کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں میزبان طلعت حسین کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ حکومت کے بڑے نعرے اور دعوے تھے لوگوں نے ان سے امید لگائی لیکن عام انسان پر بوجھ بڑھ گیا ان کا اپنا ووٹر بہت مایوس ہوا ہے سو دن مکمل ہونے کو ہیں ہر طرف مہنگائی ہے ہم چاہتے ہیں حکومت اسلامی ریاست کا قیام یقینی بنائے اس وقت حکومت کا اس طرح کا کوئی مقصد نظر نہیں آرہا احتساب شروع کریں پارٹی کے اندر باہراور تمام سیاسی جماعتوں میں بیوروکریسی ، سب کا احتساب ہونا چاہیے افراد کے بجائے ادارے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سابق اور موجودہ حکمرانوں کے بیرونی دوروں میں واضح فرق ہے اب کوئی فیملی ممبر ہوتا ہے نہ ہی وزراء کی فوج، کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ کا سادگی مہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کے محمد زبیر نے کہا کہ حکومت نے فزیکل ڈیفسٹ بڑھا ہے گائے بھینسیں بیچنا حل نہیں،جب تک ریونیو نہیں بڑھائیں گے کچھ نہیں ہوگا حکومت اصل چیزوں پر نہیں آئی۔سنیئر صحافی شہباز رانا نے کہا کہ اعداد شمار سے لگتا ہے حکومت کی سادگی مہم اور اسٹریٹجی صحیح سمت پر نہیں جارہی جو بجٹ مسلم لیگ نون دے کر گئی تھی اُس میں 463 ارب رکھے گئے تھے موجودہ مالی سال 2018-19ء کہ جب اسد عمر نے آکے منی بجٹ دیا تو اس میں اُس خرچے کو 463 ارب سے کم کر کے انہوں نے چار سو ساٹھ ارب کردیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو سادگی مہم کی جو بات ہو رہی ہے اس کا جو ٹوٹل پورے سال میں فائدہ ہوگا وہ صرف تین ارب روپے کا ہوگا۔سینیٹر محسن عزیز کا مزید کہنا تھا کہ پچھلی حکومت پچیس ارب ڈالر سے بیس ارب ڈالر پر ایکسپورٹ لے گئی تھی تین مہینوں سے اس میں ہم نے ساڑھے چار فیصد ایکسپورٹ بڑھائی ہے پہلے کی طرح آئی ایم ایف کی ہر شرط مان کے قرضہ نہیں لیا جارہا۔شہباز رانا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو واضح پوزیشن لینی پڑے گی کہ انہیں آئی ایم ایف جانا ہے یا نہیں جانا۔ 2013 ءء میں ہمیں امریکا کی سپورٹ حاصل تھی اور آج امریکا پاکستان کے ساتھ بہت ٹف ہے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات بریک ہوئے ہیں اُس میں پاکستان اور چین کے مالی معاملات کی جو تفصیلات ہیں وہ جس طریقے سے وہ مانگ رہے ہیں پاکستان وہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ یہ آئی ایم ایف کے علاوہ کہیں سے پیسے لیتے ہی تو انہیں آٹھ نو ماہ کا سہارا ملے گا اس سے زیادہ نہیں ملے گاآئی ایم ایف کا لیٹر آف کنفرٹ نہیں ہوگا تو آپ کو ورلڈ بینک بھی پالیسی لون نہیں دے گا نہ ہی ایشیائی ترقیاتی بینک ۔سراج الحق نے مزید کہا کہ ماضی پر اگر نظر ڈالی جائے تو ہندوستان نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ کسی بھی چیز پر خلوص کا مظاہرہ نہیں کیا بنیادی مسئلہ انڈیا کے ساتھ کشمیر کا ہےجس طرح حکومت نے اقوام متحدہ میں ایک واضح موقف اختیار کیا اسی پر جانا چاہیے۔ایک طرف ہم یہ بات کرتے ہیں انڈیا ظلم کر رہاہے دوسری طرف دوستی کا سلسلہ چلتا ہے پھر دنیا ہمارے موقف کو تسلیم نہیں کرتی۔ پہلے کی حکومتیں بھی اس طرح کی دلیلیں دیتی رہی ہیں جس فیصلہ کے پیچھے کوئی منطق نہ ہو خلوص نہ ہو اُس کا فائدہ نہیں ہوتا ۔ اگر انڈیا اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے تو ہم بھی کم از کم اپنے موقف پر تو ڈٹے رہیں ۔