• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے بعض شخصیات کو اتنے قہقہے لگاتے اور ٹھٹھے مارتے کبھی نہیں دیکھا۔ اس غضب کے حقارت میں ڈوبے ہوئے اور اتنے تضحیک آمیز قہقہوں کا سبب بھی سنتے چلئے۔بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت نے عورتوں کے تحفظ کا قانون بنادیا ہے۔ آئندہ شوہر حضرات بیویوں کے جھونٹے ہاتھ میں لے کر یا چٹیا پکڑ کر ان کو دو ہتّڑرسید کریں گے تو دودن کیلئے گھر سے نکال دئیے جائینگے۔اس قانون کی خبر سن کر مرد تو خاموش ہو رہے ہیں اور ہونا بھی چاہئے تھا مگر ان حضرات پر یا تو ہنسی کے دورے پڑ نے لگے یا برہمی کے عالم میں ان کا جوش خطابت زور مارنے لگا۔وہ دن اور آج کا دن ایک لفظ بار بار سننے میں آرہا ہے اور وہ ہے زن مرید۔ یہ فرما رہے ہیں کہ اب مردوں کو زن مرید بن کر رہنا پڑے گا۔ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ لفظ زن سے کیا مراد ہے؟یہ لفظ کہاں سے چلا اور ہمارے معاشرے کی جڑوں میں کیوں کر بیٹھ گیا۔اور آپ محافظِ زن کب سے ٹھہرے؟
سب جانتے ہیں کہ یہ فارسی کا لفظ ہے۔ مگر شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ لغت میں لفظ زن سے مراد ہے مارنا،پیٹنا اور زدوکوب کرنا۔ جنگ میں جب فوج کو حملے کا حکم دیا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا، بزن۔ مارو۔ ٹوٹ پڑو۔اور کیا عجب کے لفظ زنّاٹے دار وہیں سے نکلا ہو۔اسی طرح انگریزی میں مرد کوmanکہتے ہیں اور اسی لفظ کی جنس بدلنے کیلئے اس سے پہلے woلگا کر اسے womanبنا دیتے ہیںاور انگریزی میں woeکا مطلب ہوتا ہے رنج و غم، حسرت و پریشانی۔یہ رویّہ ہے عورت کیساتھ ہمارے معاشرے کا۔
خدا جانے وہ کون سا دن تھا جب مردوں کے دل و دماغ میں دو باتیں بٹھا دی گئیں ۔ ایک یہ کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے (بہت سے مردوں کا اس کا مطلب بھی معلوم نہ ہوگا) اور دوسری یہ کہ مرد بے چارہ دن دن بھر جان کھپا کر روزی کماتا ہے اور عورتیں سارا دن بے کار پڑی چارپائی توڑتی ہیں۔غاروں کے زمانے کی جو خیالی تصویریں بنائی جاتی ہیں ان میں بھی یہی دکھایا جاتا ہے کہ لمبے چوڑے مرد کے ایک ہاتھ میں پتھر کا گرز ہے اور دوسرے ہاتھ سے ایک عورت کے بال پکڑکر اسے گھسیٹتا لے جارہا ہے۔ یہ روایت شکل بدل بدل کر آج تک رائج ہے اور عورتوں کو کمزور، بے بس اور حیا کی ماری ہوئی مخلوق سمجھ کر اس کے ساتھ وہی غاروں والے زمانے کا سلوک کیا جارہا ہے۔ ہماری کم سے کم ایک خوبی سے دنیا واقف ہے، مرد کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی عورت کو تھانے میں یہی کہتے سنا جاتا ہے کہ رخساروں پر یہ نیل سیڑھیوں پر سے گرنے کی وجہ سے پڑا ہے۔ ابھی تازہ بات ہے کہ میں اور میری بیوی لندن کی ایک ٹیکسی میں سفر کر رہے تھے۔ ہمارا ڈرائیور افغانی تھا اور پاکستان کے پناہ گزین کیمپ میں رہ کر جوان ہوا تھا اور ہماری طرح اردو بول رہا تھا۔اس سے باتیں ہونے لگیں اور ذرا ہی دیر میں بیوی بچّوں کی بات چھڑ گئی۔ ڈرائیور کی بیوی بھی افغان ہے، کمسن ہے ، خوش شکل بھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شوہر کے ہاتھوں خاموشی سے مار بھی کھا لیتی ہے۔اس پر میری بیوی نے احتجاج کیا اور کہا کہ تم بہت بُرے شوہر ہو۔ یہ سننا تھا کہ ڈرائیور آگ بگولہ ہو گیا اور ہمیں اپنی منزل پر اتار کر اس نے کار کا دروازہ کچھ یوں بند کیا کہ سوئے ہوئے بچّے ڈر کر اٹھ گئے۔ میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ دیکھ لینا ، آج اس کی مظلوم بیوی کی خیر نہیں۔ یہ سارا غصّہ اس پر اتارے گا۔ افغان بیوی میں اتنی سمجھ کہاں کہ فون کرکے پولیس کو بلا لے حالانکہ برطانیہ کے قانون میں ہزار خوبیوں سے بڑھ کر ایک خوبی یہ ہے کہ دوسرے سارے جرم ایک طرف لیکن اگر گھر کی چار دیواری کے اندر ظلم ہورہا ہو تو اس کی ذرا سی بھی معافی نہیں۔ پہلے تو مجرم کو دھر لیتے ہیں اس کے بعد جسم میں شراب کی مقدار اور سر میں دماغ کی خرابی کا جائزہ لیتے ہیں۔ مگر پاکستان والوں سے ایک بھول ہوئی۔ جسے وہ بیویوں کے ساتھ تشدّد سمجھ بیٹھے ہیں وہ اصل لعنت کی محض ایک شاخ ہے۔