• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں برس طب و صحت کی دنیا میں کئی اہم ایجادات و اختراعات منظرِ عام پر آئیں، جنہوں نے صحت مند زندگی کی راہیں روشن کردیں۔ اس ضمن میں ہیلتھ ٹیک نے نئی بلندیوں کو چھوا۔ ٹائپ ون ذیابطیس کے مریضوں کے لیے مصنوعی گردوں کی ایجاد سامنے آئی، جو انسولین کی کمی کو دور کرتے ہیں۔ بے خوابی کی روک تھام کے لیے نیورو ماڈیولیشن متعارف کرائی گئی۔ قدرتی نابینا افراد کی جین تھراپی کے ذریعے بینائی بحال کرنے کی راہ ہموار ہوئی،بائیونک آئی اور گوگل گلاس سامنے آئے۔ معذوروں کے لیے مصنوعی ٹانگیں بنائی گئیں،کولیسٹرول کو قابو میں رکھنے کا علاج دریافت ہوا، ایبولا جیسے مرض پر قابو پانے کے لیے نئی نسل کی ویکسین ایجاد ہوئی۔ بریسٹ کینسر کے علاج کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا، جو سرطانی جرثوموں کو پیدا ہونے سے روکتا ہے۔ گنج پن کی روک تھام کا علاج دریافت ہوا۔ اس کے علاوہ مزید کیا ہوا، ہم آپ کو تفصیل سے بتاتے ہیں۔

ایڈز کا علاج دریافت

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایڈز کا علاج اور دوا دریافت کرلی ہے، جسے شعبہ طب میں بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ ہانگ کانگ یونیورسٹی برائے طب میں پروفیسر چن ژیوائی کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی ٹیم نے ایڈز کے علاج، احتیاط اور اس مرض کو جڑ سے ختم کرنےکے لیے باقاعدہ پلان ترتیب دیا ہے۔ چن ژیوائی کا کہنا ہے کہ ہم نے اس طریقہ علاج کو چوہوں پر آزمایا، جس کی وجہ سے اُن کی قوتِ مدافعت میں اضافہ ہوا اور اس طرح ایڈز کا مرض اُن کے اندر سے بالکل ختم ہوگیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ایڈز کی تمام اقسام کو ختم کرنے کے لیے یہ دوا کارآمد ثابت ہوگی، بشرط یہ کہ مریض تین ماہ تک باقاعدگی کے ساتھ اسے استعمال کرے۔ پروفیسر کا کہنا ہے کہ دوا کھانے کے بعد انسان کے جسم میں مدافعت کا نظام مضبوط اور اس میں اضافہ ہوتا ہے، جو موذی مرض کو ختم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اس دوا کے استعمال سے جسم میں موجود ایچ آئی وی وائرس کے اثرات معدوم ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس میڈیسن کی ابھی گلوبل ہیلتھ لیبارٹریز سے تصدیق ہونا باقی ہے۔ لیبارٹری سے دوا کی تصدیق کے حوالے سے رپورٹ اگر مثبت آئی تو اس کو عالمی ادارہ صحت بھیجا جائے گا ،پھر نتیجہ سامنے آنے کے بعد اسے مارکیٹ میں فروخت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تحقیقاتی ماہرین پر امید ہیں کہ اُن کی دریافت کا نتیجہ مثبت آئے گا۔

آواز کی لہروں سے کینسر شناخت کرنے والاآلہ

ڈیوک یونیورسٹی، ایم آئی ٹی اور سنگاپور کی ننیانگ یونیوسٹی کے ماہرین نے مشترکہ تحقیقات کے بعد ایسا آلہ ایجاد کیا ہے، جو آوازوں کے ذریعے کینسر کی شناخت کرسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلہ خون کے نمونوں پر مبنی مائع بایوپسی کے طریقے سے خون میں موجود کینسر کے ذرات کی آسانی سے شناخت کرسکتا ہے۔ آلے کو انسانی جسم میں موجود باریک نالی سے گزار ا جاتا ہے، جس کے بعد ایک خاص سمت سے آواز کی لہریں پھینکی جاتی ہیں تاکہ کینسر والے بڑے اور سخت خلیات کو سطح پر آسانی سے لایا جاسکے۔ ماہرین کے مطابق اس عمل سے کینسر کا خلیہ تباہ نہیں ہوتا بلکہ اسے آسانی اور بہت تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ مرض کی کون سی قسم ہے۔

