• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقسیم کی لہو رنگی سے زخم، زخم پنجابی شاعری کا منظر نامہ، اپنی کیمیا اور تخلیقی طبیعات پر ہم عصر اُردو شعری روایت سے مماثل بھی ہے اور قدرے الگ بھی۔ مماثل اس طرح کہ عالمی ادب کی جن تحریکات اور تصوّرات، مثلاً وجودیت، جدیدیت، ساختیات وغیرہ نے اُردو زبان کے شاعروں، ادیبوں کو اظہار اور احساس کے جن نئے زاویوں سے رُو شناس کروایا، اُن کے براہِ راست اور بالواسطہ اثرات پنجابی شعر و ادب پر بھی مرتّب ہوئے، لیکن اپنے طاقت وَر زمینی اور ثقافتی سلسلوں کے باعث، جدید پنجابی شعریات نے لب ولہجے ہی نہیں، موضوعات اور مکالمات کی خوشہ چینیوں کو بھی اپنی رہتل، آب و ہوا اور خُوش بُوئوں سے جوڑے رکھا ہے۔ تمام تر سماجی بے توجّہی اور سرکاری بے اعتنائی کے باوصف اگر آج کی پنجابی شاعری، ہمارے قومی ادبی منظر نامے میں پورے قد سے کھڑی ہے، تو اس توانائی اور اعتماد کا وافر حصّہ، اُس نِسائی پرداخت کی دین ہے، جس کی صُورت گری میں امرتا پریتم، نسرین انجم بھٹی، شائستہ حبیب اور سعیدہ ہاشمی جیسی بے شمار سُخن واسیوں کے تلوے لہولہان، آنکھیں تندور ہوئیں اور دِل پر کیا گزری؟ اس کا احوال اُن کے لفظوں سے رِسنے والے درد میں عیاں ہے۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ لفظ نہیں لکھتیں، درد تجسیم کرتی ہیں۔ الفاظ تو فقط ڈھانچا ہیں، جن میں درد، جان اور رُوح کی مانند سرایت کئے ہوئے ہے۔ ایسا درد، جس کی شدّت سے قاری کا دِل پسیج جائے، وقت کی دھڑکن اُتھّل پُتھّل ہو جائے۔ موسم کی آنکھیں نم ہو جائیں اور وجود کا شجر کملا جائے۔ عورت بنیادی طور پر احساس کی تجسیم ہے۔ وہ دماغ کی بجائے دِل سے سوچتی ہے۔ وہ ظلم اور استحصال کا منطقی جواز جان کر مطمئن نہیں ہوسکتی۔ وہ دل کی اطلاعات پر یقین رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ دِل، اس کا مرشد ہے، جو کائنات کے خالق کا مسکن بھی ہے۔ کبھی کبھی اس کا پورا وجود دِل بن جاتا ہے اور یہی وہ عالم ہوتا ہے، جب ذات کے اندر چلنے والے جَھکّڑ اور باہر پھیلے درد کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر اُس وقت وہ ایسا نہ کرے، تو کِرچی کِرچی ہو کر بکھر جائے۔ یوں اپنی ذات کے اظہار کے ساتھ ساتھ کئی حصّوں میں بِکھرے وجود کی وحدت قائم رکھنے کے لیے اُسے قلم کو ہتھیار بنانا پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت نے اپنے دُکھوں کو لفظوں کے ہار میں پرونا کب شروع کیا؟ کیا مرد کے ساتھ ہی شعور کی آنکھ کھولتے ہی یا اس سے بھی پہلے۔ اُس وقت، جب دنیا کا شعور کاغذ، قلم تک نہیں پہنچا تھا، جب موسیقی کے راگ دریافت نہیں ہوئے تھے، جب بستی وجود میں نہیں آئی تھی، جب انسان اور فطرت اِک مِک تھے، زندگی منافقت اور تصنّع سے پاک تھی، پھولوں اور سبزیوں سے پیٹ بَھرا جاتا اور پتّوں سے تن ڈھانپا جاتا تھا۔ انسان تجربے سے سیکھتا ہے۔ اُس نے پتھروں کو ٹکرا کر آگ جلانا سیکھا، مگر تخلیق کا معاملہ کسی تدریس کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ ایسا دِیا ہے، جو جذبے کی حدّت سے خود بہ خود جلتا ہے۔ اُس ابتدائی دَور میں بھی عورت نے اپنی کوکھ سے جنم دی ہوئی اولاد کے لیے لوری گنگنائی، پھر رفتہ رفتہ لفظ اُس تک پہنچے۔ اُس نے لوری گائی، پھر کہانی بنائی، پِھر زمین کی دانش سے موتی چُنے اور کھیتوں، کِھلیانوں اور بیلوں میں کام کے دَوران ٹپّے، ماہیے اُس کے لبوں تک آئے۔ یوں ادب اور شاعری میں عورت کا سفر صدیوں پر محیط ہے۔ یقیناً پنجابی شاعری میں بھی اُس کا سفر بہت طویل ہے، مگر کبھی اُسے ناقص العقل کہہ کر اُس کی دماغی نشوونما کے آگے تعصبات کے بند باندھے گئے اور کبھی وہ مرد کی غیرت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ وہ مرد، جو اُس کی محبّت کے دعوے کے طور پر تاج محل بناتا ہے، مگر اُس کے دِل کے نازک احساسات کا محل بار بار اُسی کے ہاتھوں چکنا چور ہوا، جِس سے اُس کا پورا وجود زخم زخم ہوا، تو درد اُس کی میراث بن گیا۔ آج کی عورت کا شعور، اجتماعی ظلم اور ناانصافیوں کا مسکن ہے۔ اُس کے ذہن میں ذِلّت کے تمام سلسلوں کی فلم متواتر چلتی رہتی ہے، جس میں جانوروں کی طرح اُس کی خریدوفروخت، باندی بنانا، پائوں کی جوتی سمجھنا، سرِ بازار رسوائی، کوٹھے پر بِٹھانا، دیوتائوں کی بھینٹ چڑھانا، دیوار میں چُنوا دی گئی، کبھی مذاہب اور کبھی رسم و رواج کی آڑ میں اس کا استحصال ہوتا رہا، لیکن استحصال کی داستان اونچے محلوں کے تہہ خانوں کی طرح، اس کے دل ہی میں موجود رہی کہ اُسے آہ کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ پھر ایک دن اجازت طلب کیے بغیر اس نے چُپ کا تالا توڑا، قلم اُٹھایا اور اپنا درد علامتی انداز میں بیان کرنا شروع کر دیا۔ چُپ کا تالا توڑنے پر جو چیخ برآمد ہوئی، اسے بغاوت سمجھا گیا۔

