• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر انیلا قیوم

شادی کے موقعے پر بیٹی کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ تحفے کے طور پر کچھ ساز و سامان دینا’ جہیز‘ کہلاتا ہے۔ جہیز کے لفظی معنی تیاری یا سامان کی تیاری کے ہیں۔ ہندی میں اِسے ’’دان‘‘ یا ’’کنیا دان‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی خیرات کے ہیں۔ جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں وہ سامان جوجو والدین اپنی بیٹی کی شادی پر اپنی خوشی سے بیٹی کو دیتے ہیں۔ تحفے کا لین دین، محبت، ہم دردی اور مدد کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر یا مجبوری کے تحت دیا جائے تو محبت کے بجائے اختلافات اور بہت سے مسائل کا سبب بن جاتا ہے، جیسے کہ آج کل جہیز دینا کسی ہمدردی، محبت یا مدد کے تحت نہیں بلکہ محض ایک ’رواج‘ کو پورا کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی حیثیت اختیار کرگئی۔

کتنی ہی لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھ کر بوڑھی ہوجاتی ہیں ،ان کے سروں میں چاندی اتر آتی ہے۔کم جہیز کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کی زندگی عذاب ہوجاتی ہے۔ مار پیٹ کے ان کو جلاتک دیا جاتا ہے۔ آج کل معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے ۔اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام سادگی کا دین ہے۔ اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے ۔افسوس ہمارے معاشرے میں جہیز کی مکروہ روایت کی وجہ سے بیاہ آج ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ کہنے کو تو ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے لیکن جب بیٹی کی شادی کا وقت آتا ہے تو یہ دنیاوی دکھاوا ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ جہیز کی تمنا لیے لڑکے کے والدین ان لڑکیوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں ،جن کے والدین اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دینے کی فرمائش پوری نہیں کرپاتے۔

جہیز کی رسم نے ان غریبوں کے مسائل میں اضافہ کردیا جو خود دو وقت کی روٹی کے متلاشی ہیں نتیجتاً ان کی معصوم بیٹیاں گھر میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ غریب والدین اپنی بیٹی کو بیاہنے کی تمنا دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

معاشرے میں جہیز کی رسم کو دنیا دکھاوے اور دولت کی نمائش کا ذریعہ بنالیا ہے، لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جہیز دینے کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔جس سے معاشرے میں اسراف زر بڑھ گیا ہے۔ غریب آدمی کے لیے بیٹی کی شادی بہت بڑی مصیبت بن گئی ہے، والدین جہیز کی رسم کو پورا کرنے کے لیے جائز و ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں۔ حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے معاشرے پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو سیدہ زینبؓ کے نکاح کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کوئی سامان نہیں دیا۔ سیدنا عثمان غنی ؓ کاایک گھر پہلےہی موجود تھا، سیدہ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے رسول اللہ ﷺ کو ایسے کسی انتظام کی ضرورت نہ پڑی۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کی زوجیت میں آنے والی امہات المومنین کے والدین کو بھی ایسے کسی انتظام کی حاجت نہ تھی ۔اسی طرح رسول اللہﷺ، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ الزہراؓ دونوں کے کفیل اور سرپرست تھے ،اس لیے دونوں کے ازواج کا اہتمام بھی آپ ہی کو کرنا تھا، کچھ مختصر ترین سامان مثلاً چکی، پانی کا برتن اور تکیہ دیا تھا جو کہ گھر بنانے کے بنیادی وسائل تھے۔ شریعت میں چیز دینے کی پابندی نہیں ہے اگر لڑکا بہت زیادہ غریب ہو، گھر کا ضروری سامان خریدنے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں لڑکی کے والدین مالی تعاون کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ باعث ثواب ہے۔

معاشرے کو جہیز اور اس جیسی بری لعنتوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ اس قبیح رسم کی وجہ سے کوئی بیٹی بن بیاہی نہ رہ جائے اور کوئی غریب باپ اس بات کی حسرت لیے اس دنیا سے رخصت نہ ہوجائے کہ وہ بیٹی کی شادی کا فرض پورا نہ کرسکا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار لڑکے اور اس کے والدین کا بنتا ہے کہ وہ لڑکی والوں کو جہیز دینے سے سختی سے منع کریں۔ حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس برائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔

تازہ ترین