اسمارٹ وھیل چیئر

اس دنیا میں بہت سے لوگ وھیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ عام وھیل چیئر آپ کو مختلف جگہوں پر آنے جانے میں سہولت فراہم کرتی ہے، مگر اسے چلانا آپ کو تھکا دیتا ہے۔ اس کا ایک حل الیکٹرک وھیل چیئرکی صورت میں نکالا گیا، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میںآپ کی مدد کرتی ہےلیکن اس میں بھی ایک مسئلہ درپیش تھا کہ یہ مختلف قسم کے فرش پر چلنے کی قابلیت نہیں رکھتی۔ اس مسئلہ کا سدِباب کرتے ہوئے اسمارٹ وھیل چیئر متعارف کرائی گئی، جو اپنے موٹے ٹائروں کی وجہ سے نہ صرف ہر جگہ چل سکتی ہے، بلکہ اس میں سینسرز بھی موجود ہیں۔ آپ مختلف جگہوں پر جاسکتے ہیں، چاہے وہ جگہ پتھریلی ہو، ریتیلی یا پھر ایک عام سا فرش ہو۔ اس کو بنانے والی کمپنی وِھل(WHILL) کا ارادہ ہے کہ اسمارٹ وھیل چیئر کی خودکارپروگرامنگ کی جائے گی تاکہ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ خود بخود چلی جائے۔

بینائی سے محروم افراد کیلئے اسمارٹ گلاسز

آئی را کے ا سمارٹ گلاسز، گوگل گلاس سے متاثر ہیں اور یہ نابینا افراد کے لئے بنائے گئے ہیں۔ نابینا افراد اسمارٹ گلاسز پہن کر اپنے روز مرہ کے کام نارمل طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ اگر وہ کہیں پھنس بھی جائیں اور مدد درکار ہو تو آئی را کے ایجنٹ کو کال ملاکر ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کال کے دوران ایجنٹ نہ صرف آپ سے بات کریں گے، بلکہ یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ آپ کے سامنے کیا ہے اور گوگل میپ کے ذریعے آپ کا محل وقوع یعنی لوکیشن بھی جان سکیں گے۔ ان سب معلومات کے ذریعے وہ آپ کی مدد کریں گے۔ مثلاً اگر آپ کچھ پکا رہے ہیں تو یہ آپ کے سامنے لکھی ترکیب آپ کو پڑھ کر بتا دیں گے، یا اگر آپ کہیں سفر کر رہےہیں اور راستہ بند ہے تو وہ دیکھ کر آپ کو بتا دیں گے کہ آپ کے آگے کیا صورتحال ہے۔

بائیونک آئی

بنیادی طور پر بائیونک آئی ایسے افراد کے لیے بنائی گئی ہے، جو آنکھوں میں سوزش کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔بائیونک آئی کو، جو آرگس ٹو کے نام سے جانی جاتی ہے، ’سیکنڈ سائٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ ایک کیمرے کے ذریعے کام کرتا ہے۔ یہ کیمرہ بنا کسی تار کے ایک چھوٹے سے آپریشن کی مدد سے آنکھ کے اندر پردہ چشم سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ایسے افراد جو آہستہ آہستہ بینائی سے محروم ہو رہے ہیں، وہ اس مصنوعی آنکھ کی مدد سے ایک مرتبہ پھر روشنی کو دیکھ سکیں گے۔ اگرچہ اس آلے کا کئی افراد پر کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ آلہ ابتدائی مراحل میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت پیدا کی جائے گی، تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

طب کے میدان میں گوگل کی کاوشیں

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں قائم گوگل کارپوریٹ کے ہیڈ کواٹرز میں اب ایسی ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے، جو مستقبل میں انسانی جسم میں کسی مہلک عارضے کے پیدا ہونے کی نشاندہی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ گوگل ماہرین ایک ایسے کانٹیکٹ لینز پر بھی کام کر رہے ہیں، جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہے۔ اس کے استعمال سے ذیابیطس کے مریضوں کو بلڈ شوگر کی مقدار ناپنے کے لیے انجکشن کی سوئیاں نہیں چُبھونا پڑیں گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کمپوٹر سائنس آئندہ سالوں میں طب کے شعبے میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔

تازہ ترین