• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلوانی کا عہدِ سلطانی
رستمِ زماں، گاما پہلوان

ریسلنگ یا کُشتی لگ بھگ 15ہزار برس قدیم کھیل ہے، جس کے ڈانڈے قدیم مصر سے ملتے ہیں۔ یونانی شاعر، ہومر کی رزمیہ نظم، ’’ایلیڈ‘‘ میں بھی ریسلنگ کی بازگشت سُنائی دیتی ہے، جب کہ قدیم اولمپک گیمز میں بھی ریسلنگ شامل رہی ۔ امریکا میں ریسلنگ وہاں ابتدائی وقتوں میں آباد ہونے والے برطانوی باشندوں کی وجہ سے پہنچی اور یوں 1888ء میں نیو یارک سٹی میں پہلی بار ’’نیشنل ریسلنگ ٹورنامنٹ‘‘ منعقد ہوا۔ ’’جدید اولمپک گیمز‘‘ میں، جن کا باقاعدہ آغاز 1904ء میں سینٹ لوئس، امریکا میں ہوا، ریسلنگ کو لازمی کھیلوں میں شمار کیا گیا۔ یہ تو ریسلنگ یا کُشتی کے ارتقائی سفر کا ایک مختصر سا جائزہ تھا۔ جہاں تک اِس کھیل کے انداز کا تعلق ہے، تو یہ جسمانی طاقت کے اظہار پر مبنی ہے اور بنیادی طور پر دو افراد یا اشخاص کے مابین کھیلا جاتا ہے اور دونوں میں سے جو بھی کام یاب ہوتا ہے، وہ شہ زور قرار پاتا ہے۔ اس فن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کھیل میں کام یابی کا اصل دارومدار کھلاڑی کی کسرت پر ہوتا ہے، یعنی جو جتنی ریاضت یا ورزش کرے گا، اتنا ہی کام یابی کے نزدیک ہو گا۔

برِّصغیر میں بھی ریسلنگ یا کُشتی کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ قدیم ہندوستان میں لکھے جانے والے رزمیے، ’’مہا بھارت‘‘ اور ’’رامائن‘‘ میں جسمانی مبارزت طلبی کا ذکر موجود ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں کُشتی کو ’’مال یُدھ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مؤرّخین کے مطابق، سنسکرت سے مستعار ’’مال‘‘ کو پہلوان اور ’’یُدھ‘‘ کو لڑائی کہا جاتا ہے۔ مُغلوں کی ہندوستان میں آمد، مقامی باشندوں میں بہت سی ثقافتی تبدیلیوں کی بنیاد قرار پائی، جب کہ ایرانی اثرات تو برِّصغیر میں پہلے ہی سے موجود تھے۔ ایران کے مشہور پہلوان، رستم کو افسانوی شُہرت حاصل ہونے کے باعث ہندوستان میں بھی انتہائی مقبولیت حاصل تھی اور یوں ’’رستم‘‘ ایک کردار بن گیا۔ اگر شعراء نے شاعری میں اسے استعمال کیا، تو ادیبوں نے کہانیوں اور ڈراموں میں۔ مرزا داغؔ دہلوی نے کچھ یوں کہاکہ؎کودا ترے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہو گا…جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا۔ جب کہ آغا حشر کاشمیری نے تو ’’رستم و سہراب‘‘ کے عنوان سے پورا ڈراما تحریر کر دیا، جسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ ڈراما اصل میں فردوسی کے ’’شاہ نامہ‘‘سے ماخوذ تھا۔ اگر بات رستم اور ہندوستان کی ہو، تو بے اختیار ایک نام زبان پر آتا ہے اور وہ نام ہے، ’’گاما پہلوان‘‘ کا کہ جسے ’’رستمِ زماں‘‘ اور ’’رستمِ ہند‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ گاما ایک ایسا پہلوان تھا کہ جس کی شُہرت دُنیا بَھر میں پھیلی اور جس کے سبب ہندوستان کا نام دُنیا کے چپّے چپّے میں جاناگیا۔ مارشل آرٹ کی تاریخ کے بے تاج بادشاہ، افسانوی شُہرت کے حامل اور کسی سے شکست نہ کھانے والے، بروس لی خود کو گاما پہلوان کا مدّاح اور کہتے تھے۔

غیر منقسم ہندوستان کی ریاست، مشرقی پنجاب کے ضلع، امرت سَر کے گاؤں، جبو وال کے ایک گھرانے میں 2مئی 1878ءکو ایک بچّہ پیدا ہوا، جس کا نام غلام محمّد بخش رکھا گیا۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے اس خاندان نے کئی نام وَر پہلوان متعارف کروائے تھے اور ان کی پورے ہندوستان میں بہت شُہرت تھی۔ بچّے کے والد، محمّد عزیز بخش خود بھی ایک نام وَر پہلوان تھے اور مقامی سطح پر ہونے والے تمام معرکوں میں ناقابلِ شکست تھے۔ محمّد عزیز بخش کی خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا بھی فنِ پہلوانی میں اپنے خاندان کا نام روشن کرے۔ سو ،انہوں نے خود غلام محمّد بخش عُرف گاما کی تربیت کا فیصلہ کیا۔ تاہم، قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا اور 1884ء میں کہ جب گاما کی عُمر محض 6برس تھی، محمّد عزیز بخش انتقال کر گئے۔ گاما کا ایک اور بھائی، امام بخش بھی تھا، جس کی تربیت گاما کے ساتھ ہی جاری تھی اور باپ کی خواہش تھی کہ امام بخش بھی فنِ پہلوانی میں اپنی مثال آپ قرار پائے۔ باپ کے انتقال کے بعد گاما کی تربیت کی ساری ذمّے داری نانا نے اُٹھا لی، جو خود بھی پہلوان تھے۔ نانا کو تربیت فراہم کرتے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ وہ بھی جہانِ فانی سے چل بسے۔ تاہم، گاما اس عرصے میں پہلوانی کے داؤ پیچ سے اچّھی طرح واقف ہو چُکا تھا۔ نانا کی موت کے بعد گاما چچا کی نگرانی میں آ گیا اور چچا نے بھتیجے کو اس فن میں پوری طرح طاق کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اب گاما کا زیادہ تر وقت اکھاڑے میں اپنے ساتھی پہلوانوں سے زور آزمائی میں صَرف ہوتا۔ یہ زور آزمائی تربیت کا حصّہ ہوتی۔ ایک کے بعد دوسرا پہلوان آتا اور گاما اُسے پچھاڑ دیتا۔ محض9برس کے بچّے کی مہارت اور طاقت پر لوگ حیران رہ جاتے۔ اکھاڑے میں بسا اوقات 40,40پہلوان موجود ہوتے۔

