ایک تو وہ دریائے سندھ ہے جو کالاباغ کے مقام سے پہاڑوں سے نکلتا ہے جس کی تیز موجیں کوہساروں کا جگر کاٹ دیتی ہیںمگر آج دو اور سندھی دریائوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ میرے ساتھ پورا سرائیکی علاقہ جن کےلئے دعاگو ہے۔
کار چلی تو میں نے ڈاکٹرشہباز گل سے کہا:جیسے آپ کے آنے سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان خان بزدار کا میڈیا میں امیج بہتر ہوا ہے بالکل اسی طرح عہدہ سنبھالتے ہی کسی اور مشیر کے سبب خراب ہوا تھا۔ بے شک حکمران اپنے نورتنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ عمران خان کی طرح عثمان بزدار کو بھی کئی وزیر اور کئی مشیر فارغ کرنا ہوں گے۔ حکمران کی پہلی صفت اس کی مردم شناسی ہوتی ہے۔ آٹھ کلب روڈ کے اندرونی گیٹ پر جب کار سےاترے تو پہلی ملاقات ڈاکٹر راحیل سے ہوئی۔ یہ وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ہیں۔ یہ بہت ہی دھیمے مزاج کے انتہائی پروفیشنل شخص کے ساتھ ملاقات تھی۔ ان سے مل کر لگا کہ افسر کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ چند قدم چلے تو عطر علی خان بانہیں کھولے کھڑے تھے۔ عطر علی خان کا شمار بھی شعیب بن عزیز کی طرح ان افسروں میں ہوتا ہے جن پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ وہ آج کل الحمرا آرٹ کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ ہم ایک ایسے کمرے میں داخل ہوئے جہاں سنہری رنگ کی کثرت تھی۔ میں نے شہباز گل سے کہا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں سونے کی کان میں آ گیا ہوں تو پتا چلا کہ شہباز شریف کو سونے کا رنگ بہت پسند تھا اور یہ دفتر، یہ فرنیچر، یہ رنگ ان کی طرف سے آنے والوں کو ورثے میں ملا ہے۔ جب ہم پہنچے تو عثمان بزدار ظہر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ مجھے نوجوان نماز ی اچھے لگتے ہیں مگر افسوس زیادہ تر مسجدیں بوڑھے نمازیوں سے آباد ہوتی ہیں۔ ہم جب قبر کے کنارے پر پہنچتے ہیں تو خدا یاد آجاتا ہے یہ بھی وہ ہوتے ہیںجو اس کے کرم کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ وگرنہ کئی تو مثال ابوجہل جیسی‘ جومرتے ہوئے کہتے ہیں میری گردن ذرا لمبی کاٹناپتا چلے کہ عرب کے سردار کا سر پڑا ہے۔ مجھے میانوالی کا معروف بدمعاش ’’مہرااترا‘‘ یاد آرہا ہے۔ جس صبح اسے پھانسی پرلٹکایا جانا تھا،اسی رات سپاہی نے اسے نماز پڑھ لینے کا مشورہ دیا۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور کہا ’’یار میں نماز تو پڑھ لیتا مگر لوگ کیا کہیں گے مہرا موت کو دیکھ کر خدا سے ڈر گیا تھا‘‘۔ اس وقت وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بہت سے سیاست دانوں کی حالت بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم فرمائے۔ عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی۔ ہم ایک جہاندیدہ نوجوان سے ملے۔ سرائیکی میں گفتگو شروع ہوئی۔ سرائیکی کی مٹھاس کمرے میں پھیل گئی تونسہ یاد آگیا۔ تونسہ جو تس یعنی پیاس سے نکلا ہے۔ گفتگو تونسہ سے تعلق رکھنے والے سرائیکی کے سب سے بڑے شاعر اقبال سوکڑی تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صغرا صدف کے پنجابی انسٹیٹیوٹ آف کلچر اینڈ لینگویج میں سوکڑی صاحب کے ساتھ ایک شام منانے کی تجویز سامنے آئی۔ اُس کی ذمہ داری شہباز گل نے لے لی،لاہور کا ادبی منظر نامہ بہت جلد ایک انتہائی شاندار تقریب سے سرفراز ہونیوالا ہے۔