امرِتا پریتم کی نظم’’چُپ دا رُکھ‘‘ عورت کے سفر کی مجسم تصویر ہے، ملاحظہ فرمائیے ؎ نہیں…… چُپ دے ایس رُکھ توں…مَیں اکھر نہیں توڑے…ایہہ تاں جو رُکھ نالوں جھڑے سی…مَیں اوہی اکھر چُنے ہن…نہیں……تُساں نوں جاں کسے نوں…مَیں کُجھ نہیں آکھیا…ایہہ تاں جو لہو وچ بولے سی…مَیں اوہی حرف سُنے ہن…اِک بجلی دی لمبی لیک سی…چھاتی چوں لنگھی سی…ایہہ تاں کجھ اوسے دے ٹوٹے…مَیں پوٹیاں تے گنِے ہن…تے چن نے چرخے تے بہہ کے…جو بدل دی کپاہ کتّی…ایہہ تاں کجھ اوہی دھاگے نیں…مَیں کھڈی تے اُنے ہن…نہیں…چُپ دے ایس رُکھ توں…مَیں اکّھر نہیں توڑے…ایہہ تاں جو رُکھ نالوں جھڑے سی…مَیں اوہی اکھر چُنے ہن۔

کاغذ قلم کے ساتھ نے عورت کا حوصلہ مزید بلند کر دیا۔ اُس کے مَن کا سارا خوف جھاگ بن کر ہوا میں اُڑ گیا اور وہ ایک عجیب سی توانائی محسوس کرنے لگی۔ اُسے اپنے مَن کو کھوجنے سے عِلم ہوا کہ عِلم و حکمت کی رہ گزر پر مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں، اِس لیے اُس نے کسی تخصیص کو ماننے سے خاموشی سے عملی طور پر انکار کیا۔ پھر بھی وقت کی عدالت میں اُس پر بغاوت کا مقدمہ درج ہوا۔ وہ پیشیاں بُھگتتی رہی، مگر لِکھنے سے باز نہ آئی۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ زمانہ اس کے لفظوں سے وہ معنی خود کشید کر لیتا ہے، جو اس کو مقصود ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے شائستہ حبیب کی’’ کُوک‘‘ ملاحظہ ہو ؎ خورے ساڈی نیّت کیہ سی؟…دِل پُنگرن توں پہلاں ای تِیلا تِیلا ہو گیا اے…جہڑیاں رُتاں نے آکے سانوں پُھل بنانا سی…اوہ کدھرے ہور ای تنبو تان کے…جا سُتیاں نیں…خورے ساڈی اُڈیک وچ…ساڈیاں رگاں دا لہو شریک نہیں سی…ایسے لئی خوشبوواں دے بدّل ساڈے اُپر…اَج تائیں نہ وسّے…خورے ساڈی نیت کیہ سی…؟

بُلھے شاہ نے جو’’ تینوں کافر کافر آکھدے‘‘ توں ’’آہو آہو آکھ‘‘ کہہ کر مزاحمتی انداز اپنایا، اس کی جھلک سارا شگفتہ کی شاعری میں نظر آتی ہے، جب وہ کہتی ہے؎ ’’پلیت کُڑی آں، کِتھے لُکّاں‘‘، تو اس میں ایک گہرا طنز اور درد پنہاں ہے۔سارا شگفتہ کی نظم سے اِقتباس دیکھیے ؎ راتیں مویا سورج وی…چُپ وی میری فقیرنی ہوئی…پلیت کُڑی آں، کِتھے لُکّاں…گھنڈ………ماں دی ہک تے دو اتھرو وے ویرا…اِک مَیں تے اِک توں…آجا اکھاں لبھن چلیے…ماں دے کفن دی کنی پھڑئیے…مِٹی وِچوں ماں نوں لبھیے…گھنڈ…ماں دیاں ٹُٹیاں جُتیاں زندہ…پینگھ دی ٹُٹی رسّی زندہ…دل وی ساڈے زندہ قوراں…گھنڈ قور…………