1888 ء کا سال تھا اور گاما کی عُمر کا محض 10واں برس کہ اُس کا نام عام لوگوں کی زبان پر آ گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جودھ پُور کے مہا راجا، جسونت سنگھ نے اپنی ریاست میں جسمانی کسرت کے مظاہروں پر مبنی مقابلے کا انعقاد کروایا۔ ارد گرد کی ریاستوں سے لگ بھگ 40نامی گرامی پہلوان مدعو کیے گئے۔ مقابلے کے اختتام پر 15وہ پہلوان منتخب ہوئے، جنہوں نے سب سے زیادہ بیٹھکیں لگائی تھیں اور 10برس کا گاما بھی اُن پہلوانوں میں شامل تھا۔ مہا راجا ایک بچّے کی جسمانی کسرت اور استعداد سے اس حد تک متاثر ہوا کہ اُس نے گاما کو مقابلے کا فاتح قرار دے دیا۔ دن پر دن گزرتے گئے اور گاما اپنے فن میں نکھار لانے کے لیے جان توڑ محنت کرنے لگا۔ اُس کا جی چاہتا کہ وہ اکھاڑے ہی میں سارا وقت گزار دے۔ ڈنڈ بیٹھک تو معمول کا حصّہ تھی ،جو بالتّرتیب 3ہزار اور5ہزار کی گنتی تک جایا کرتی۔1893ء میں گاما کا پہلوانی کا باقاعدہ سفر شروع ہوا اور وہ دیگر پہلوانوں کو لڑائی کی دعوت دینے لگا۔1895ء کا سال تھا اور گاما کی عُمر کا 17واں برس۔ کچھ کر دِکھانے کا جذبہ دِل میں موجیں مار رہا تھا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ وہ دیگر علاقوں کا رُخ کرتا اور وہاں کے پہلوانوں کو زیر کرتا۔ سو اُس نے ایسا ہی کیا۔ اب جو بھی پہلوان گاما کے مقابلے میں آتا، وہ اُسے زیر کر دیتا۔ 1897-98ء کازمانہ نوجوان گاما کے لیے بہت پُر کشش تھا۔ قد 5فٹ 8انچ ہو چُکا تھا اور سینہ مضبوط اور کُشادہ ہو کر 46انچ پر محیط ہو چلا تھا۔ جو بھی گاما کو دیکھتا، بس دیکھتا کا دیکھتا رہ جاتا۔

1901 ء میں گاما کا مشہور پہلوان، خلیفہ غلام محی الدّین سے مقابلہ ہوا۔ غلام محی الدّین بھی کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والا نامی گرامی پہلوان تھا۔ کولہا پُور کے مہاراجا نے اُس کی پہلوانی کی مہارت سے متاثر ہو کر اسے بڑی جائیداد بھی عطا کی تھی۔ اسی غلام محی الدّین پہلوان کا جب ایک اور مشہور پہلوان، کالا پراٹھا سے مقابلہ ہوا تھا، تو اسے دیکھنے کے لیے مہا راجا سمیت سیکڑوں شائقین موجود تھے۔ غلام محی الدّین نے جب کالا پراٹھا کو شکست دی، تو مہاراجا نے خوش ہو کر سونے کی چوڑیاں اور ایک قیمتی ہار اسے تحفے میں دے دیا۔ گاما کا مقابلہ غلام محی الدّین سے کافی دیر تک جاری رہا، تاہم بے نتیجہ رہا۔ اس کے اگلے ہی سال گاما کا مقابلہ تب تک ناقابلِ شکست اور رستمِ ہند کہلائے جانے والے رحیم بخش سلطانی والا سے ہوا۔ تقریباً 7فٹ قد اور 300پائونڈ وزن کا حامل رحیم بخش سلطانی والا کسی دیو سے کم دکھائی نہ دیتا تھا۔ لوگوں نے بہت جوش و خروش سے یہ شان دار مقابلہ دیکھا، لیکن یہ بھی بے نتیجہ رہا۔ 1902ء کے آس پاس کا زمانہ تھا اور گاما کی عُمر کا 24واں سال ۔ جوانی پھٹی پڑتی تھی۔ اس وقت گاما نے جو کیا، اگر لوگ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے، تو شاید یقین ہی نہ کر پاتے۔ ہاتھی کے دو بچّوں کو ایک ساتھ اُٹھانا گاما جیسے سورما ہی کا کام تھا۔ یہی نہیں، بلکہ 2.5فٹ بلند اور 1200کلو وزنی پتّھر کو، اس چٹان جیسے انسان نے بڑودہ کے باشندوں کے سامنےاپنے ہاتھوں پر بلند کیا تھا۔ بھارت کے مشہور اخبار، ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کے مطابق، بعدازاں وہ وزنی پتّھر بڑودہ میوزیم کی زینت بنا دیا گیا۔