میرے نزدیک یہ پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے عثمان بزدار جیسا وزیر اعلیٰ نصیب ہوا ہے۔ گورنر ہائوس جو ہر اتوار عوام کےلئے کھلا ہوتا ہے گزشتہ اتوار کو وزیر اعلیٰ بھی وہاں گئےاور عوام سے گھل مل گئے۔ عثمان بزدار کے متعلق مجھے ندیم بھابھہ نے بتایا تھا کہ میرے شہر میلسی کا ایک غریب لڑکاایک دن وزیر اعلیٰ سے ملنے لاہور پہنچ گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُس سے عثمان بزدار کی ملاقات ممکن ہو سکتی ہے۔ مگروزیر اعلیٰ نے نہ صرف اُس سے ملاقات کی بلکہ اس کے ساتھ سیلفی بھی بنوائی۔ ندیم بھابھہ کی حیرت بجا تھی۔ انہوں نے تو شہباز شریف کو دیکھا تھا جنہیں ایم پی اے تو کجا وزیر بھی نہیں مل سکتے تھے۔ عثمان بزدار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں واقعی تبدیلی آ گئی ہے۔ شروع شروع میں میرا یہی خیال تھا کہ عمران خان کا فیصلہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں مگراب میں عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے پر عمران خان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ عمران خان اورعثمان بزدار دونوں کے خمیر میں دریائے سندھ کا پانی بھی ہے اور روانی بھی۔ عثمان بزدار تونسہ میں پیدا ہوئے۔ جہاں دریائے سندھ پر تونسہ بیراج بنایا گیا اور عمران خان میانوالی کے ہیں ۔
دریائے سندھ جس کی لہروں کے ایک ایک وار سے چٹانوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ دھاڑتا ہوا، چنگھاڑتا ہوا شیر دریا جیسے ہی میانوالی کی آغوش میں آتا ہے تو کسی معصوم بچے کی طرح پر سکون ہو جاتا ہے۔ تھل کی ریت ہوا سے مل مل کر اسے لوریاںسُناتی ہے اور وہ میانوالی کی بانہوں میں سو جاتاہے۔ مگر اسے نیندمیں چلنے کی عادت ہے۔ وہ میانوالی سے گزرتا ہے اور میانوالی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہاں سے کوئی دریا گزرا ہے۔ ایک اور دریا جس نے ہر لمحہ میانوالی کواپنے گزرنے کی خبر دی۔ یہ وہ دریا ہے جس نے کھیل کے میدانوں کو سیراب کرنا شروع کیا اور پھر لوگوں کے دِلوں میں بہنے لگا۔ قطبِ جنوبی سےلے کر قطبِ شمالی تک اس دریا نے ایک موڑ لیا اور پاکستانی عوام کے دماغوں میں بہنے لگا۔ سیاست کے میدان کو سیرابیاں عطا کرنے لگا۔ دشتِ حکمرانی میں سچائی کی آبیاری کرنے لگا۔ میانوالی کا یہ شیر دریا اس وقت پورے پاکستان پر حکمران ہے۔
بےشک تبدیلی آ نہیں رہی،تبدیلی آ گئی ہے۔ عمران خان عمر بھر اسی منزل کی تلاش میں رہے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں جب انہوں نے دنیائےکرکٹ کو فتح کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ وہ جس منزل کی تلاش میں ہیں،وہ یہ نہیں ہے۔ انہوں نے پھر اپنی تلاش کا عمل شروع کردیا۔ چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے دھڑکتے دلوں کو ٹٹولا اور آدم و حوّا کی نبضوں پہ اُنگلیاں رکھ دیں۔ انہوں نے شوکت خانم اسپتال بنایا،نمل یونیورسٹی بنائی اور بھی بہت سے کام کیے۔ مگر ان کی روح مطمئن نہ ہو سکی۔ انہیں لگا کہ انہیں انقلاب کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک نئے پاکستان کو جنم میں لانا ہے۔ مسلسل 22 سال وہ اس نئے پاکستان کی تلاش میں قریہ قریہ،کوچہ کوچہ بھٹکتے رہے۔ اور آخر کار وہ دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے جہاں سے نئے پاکستان کی تعمیر ممکن تھی۔ وہ پاکستان کے وزیرِاعظم بن گئے۔ مگر وزیرِ اعظم بنتے ہی انہیں احساس ہوا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا