر چیمبر میں ملاقات کے لیے بلایا ہے، انہیں سمن جاری نہیں کیا۔

دورانِ سماعت جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق دیگر ممبران کے ہمراہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے تمام ریکارڈ دے دیا ہے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے پوچھا کہ تمام دستاویزات مل گئی ہیں؟

احسان صادق نے بتایا کہ تمام دستاویزات مل گئی ہیں مگر اسکروٹنی کرنی ہے، ہم عدالت کے شکرگزار ہیں۔

اس موقع پر محکموں کے عدم تعاون اور ریکارڈ وقت پر نہ دینے سے متعلق سابقہ آرڈر پڑھ کر سنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اومنی گروپ پر 23بلین کے واجبات ہیں، یہ 23بلین بینک کھا گیا یا اومنی گروپ؟سندھ بینک اسی لئے تو انضمام کرنے جا رہا تھا کہ اس بات کا پتہ ہی نہ چلے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ایک ایک ریکارڈ جے آئی ٹی کو نہیں مل جاتا،ہم کراچی ہی میں بیٹھے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ وزیراعلیٰ سندھ کو کہیں کہ مجھے سے چیمبر میں آکر ملیں اور میں واضح کردوں کہ وزیراعلیٰ سندھ کو سمن جاری نہیں انہیں عدم تعاون کی شکایت پر چیمبر میں ملاقات کے لیے بلایا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ گودام اور بینک کا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے، فائنل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اومنی گروپ سے جواب لے لیں گے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے دستاویزات نہ دینے کی شکایت کی گئی تھی، اب تمام سیکریٹریز نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، جے آئی ٹی سے یہ تعاون جاری رکھا جائے، جو عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

عدالت نے دوران سماعت جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ 70 بلین روپے کے لون کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ملزمان کے خلاف کرمنل ایکشن لیا جائے۔

سماعت کےدوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایاکہ ٹائم ٹو ٹائم جو ریکارڈ مانگیں گے ہم دے دیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اور جو نہیں مانگیں گے ہم دے دیں گے، اسلام آباد سے کراچی آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتاہے، تعاون رہے تو مہربانی ہوگی۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں جب کہ تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کافی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکلے ہیں۔

ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں 'ٹریڈ اکاؤنٹس کہاجاتا ہے اور جن کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، انہیں رقم بھی دی جاتی ہے، اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔

منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو سپریم کورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا جب کہ زرداری کے ایک اور قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہیں۔

اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پیش ہوچکی ہیں۔

ادھر ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ منی لانڈنگ کیس 2015 ء میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 ء سے 2015 ء کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 ء میں 4بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی، دسمبر 2017 ء میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 ء میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے 4اکاؤنٹس بھی شامل تھے، 21 جنوری 2018 ء کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا، تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بینک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاؤنٹ میں بھیجی گئی تھی، ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں،

حکام نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ کے خلاف جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

تازہ ترین