گاما کی یومیہ خوراک میں 10لیٹر دودھ، آدھا کلو مکھن، 6دیسی مرغیاں، 4کلو پھل اور 1.5پائونڈ بادام شامل تھے۔ باداموں کو پیس کر اُن کا قِوام(شیرہ) تیار کیا جاتا، جسے گاما گاڑھے شربت کی شکل میں نوش کرتا۔1906ء میں ایک بار پھر گاما اور رحیم بخش سلطانی والا آمنے سامنے آئے۔ سیوا جی راؤ ہولکر دیسی کُشتی کے بڑے شائق اور صاحبِ ثروت انسان تھے۔ اس مقابلے کے پسِ پشت وہی تھے اور مقابلہ اندور میں منعقد ہوا۔ دو گھنٹے پر محیط یہ سنسنی خیز مقابلہ ایک بار پھر نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا۔ چند ماہ کے اندر دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کے مقابل آئے۔ اس مرتبہ اکھاڑا لاہور میں تھا۔ شائقین کی کثیر تعداد کے سامنے وقت کے دو بڑے پہلوان اس بار بھی ایک دوسرے کو شکست نہ دے سکے۔ کئی سال گزر گئے اور دونوں اپنے اپنے اکھاڑوں میں مصروف رہے۔ 1910ء وہ سال تھا کہ جب گاما اور رحیم بخش سلطانی والا آخری بار ایک دوسرے کے سامنے آئے۔ اکھاڑے کا مرکز تاریخی شہر، الہ آباد تھا۔ مقابلہ شروع ہوا اور لوگ سانسیں روک کر بیٹھ گئے۔ پہلے پہل دونوں پہلوان ایک دوسرے پر داؤ آزماتے رہے۔ پھر گاما نے اپنا مستند اور مشہور دھوبی پاٹ کا داؤ لگایا۔ اس وار میں مخالف کو سَر سے بلند کر کے پھینکا جاتا ہے۔ رحیم بخش سلطانی والا نے اپنا بچاؤ کر لیا۔ تاہم کچھ ہی دیر میں گاما نے اُسے سَر سے اونچا کیا اور پھینکنے کی کوشش کی ہی تھی کہ رحیم بخش سلطانی والا نے گاما کی گردن میں پیروں کی قینچی ڈال دی۔ شائقین دم بہ خود ہو کر طاقت کا یہ مظاہرہ دیکھ رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ چوتھی بار بھی مقابلہ ہار جیت کے بغیر ہی اختتام پزیر ہو جائے گا۔ اب دونوں کو لڑتے لڑتے لگ بھگ 2.5گھنٹے گزر چُکے تھے۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب گاما نے ایک زور دار داؤ لگایا اور شائقین کی آنکھیں گویا بند سی ہو کر رہ گئیں۔ لمحوں بعد جب آنکھیں کُھلیں، تو معلوم ہوا کہ رحیم بخش سلطانی والا کی پسلی ٹوٹ چکی تھی اور یوں گاما ’’رستمِ ہند‘‘ قرار پا گیا۔

اب گاما نے اپنی پرواز مزید بلند کرنے کا سوچا۔ ہندوستان سے باہر کا سفر اختیار کیا گیا۔ بھائی، امام بخش بھی ساتھ تھا۔ ہندوستان سے باہر گاما کی آمد کو کوئی اہمیت نہ دی گئی، تو اُس نے چیلنج دیا کہ ’’کوئی پہلوان میرے سامنے 30منٹ تک نہیں ٹھہر نہیں سکتا۔‘‘ بہت سے پہلوانوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے چیلنج قبول کر لیا۔ سامنے آنے والوں میں دُنیا کے بہترین پہلوان شامل تھے۔ امریکی پہلوان بینجمن رولر ( اسے گاما نے ایک منٹ 40سیکنڈ میں ہرایا)، سوئیڈن کا جیسی پیٹرسن، فرانس کا مورس ڈیراز اور سوئٹزر لینڈ کے جوہن لم جیسے غیر مُلکی پہلوان گاما کے مقابلے میں شکست خوردہ ٹھہرے۔ اب اُس کا مقابلہ دُنیا کے سب سے بڑے پہلوان، زبسکو سے طے پایا۔ لندن میں منعقد ہونے والے اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے 12ہزار شائقین موجود تھے۔ اس مقابلے کا احوال حکیم محمد سعید اپنی کتاب، ’’وہ بھی کیا دن تھے‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’لندن میں جب گاما اور زبسکو اکھاڑے (ایرینا) میں اترے، تو دونوں زبردست طاقت کے مالک تھے۔ دو پہاڑ تھے، جو ٹکرانے والے تھے۔ بڑی خلقت جمع تھی۔ لندن کے اخبارات خبروں سے بَھرے پڑے تھے۔ بھئی ہوا یوں کہ جب گاما اور زبسکو آمنے سامنے آئے، توگاما نے یا علی کا نعرہ لگایا۔ خلقت نے دیکھا کہ ان دونوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اور دوسرے ہی لمحے گاما نے بھاری بھر کم جِن کو 10،12فٹ ہوا میں اُچھال دیا۔ پھر دیکھا، تو زبسکو چاروں خانے چِت اور گاما اس کے سینے پر سوار۔ نعرہ لگایا، اللہ اکبر۔‘‘ یوں گاما کو’’رستمِ زماں‘‘ قرار دے دیا گیا۔گاما پاکستان آنے کے بعد کبھی کبھار موسمی بیماری کی صورت میں علاج کروانے کے لیے ’’ہمدرد دواخانے‘‘ سے بھی رجوع کرتا۔1929ء میں گاما نے آخری بین الاقوامی مقابلے میں حصّہ لیا اور اپنے حریف کو محض 1.5منٹ میں زیر کرنے میں کام یاب ہوا۔1940ء میں نظام حیدر آباد کی دعوت پر گاما نے وہاں کے پہلوانوں سے مقابلہ کیا اور تمام حریفوں کو زیر کیا۔ نظام کی خواہش پر گاما نے بلران ہریمان سنگھ یادیو سے مقابلے کی ہامی بَھری۔ بلرام سنگھ کا شمار بھی اُن پہلوانوں میں کیا جاتا تھا کہ جو ناقابلِ شکست سمجھے جاتے تھے۔ تاہم گاما نے بہ آسانی یہ مقابلہ بھی جیت لیا۔ اگلے ایک دو برس چند اور مقامی مقابلوں میں حصّہ لیا اور پھر کُشتی سے غیر اعلانیہ دست برداری عمل میں آ گئی۔ بعدازاں،ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے گاما نے رحیم بخش سلطانی والا کو اپنا سخت ترین حریف قرار دیا ۔

ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام، جدید حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ گردانا جاتا ہے۔ اس تقسیم کے نتیجے میں شاید تاریخ کی عظیم ترین ہجرت عمل میں آئی اور ایک سے دو مُلک بننے کے اس عمل میں لاکھوں جانیں ضایع ہوئیں۔ خون کی ندیاں بہائی گئیں اور عِصمتیں تاراج ہوئیں۔ تاہم، اس تقسیم کے فسادات اور جبر کے اندھیروں میں گاما پہلوان کی انسان دوستی روشنی کا ہالہ بن کر سامنے آئی۔ گاما نے لاہور میں مقیم سیکڑوں ہندوؤں کو بلوائیوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ ہندوستانی اخبارات میں ’’The Hindu ‘‘ کا شمار قدیم پرچوں میں کیا جاتا ہے، جس نے انیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں بہ طور ہفت روزہ اپنی اشاعت کا آغاز مدراس (اب چنائے) سے کیا تھا اور 11برس کے اندر ہفت روزہ سے روزنامہ ہو گیا۔ یہی اخبار اپنی 31اکتوبر 2013ء کی اشاعت میں پی سیناتھ کا مضمون ’’ثقافت اور فنِ پہلوانی کا بُحران‘‘ شایع کرتا ہے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ’’مہاراشٹر میں پہلوانی کی تعلیم دینے والے اپنے شاگردوں کو افسانوی شُہرت کے حامل اور دُنیائے پہلوانی میں ہر پہلوان پر ظفر یاب ہونے والے ناقابلِ شکست گاما پہلوان کی کہانیاں سُناتے ہیں۔ وہ گاما، جو پنجاب کے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اور تقسیم کے بعد لاہور میں مقیم ہوا۔ علاقے میں ہندو آبادی کی کثیر تعداد تھی۔ فسادات کے دوران گاما ایک چٹان کی مانند اپنے ہندو پڑوسیوں کو شرپسندوں سے بچانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔‘‘ آگے چل کر مضمون نگار لکھتاہے کہ ’’ایک ریسلر کو انسانی بنیادوں پر اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ منندر ڈباس ایک ہندو صحافی ہے۔ اُس نے گاما پر اپنے مضمون میں اسی واقعے کے تسلسل میں یہ تحریر کیا کہ’’جب فسادات کی شدّت بڑھی، تو گاما نے یہ جانتے ہوئے کہ یہاں کی ہندو آبادی غیر محفوظ ہے، اُسے ایک ہفتے کا راشن مہیّا کیا اور اپنی نگرانی میں سرحد پار کروائی۔ یہ سارے اخراجات گاما نے اپنی جیب سے برداشت کیے۔ وقتِ وداع سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‘‘ ناقابلِ شکست گاما کا سفرِ حیات 23مئی 1960ء کو لاہور میں اختتام کو پہنچا۔ گاما پہلوان نے دو شادیاں کیں۔ پاکستان کی تاریخ میں تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والے واحد سیاست دان،میاںنواز شریف کی اہلیہ، بیگم کلثوم نواز مرحومہ، رستمِ زماں گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔

گاما پہلوان کے بعد اس خاندان کے جس دوسرے پہلوان کو عالمی شُہرت حاصل ہوئی، وہ اُس کا حقیقی بھتیجا، بھولو پہلوان تھا۔ بھولو پہلوان کا اصل نام، منظور حسین تھا، جو 24 جنوری 1922ء کو امرت سَر میں پیدا ہوا۔ یہ وہ سال تھا کہ گویا جب گاما کی پہلوانی کا عہدِ سلطانی تقریباً اختتام کی جانب مائل تھا۔ بھولو کے والد، امام بخش پہلوان تھے، جو گاما کے چھوٹے بھائی ہونے کے ساتھ پہلوانی کے فن میں پوری طرح طاق اور وسیع شُہرت کے مالک تھے۔ یوں بھولو پہلوان کو یہ فن وراثت میں ملا اور بھولو نے صحیح معنوں میں خود کو اتنے نام وَر پہلوانوں کا وارث ثابت کیا۔ بھولو کا بچپن امرت سَر ہی میں بسر ہوا۔ عُمر9سال ہوئی، تو پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بھولو کے ماموں، حمیدہ پہلوان رحمانی والا کا شُہرہ تھا۔ بھولو کو اکھاڑا اور وہاں کے پہلوان بہت پسند آئے اور اُس نے تہیّہ کر لیا کہ وہ پہلوان ہی بنے گا۔ اب تربیت کا دَور شروع ہوا۔ باپ اور تایا نے فن کے اَسرار و رموز سے پوری طرح آشنا کر دیا اور جو پہلوان گاما اور امام بخش جیسے عظیم پہلوانوں کا تربیت یافتہ ہو، تو اُسے آگے چل کر ناقابلِ شکست ہی رہنا تھا۔ 1932ء میں کہ جب بھولو کی عُمر محض 10برس تھی، وہ فنِ پہلوانی میں طاق ہو چُکا تھا۔1935ءسے بھولو پہلوان نے مقابلوں میں حصّہ لینا شروع کیا اور پہلا مقابلہ اُس وقت کے ایک معروف پہلوان، احمد بخش سے ہوا، جو نتیجہ خیز ثابت نہ سکا۔ بھولو نے رفتہ رفتہ محلّے، علاقے اور ضلعے کی سطح کے تمام پہلوانوں کو شکست سے دوچار کیا۔ شکست کھانے والوں میں منگل سنگھ، کھڑک سنگھ، بورہ سنگھ، بُلھر پہلوان اور علیم پہلوان شامل تھے اور یہ سب کے سب منجھے ہوئے پہلوان تھے۔ بھولو کا قد 6فٹ ایک انچ تھا۔ وہ جب اکھاڑے میں اُترتا، تو سامنے والے پہلوان پر ہیبت طاری ہو جاتی۔ 1940ء آتے آتے تک تو یہ معاملہ تھا کہ بھولو کا نام سُنتے ہی اچھے اچھے پہلوانوں کے گویا چھکّے چُھوٹ جاتے۔ 1944ء میں بھولو کا مقابلہ مشہور پہلوان، پورن سنگھ امرت سَری سے ہوا اور بھولو نے محض 6منٹ میں اُسے شکست دے دی۔ اسی سال کے اختتام پر بھولو کا مقابلہ لُدھیانہ کے پہلوان، پورن سنگھ پٹیالی والا سے ہوا اور یہ فقط 3منٹ تک ہی جاری رہ سکا کہ بھولو نے اپنے مخالف کو سَر سے بلند کر کے پٹخ دیا اور وہ دوبارہ اُٹھنے کی ہمّت نہ کر سکا۔ 1945ء میں بھولو کا مقابلہ قصور کے دربار سنگھ سے ہوا اور یہ بھی تھوڑی ہی دیر میں بھولو کی فتح پر منتج ہوا۔1946ء میں بھولو کا مقابلہ کولہا پور کے سب سے مشہور پہلوان، جیوتی پہلوان سے ہونا قرار پایا۔ عوام یہ مقابلہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ مقامی اخبارات میں مقابلے کے اشتہارات بھی شایع کر دیے گئے تھے اور تمام ٹکٹس فروخت ہو چُکے تھے۔ ہر آنکھ اس مقابلے کی منتظر تھی، لیکن سب کی توقّعات کے بالکل برعکس جیوتی نے عین وقت پر مقابلے سے فرار حاصل کر لی ۔ تماشائی جیوتی کی اس حرکت پر سخت مشتعل ہوئے اور انہوں نے اکھاڑے کو آگ لگا دی۔ جب صورتِ حال قابو سے باہر ہوئی، تو پولیس طلب کی گئی اور تماشائیوں کو سمجھا بُجھا کر اُن کے گھروں کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ چُوں کہ تماشائیوں نے اس مقابلے کے ٹکٹ خریدے تھے، لہٰذا حمیدہ پہلوان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ یہ مقابلہ آیندہ چند روز میں دوبارہ منعقد ہو گا اور جن جن افراد نے ٹکٹ خریدے ہیں، وہ مقابلہ دیکھنے کے لیے اکھاڑے میں آ سکیں گے۔ بعد ازاں، مقابلہ منعقد ہوا اور بھولو نے اپنے حریف پہلوان کو بہ آسانی شکست دے دی۔ اگلے دو تین برس میں بھولو نے کتنے ہی نام وَر پہلوانوں سے مقابلہ کیا اور اُنہیں شکست دی۔

پاکستان وجود میں آیا، تو بھولو نے مستقل طور پر لاہور کو جائے سکونت بنا لیا۔ اب بھولو نے اپنے جسم کو مزید مضبوط بنانے کے لیے سخت ترین ورزشیں شروع کر دیں اور کسرت کے اوقات 10سے لے کر 14گھنٹے تک محیط ہو گئے۔ پھر بھولو نے فنِ پہلوانی کو آگے بڑھانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں شروع کیں۔ اس نے 1947ء کے آخر میں لاہور میں ’’بلال گنج اکھاڑا‘‘ قائم کیا اور نئے پہلوانوں کی تربیت کے لیے خود بھی اور دیگر شُہرت یافتہ پہلوانوں کے ذریعے بھی سلسلے کو آگے بڑھایا۔ 1948ء میں بھولو نے اُس وقت کے دارالحکومت، کراچی میں ’’دارالصّحت‘‘ کے نام سے پاکستان چوک پر اکھاڑا قائم کیا۔ اسے ’’بھولو کا اکھاڑا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جب بھولو کا مقابلہ اُس وقت کے مشہور پہلوان، یونس گوجرانوالہ سے منٹو پارک، لاہور میں ہوا۔ یونس گوجرانوالہ اُس زمانے میں’’ رُستمِ پاکستان‘‘ کہلاتا تھا۔ بھولو نے یہ مقابلہ جیت لیا۔ تاہم، یونس گوجرانوالہ نے اپنی شکست تسلیم نہ کی اور بھولو کو دوبارہ مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ دونوں کے مابین اگلا مقابلہ اپریل 1949ء میں کراچی میں منعقد ہوا۔ یونس گوجرانوالا نے اعلان کیا تھا کہ وہ بھولو کو بہ آسانی شکست دے دے گا اور مقابلہ محض چند ہی منٹ میں ختم ہو جائے گا۔ اس اعلان سے شائقین میں خاصا جوش و خروش پیدا ہو گیاتھا۔ مقابلے کی شُہرت کی ایک وجہ یہ تھی کہ تب بھولو کے نام کا ڈنکا چہار اطراف بج رہا تھا اور دوسری یہ کہ بھولو پہلوان کی تربیت میں دُنیا کے سب سے عظیم پہلوان اور اُس کے چچا، گاما پہلوان کا ہاتھ تھا۔ مقابلہ شروع ہوا۔ شائقین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی اور مہمانِ خصوصی گورنر جنرل پاکستان، خواجہ ناظم الدّین تھے۔ یونس گوجرانوالہ کی مقابلے کے بارے میں کی گئی پیش گوئی یا اعلان جزوی حد تک پورا ہو گیا۔ جزوی حد تک یوں کہ مقابلہ محض آٹھویں منٹ میں اختتام کو پہنچ گیا، لیکن فاتح، یونس گوجرانوالہ نہیں ،بلکہ بھولو رہا۔ بھولو نے مقابلہ جیت کر ’’رستمِ پاکستان‘‘ کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ 1953ء میں بھولو نے امریکی پہلوان، لوفیز اور بھارتی پہلوان، دارا سنگھ کو چیلنج کیا۔ دونوں ورلڈ چیمپئن مانے جاتے تھے، مگر کسی نے بھی بھولو کا چیلنج قبول نہیں کیا۔ اوّل الذکر کے ساتھ لڑنے کی خواہش بھولو کو اس حد تک تھی کہ اس نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان، محمّد علی بوگرہ سے درخواست کی کہ اُس کے اور لوفیز کے مابین کسی بھی طرح مقابلے کا انعقاد کروایا جائے، تاہم یہ مقابلہ نہ ہو سکا۔ دارا سنگھ اُن دِنوں یورپ میں مقابلوں میں مصروف تھا۔ سو اُس نے بھی بھولو کے چیلنج کا جواب نہیں دیا۔ تاہم، اس سے بھولو کے اُس عزم کا اندازہ ضرور ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی پہلوان سے لڑنے پر ہمہ وقت آمادہ تھا۔ 1960ء کے عشرے کے ابتدائی برس میں بھولو نے دُنیا کے مختلف اخبارات کے ذریعے بین الاقوامی پہلوانوں کو مقابلے کا چیلنج دیا، مگر کسی پہلوان نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا۔ 1967ء میں بھولو نے ایک بار پھر دُنیا کے تمام پہلوانوں کو لڑنے کا چیلنج دیا اور چیلنج کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ جو مُجھے شکست دے گا، وہ 5ہزار اسٹرلنگ پاؤنڈز کا حق دار قرار پائے گا۔ مئی 1967ء میں بین الاقوامی شُہرت یافتہ، ریسلر ہنری پیری نے بھولو کا چیلنج قبول کر لیا۔ لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں ہزاروں شائقین کے سامنے گاما کے تربیت یافتہ بھولو نے ہنری پیری کو بہ آسانی شکست دے کر ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ گاما کا گھرانا پہلوانی کے فن کا بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔

بھولو اور اُن کے بھائیوں کو ’’بھولو برادران‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان میں بھولو کے علاوہ اعظم، اسلم، اکرم اور گوگا پہلوان شامل ہیں۔ گو کہ بھولو کے بعد ترتیب میں دوسرے بھائی حسین بخش کا نام آتا ہے، جو ’’حسّو‘‘ کہلاتے تھے، لیکن وہ عمومی طور پر پہچانے جانے والے ’’بھولو برادران‘‘ میں بہ حیثیت پہلوان کبھی معروف نہیں رہے۔ اعظم پہلوان کو ’’راجا‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اعظم 1925ء میں امرت سَر، ہندوستان میں پیدا ہوا۔ اپنے خاندان کے دیگر پہلوانوں کے مانند اس نے بھی نام وَر پہلوانوں کی نگرانی میں اس فن میں کمال حاصل کیا۔ اعظم نے ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ مسقط، کویت، بحرین، قطر، کینیا، یوگینڈا اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں مشہور پہلوانوں سے مقابلے کیے۔ وہ انتہائی مضبوط اور لچک دار جسم کا مالک تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ مخالف پہلوان نے اعظم کو رِنگ سے باہر پھینک دیا، مگر اُس نے ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ہی رِنگ میں واپس آ کر اپنی پُھرتی سے مخالف پہلوان کو حیرت زدہ کر دیا۔ ہیوی ویٹ مقابلوں میں اعظم نے گورا سنگھ اور بیرن وان ہیگزی کو شکست دی۔ لندن میں اعظم کا مقابلہ مشہور امریکی چیمپئن، ران ریڈ سے ہوا۔ ران ریڈ کی وجۂ شہرت اُس کا غیر معمولی پھرتیلا پن تھا، جس کی بنا پر وہ مخالف کو تگنی کا ناچ نچا دیتا۔ تاہم اعظم کے سامنے ران ریڈ کی ساری تیزی اور پُھرتی دھری کی دھری رہ گئی اور اعظم نے مقابلہ جیت لیا۔ اعظم کا انٹل ہیٹی سے ہونے والا مقابلہ بھی بہت زبردست رہا، جو اعظم نے جیت لیا۔ اعظم نے یوں تو بہت سے مقابلے کیے اور اَن گِنت پہلوانوں کو پچھاڑا۔ تاہم اُس کے وہ مقابلے، جو بین الاقوامی شُہرت کے حامل پہلوانوں سے ہوئے اور جن میں اعظم کو کام یابی ملی، وہ جیجی گولڈ اسٹین، جارج پینشف، بِگ بُل ورنا، زیبرا کِڈ، بلورما، اُرجن سنگھ، ٹائیگر جوگندر اور ران ہیریسن سے ہوئے۔