عورت، زمانے اور ذاتی دُکھوں کو خالصتاً نسوانی لب ولہجے میں ڈھال کر اس کی معنویت اور تاثیر کو کئی گُنا بڑھا دیتی ہے۔ بعض اوقات عمومی شعری رُجحانات اور معیارات سے جڑت رکھتا، کوئی چونکا دینے والا تجربہ اُس کے شعری اظہار کی صورت سامنے آتا ہے۔ وہ تخلیق کا جو درد ایک وجود کو دنیا میں لاتے ہوئے سہتی ہے، وہی درد اس کے قلم میں سما کر اس کے احساسات کو درد آمیز بنا دیتا ہے۔ نسرین انجم بھٹی بھی مزاحمتی شاعری میں بڑا نام ہے۔ اُن کا جداگانہ اسلوب اُنھیں پنجابی شاعرات میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ اگرچہ وہ دُکھ اور کرب بیان کرتی ہیں۔ استحصال اور زیادتی کی طرف توجّہ مبذول کرواتی ہیں، مگر اُن کے لہجے میں ظالم کے لیے ایک للکار بھی ہے، جو زمانے کے دانش وَروں اور حکم رانوں کو احساس دلاتا اور ظلم کی تصویر کشی کرتا ہے۔نسرین انجم بھٹی کے لہجے کا بانکپن دیکھیے ؎ وے کیہڑا ایں میریاں آندراں نال منجی اُن دا…میرا دل دوان آلے پاسے رکھیں تے اکھاں سرہانے بنے…میں سرہانے پھل کڈ ھنے نیں…دھرتی دی دھون نیویں ہووے…تے اوہدے تے آسمان نہیں چکا دیوی دا…بابا کوئی کیڑا کڈھ…کرونڈیا ہووے تاں مینؤن لڑا دیئں…توں آپے ای تاں آکھیا سی، جے اسیں دھیاں نوں داج اچ…کیڑے ای دینے آں، فیردے دے…بابا! دھیاں پتر اکو جیہے کیوں نہیں ہندے…جے دھی وڈی ہووے تاں تسی اوہنوں ٹْک ٹْک کے…پتر جیڈھی کر لیندے او…جے پتر وڈھا ہووے تاں دھی فیر ادھی، فیر پونی، فیر کھنی…بابا وے سولی تے سپ چڑھیا…ہنیری آونی اے، الّاں نوں گھبرا پیا پیندا اے…دھیاں مر جانیاں نوں گھبرا پیندا اے…جیبھاں دی جھالر آلا فراک پا کے میں کندھ ٹپّی…مینوں فیر وی بولنا ناں آیا…اسیں دھیاں چنگیاں، اسیں پونیاں چنگیاں…ساڈی ڈھیری تے پیلو پکیاں تے وِکدیاں وِکدیاں بزارے آ گیاں۔

اگرچہ اس مختصر مضمون میں پنجابی شاعرات کی درد آمیز شاعری کے مفصّل بیان کی گنجائش مُمکن نہیں، لیکن اجتماعی طور پر بھی اِس صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنجابی شاعری کی قدیم اور جدید روایت درد کی نیلاہٹ، کرب کی شکن اور دُکھ کے گہرے تجربے سے عبارت ہے۔ چوں کہ عورت تخلیق کا مُوجب بھی ہے اور سب سے بڑا سمبل بھی، سو یہ اَمر محض اِتفاقی نہیں کہ پنجابی کے مہان صوفی شاعروں نے بھی اپنے تخلیقی اظہار کی بھرپور نمائندگی کے لیے نسائی اظہار اور کِرداروں کو پرداخت کیا۔ پنجابی شاعری کی اِس طاقت وَر میراث اور پنجابی شاعرات کی تخلیقی واردات نے درد کی اس میراث کو سدا بہار کر دیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے، کیوں کہ درد کا قافلہ ابھی رُکا ہے، نہ ہی مداوے کی کوئی صورت ممکن ہوئی ہے۔ شاید جب تک زندگی باقی ہے، تخلیق کا کرب باقی رہے گا اور اگر تخلیق کار عورت ہو، تو یہ درد سوا ہو جاتا ہے۔ شاعرہ کے لیے لفظ بھی زندگی کا رُوپ ہوتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا خونِ جگر دے کر صفحۂ قرطاس پر لاتی ہے اور خود اُن میں بس جاتی ہے۔ صدیاں گزر جاتی ہیں، کسی کو تلاشنا ہو، تو اس کے لفظوں کے عقب میں جھانکنا پڑتا ہے۔ ذات کی تمام درد آمیزی معنی میں رچی بسی مل جاتی ہے۔

تازہ ترین