انہیں نہیں معلوم کہ اس صورت ِ حال کو خانگی تشدّد کہا جاتا ہے۔ اس میں گھر کی چار دیواری کے اندر یا کنبے یا خاندان کے اندر ہونے والے ہر قسم کے جبر اور زیادتی کو شامل سمجھنا چاہئے جس کا مجرم ضروری نہیں کہ مرد ہی ہو، وہ سگا سوتیلا، چھوٹا بڑا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں پانچ چھ قسم کے مظالم آتے ہیں۔ جسمانی، زبانی، جذباتی، اقتصادی ، مذہبی اور جنسی۔ پھریہ قصّہ تیزاب پھینکنے اور مٹی کا تیل چھڑک کر جلانے سے لے کر غیرت کے نام پر قتل تک چلا جاتا ہے۔جسمانی تشدد کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، دہشت گردوں نے ہماری کافی تربیت کردی ہے۔زبانی تشدد میں چیخم دھاڑ ، گالی گلوچ، دھمکی اور کوسنا کاٹنا شامل سمجھئے۔ جذباتی تشدد میں روٹھا راٹھی، نفرت، حقارت اور بول چال بند جیسے قصے کہانیاں حقیقت بن جاتی ہیں۔ اقتصادی تشدد بھی جرم ہے، گھر کا خرچ نہ دینا اور جوئے میں ہار جانا، شراب کی لت کے نتیجے میں گھر میں فاقے، منشیات کی لت اور بھوکے پیاسے بچّے۔مذہبی تشدد بھی جرم ہے جس کی تفصیل میں نہ جائیں تو بہتر ہے۔ اور آخر میں جنسی تشدّد جو بے حد بھیانک اور بے انتہا اذیت ناک ہے۔گھر کے بڑے، گھر کے بچّوں پر مجرمانہ حملے کرتے ہیں، سوتیلے باپ تو غضب ہیں۔ مغرب میں تو بوائے فرینڈ کمسن بچّوں پر قیامت توڑتے ہیں۔ وہ ننھا بچّہ ذہن سے نہیں نکلتا جسے ماں اور اس کے بوائے فرینڈنے بھوکا مارا تھا۔
بمبئی میں اُس نمازی پرہیزگار کا کیا،کیا جائے جس نے گھر کے چودہ افراد کو قصاب کے چھرے سے ذبح کیا اور خود کو چھت سے لٹکا لیا۔ یہاں ایک عجب بات سامنے آتی ہے۔ یہ خانگی تشدد کی وبا ایک ہندوستان پاکستان ہی تک محدود نہیں۔یہ قصّہ تو دور تلک جاتا ہے۔ امریکہ میں ہر سو میں سے تقریباًچھتیس عورتیں اور ہر ایک سو میں سے کوئی انتیس مرد کسی نہ کسی قسم کے گھریلو ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں۔ باقی دنیا کو دیکھا جائے تو زیادہ تر بیویاں یا ساتھ رہنے والی عورتیں ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ بعض ملکوں میں بیویوں کے ساتھ مار پیٹ کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ ایسا اکثر اوقات چال چلن پر شک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جہاں کہیں عورتوں اور مردوں کو برابر سمجھنے کی تحریکیں چلتی ہیں وہاں یہ بھی ہوا ہے کہ عورتوں نے مردوں پر مظالم ڈھائے یا پھر عورت نے اپنے دفاع کی خاطریاجوابی کارروائی کے نام پر دو ہاتھ رسید کردئیے یا ایک ڈھیلا والا تھپّڑ دے مارا۔زن نے مارا ہو تو اسے زنّاٹے دار بھی کہہ سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ ضرور ہے کہ عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ حکام کو اطلاع دیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان ملکوں میں مرد اس قسم کی اطلاع نہیں دیتے اور اسے اپنی مردانہ شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ایسے ہی لوگ زن مرید کہلاتے ہوں گے شاید۔ ہمارے افغانی ڈرائیور کی طرح گھریلو تشدد وہ لوگ کرتے ہیں جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ بالکل جائز ہے، وہ حق بجانب ہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ جو کونے میں منہ چھپا کر رو رہی ہے،حکام کے پاس نہیں جائے گی۔ اس طرح یہ مرض گھر کے بچّوں او ردوسرے افراد کو بھی لگ سکتا ہے جو سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ظلم اور زیادتی جائز اور قابلِ معافی ہے۔ خاص طور پر جس گھر کا ماحول ایسا ہو اس گھرانے کے بچّوں کی نفسیات پر جو تباہ کن اثر پڑتا ہے وہ پھر ساری زندگی کیلئے روگ بن جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ پاکستان میں جو قانون تحفظ ِنسواں کے نام سے بنا ہے جس کی بعض حضرات کو بہت تکلیف ہے ،وہی قانون اگر تحفظ مرد و زن کے نام سے بنتا تو کسی کو شکا یت بھی نہ ہوتی اور اس سے بہتوں کا بھلا ہوتا ۔ یہ ضرور ہے کہ ہم ان کے قہقہے اور ٹھٹھے سننے اور دیکھنے سے محروم رہ جاتے۔
تازہ ترین