اسلم پہلوان 1927ء میں پیدا ہوا۔ پہلوانی کی تربیت عظیم پہلوان اور چچا، گاما پہلوان اور حمیدہ پہلوان سے حاصل کی۔ نوجوانی آتے آتے اس فن کے تمام اسرار و رموز سے آشنائی ہو گئی۔1940 ء کے آس پاس فن کا آغاز کیا اور مقامی پہلوانوں کو شکست دے کر نام کمایا۔ پہلا بڑا مقابلہ امرت سَر میں بالا پہلوان سے ہوا اور اسلم نے اپنے حریف کو محض ڈیڑھ منٹ میں زیر کر دیا۔ اسلم کا ایک اور اہم مقابلہ پٹیالہ کے نرنجن سنگھ سے ہوا، جسے اسلم کو جیتنے میں محض دو منٹ لگے۔ اس کے بعد اسلم کا مقابلہ پورن سنگھ، کالا پہلوان اور اسلم موہنی والا سے ہوا اور اس نے ان سب میں کام یابی حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اسلم کا سب سے اہم مقابلہ یونس گوجرانوالا پہلوان سے ہوا۔ مزید برآں وہ ’’رستمِ پنجاب‘‘ کا ٹائٹل بھی اپنے پاس رکھتا تھا۔ 1951ء میں منعقد ہونے والے اس مقابلے میں اسلم پہلوان نے یونس گوجرانوالا کو شکست دے کر ’’رستمِ پنجاب‘‘ کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔1953ء میں اسلم نے ’’کامن ویلتھ چیمپئن شپ‘‘ کا اعزاز جیتا۔ اُن ہی دِنوں اسلم نے اعلان کیا کہ دُنیا کا جو پہلوان اُسے شکست دے گا، اُسے ایک لاکھ روپے بہ طور انعام دیے جائیں گے۔ ہندوستان کے مشہور پہلوان، ترلوک سنگھ نے یہ چیلنج قبول کر لیا۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں یہ مقابلہ ہوا اور اسلم نے دوسرے ہی راؤنڈ میں ترلوک سنگھ کو شکست دے دی۔ اسلم نے اسی سال کینیا کے شہر، نیروبی میں بھارتی پہلوان، مہندر سنگھ کو شکست دی۔ 1954ء میں اسلم کا مقابلہ بمبئی(اب ممبئی)میں یورپین ہیوی ویٹ چیمپئن اور سابق ورلڈ چیمپئن، برٹ ایزیریٹی سے 40ہزار تماشائیوں کی موجودگی میں ہوا اور اسلم نے اس مقابلے میں بھی فتح حاصل کی۔ مقابلے کے ہندوستانی منتظم نے اس کام یابی پر اسلم کو 10ہزار روپے بہ طور انعام پیش کیے۔ 1960ء کا عشرہ بھی اسلم کے لیے کام یابی کی سوغات سے پُر رہا اور اُس کے مقابلے پر آنے والا کوئی پہلوان بھی شکست سے نہ بچ سکا۔ پہلوانی کی دُنیا کا یہ نام وَر پہلوان 1970ء کے عشرے کے اوائل میں اس فن کو خیر باد کہہ گیا۔ تاہم، اس کے بیٹے جھارا پہلوان نے اپنے باپ اور خاندان کا نام روشن رکھا۔ جھارا 24 نومبر 1960ء کو پیدا ہوا۔ پہلوانی کے سب سے نام وَر گھرانے کا فرد ہونے کے باعث ابتدائی تربیت انتہائی کُہنہ مَشق پہلوانوں کی زیرِ نگرانی ہوئی اور جلد ہی جھارا اپنے فن میں طاق ہو گیا۔ جھارا کا قد 6فٹ 2انچ اور چھاتی کُشادہ تھی۔ اندازِ پہلوانی اپنے چچا، بھولو سے ملتا جُلتا تھا۔ 16برس کی عُمر میں پہلوانی کا آغاز کیا اور پہلا بڑا مقابلہ ملتان میں زوار ملتانی سے ہوا۔ جھارا نے یہ مقابلہ محض دو منٹ میں جیت لیا۔ یوں تو جھارا نے بہت سے قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں حصّہ لیا، تاہم اُس کے جاپانی پہلوان، انتونیو انوکی کے ساتھ ہونے والے مقابلے کو بے پناہ شُہرت حاصل ہوئی۔ انوکی بین الاقوامی شُہرت کا حامل پہلوان ہونے کے ساتھ مارشل آرٹ کا چیمپئن بھی مانا جاتا تھا۔ قبل ازیں، انوکی ایک مقابلے میں جھارا کے چچا، اکرام پہلوان کو شکست دے چُکا تھا۔ تاہم، جھارا نے انوکی کو پانچویں راؤنڈ میں شکست دے دی۔ یہ مقابلہ جون 1979 ء میں منعقد ہوا تھا۔ جھارا سے اس کے خانوادے کو بہت سی توقّعات وابستہ تھیں۔ تاہم پہلوانی کا یہ درخشندہ ستارہ انتہائی کم عُمری میں 11ستمبر 1991ء کو انتقال کر گیا۔ بعد ازاں، انوکی نے جھارا کے بھتیجے، ہارون عابد کو اپنی نگرانی اور تربیت میں جدید ریسلنگ کی تعلیم بھی دی۔

بھولو کے بیٹے، ناصر بھولو بھی اس نام وَر خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ 1960ء میں پیدا ہونے والے ناصر بھولو کا پہلا مقابلہ نومبر 1979ء میں ہوا۔ متّحدہ عرب امارات کے ریسلر، یاسر علی سے ہونے والے اس مقابلے میں ناصر کو کام یابی حاصل ہوئی۔ ناصر کی کام یابیوں کا سلسلہ جاری رہا اور 1982ء میں اس نے ڈیوڈ اسٹیل فورڈ کو شکست دے کر بنگلا دیش میں منعقد ہونے والی، ’’ایشین چیمپئن شپ ‘‘جیت لی۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب مشہور جاپانی ریسلر، انتونیو انوکی پاکستانی عوام میں مقبولیت کی حدوں کو چُھو رہا تھا۔ انوکی نے ناصر بھولو کی مہارت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے پیش کش کی کہ وہ ناصر کو اپنی نگرانی میں ایک بہترین ریسلر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ تاہم، ناصر کے گھرانے کے افراد اس پر آمادہ نہ ہوئے۔ 1990ء کا عشرہ آتے آتے فنِ پہلوانی سے لوگوں کی دِل چسپی کم سے کم ہوتی چلی گئی اور یوں ناصر بھی اس صورتِ حال سے بد دل ہو کر اس فن کو خیر باد کہہ گیا۔

اکرم پہلوان اس خانوادے کا ایک اور بڑا نام ہے۔ اکرم 1930ء میں پیدا ہوا۔ خاندان کی روایات کے عین مطابق نام وَر پہلوانوں کی زیرِ نگرانی تربیت پائی۔ 16،17برس کی عُمر سے پہلوانی کا آغاز کیا اوراردگرد کے مقامی پہلوانوں کو شکست دے کر ثابت کیا کہ وہ عظیم گاما کے خاندان کا ایک پہلوان ہے۔ 1953ء میں نیروبی میں مہندر سنگھ سے مقابلہ کیا اور اُسے شکست سے دوچار کیا۔ اسی سال اکرم پہلوان کا مقابلہ یوگنڈا کے عیدی امین سے کمپالا کے میدان میں ہوا۔ خیال رہے کہ عیدی امین بعد میں یوگنڈا کے تیسرے صدر بھی منتخب ہوئے۔1954ء میں اکرم نے بمبئی (اب ممبئی) کا دورہ کیا اور مقابلوں کی ایک سیریز میں شرکت کی، جہاں انہیں ناقابلِ شکست قرار دیا گیا۔1958ء میں اکرم کا مقابلہ ملایا کے ہری رام سے ہوا۔ یہ بین الاقوامی مقابلہ تھا، جو اکرم نے جیتا۔ چٹاگانگ، مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش)میں اکرم کا مقابلہ آسٹریلیا کے بِگ بُل ورنا سے ہوا۔ مقابلہ بہت سخت رہا اور حریف نے ایک موقعے پر ایسا داؤ لگایا کہ اکرم کا بایاں بازو اتر گیا۔ تاہم اکرم نے ایک ہاتھ سے مقابلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ یہ مقابلہ برابری پر ختم کرنا پڑا۔1960ء میں اکرم کا مقابلہ ہنگری کے دیو قامت پہلوان، کنگ کانگ سے ہوا، جو محض تیسرے راؤنڈ ہی میں اکرم کی فتح پر منتج ہوا۔ 1960ء کے عشرے میں اکرم نے کتنے ہی پہلوانوں کو زیر کیا اور نام کمایا۔ اکرم کے جن پہلوانوں کے ساتھ مقابلے برابری پر منتج ہوئے، اُن میں شیخ وادی ایوب، برٹ ایزیریٹی اور بِگ بُل ورنا شامل ہیں۔ اکرم کو شکست دینے والے پہلوانوں میں ’’شیرِ پنجاب‘‘ کہلائے جانے والے کالا پہلوان، ہنالولو کے چیمپئن انٹل ہیٹی اور جاپان کے مشہور ریسلر، انوکی شامل ہیں۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں اکرم نے مقابلوں سے کنارہ کَشی اختیار کر لی اور12 اپریل 1987 ء کو پہلوانی کا یہ ستارہ ڈُوب گیا۔

اسی خانوادے کے ایک اور درخشندہ ستارے، گوگا پہلوان کا اصل نام مُعظّم تھا۔ وہ 1937ء میں امرت سَر میں پیدا ہوا۔ گوگا کی تربیت عظیم گاما نے کی اور اسے اس فن میں طاق کر دیا۔ لڑائی کے دوران پُھرتیلا پن، ریورس فلائنگ کِک اور لیگ بریکر گوگا کے خاص داؤ تھے۔ گوگا نے جن مقامی پہلوانوں کو شکست دی، اُن میں حاجی افضل، بوٹا سنگھ، صدیق نیوکھے والا، سوہی اور گرنام سنگھ شامل ہیں۔ گوگا نے بے شمار بین الاقوامی مقابلوں میں حصّہ لیا اور اپنے فن کی داد وصول کی۔ جن مشہور غیر مُلکی ریسلرز سے گوگا کے مقابلے ہوئے اور گوگا نے فتح پائی، اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں، ٹائیگر جوگندر، ایرک ٹیلر، کلر کارل کاکس، کڈ زیمبوا، وانکی بیکلی، گنپت اندولکر، ہیروکا ایگن، ہربن سنگھ، سیم بیٹس، لوئیس کوویکس اور بلے رابنسن۔ بد قسمتی سے گوگا پہلوان طویل عُمر نہ پا سکا اور 6فروری 1981ء کو ناصر بھولو کے ساتھ ایک دوستانہ مقابلے میں فلائنگ کِک سینے پر لگنے کے باعث موت سے ہم کنار ہو گیا۔

پاکستان کے قیام کے وقت فنِ پہلوانی عروج پر تھا اور اسی نسبت سے اکھاڑوں کی تعداد 300کے قریب تھی۔ ایسا ہی معاملہ پہلوانوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی تھا کہ ابتدائی وقت میں 7ہزار کے لگ بھگ پہلوان اس فن سے وابستہ تھے۔ تاہم، امتدادِ وقت نے اس فن کی حیثیت کو اس حد تک کم کر دیا کہ آج اکھاڑوں کی تعداد شاید30بھی نہ ہو اور اگر پہلوان شمار کیے جائیں، تو 300بھی بہ مشکل ہی مل پائیں۔ سو، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ پاکستان میں فنِ پہلوانی کی بھرپور سرپرستی کی جائے۔ گاما اور بھولو کے خانوادے کے وہ افراد کہ جنہوں نے اس فن میں طویل ریاضت کی اور مُلک و قوم کا نام روشن کیا، آج بھی اس فن کو اگلی نسلوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے حکومت کی سرپرستی از حد ضروری ہے۔ اگر اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی جائے، تو ایک بار پھر یہ فن اس مُلک میں پَھل پُھول سکتا ہے۔ پاکستان مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا ایک گُل دستہ ہے اور پہلوانی کا فن اس گُل دستے کا ایک خُوب صُورت پُھول۔ اگر گُل دستے کے تمام پھول کِھلتے ہوئے نظر آئیں، تو گُل دستے کی تروتازگی اور حُسن دوبالا ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین