• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریخ، ممکنہ انسانی آبادکاری کی سائنسی تحقیق کے لیے بہت زیادہ مرکز نگاہ رہا ہے۔ اس کا سطحی ماحول اور وہاں پانی کی موجودگی نے اس کو معقولیت کی حد تک نظام شمسی میں زمین کے بعد سب سے زیادہ قابل سکونت جگہ بنا دیا ہے۔ مریخ پر پہنچنا زہرہ کے بعد سب سے زیادہ کفایت شعار ہو گا۔

انسانوں کو ’مریخ‘ پر لے جانے کا منصوبہ

معروف امریکی کمپنی ٹیسلا اوراسپیس ایکس کے بانی ایلون موسک نے گزشتہ سال حیران کن اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ 2024ء میں پہلی بار انسان دنیا سے مریخ کے لیے سفر کرے گے۔ اس سے پہلے، گزشتہ سال ہی وہ مریخ پرآئندہ 50سال کے دوران 10 لاکھ افراد پر مشتمل شہر بسانے کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں انٹرنیشنل ایسٹروناٹیکل کانگریس (آئی اے سی) سے خطاب میں ایلون مسک نے اعلان میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کی کمپنی مریخ پر انسانوں کو لے جانے کے لیے آئندہ برس بگ فلائنگ راکٹ ’بی ایف آر‘ کی تیاری شروع کردے گی۔ یہ مسافر بردار راکٹ نہ صرف مریخ پر جانے کے لیے اہل ہوگا بلکہ یہ عام مسافر جہاز کی طرح ایک سے دوسرے شہر کا سفر بھی طے کرے گا۔اس کی ممکنہ رفتار 27ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی، یوں یہ راکٹ سنگاپور سے ہانگ کانگ تک 22منٹ، لاس اینجلس سے ٹورنٹو تک24منٹ، بینکاک سے دبئی تک27منٹ، ٹوکیو سے سنگاپور28منٹ، لندن سے نیویارک 29منٹ اور نیو یارک سے پیرس تک30منٹ میں پہنچے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس راکٹ کے ذریعے کراچی سے نیویارک تک صرف اور صرف ایک گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت میں پہنچا جا سکے گا۔

مریخ پر’کیوروسٹی‘

مریخ کی سائنس لیبارٹری کے نام سے معروف ناسا کا ’کیوروسٹی روور‘ مریخ پر دو ہزار دن سے زائد گزار چکا ہے اور وہاں ایک جھیل کی تصدیق کرچکا ہے۔ کیوروسٹی روور نے پہلی تصویر پانچ اگست 2012ء میں مریخ پر اترنے کے پندرہ منٹ بعد ہی بھیج دی تھی۔ جب یہ تصویر ملی تو سائنسدانوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ مشن کامیاب رہے گا۔

دبئی میں مریخ سٹی کی تعمیر

دبئی میں حکومت نے کروڑوں ڈالر کی لاگت سے مارس سٹی کی تعمیر کا اعلان کیا ہے، جس میں سرخ سیارے مریخ پر ممکنہ زندگی کا ماحول تیار کیا جائے گا۔ دبئی کے حکام کے مطابق13کروڑ50لاکھ ڈالر کی لاگت سے یہ شہر19لاکھ مربع فٹ رقبے پر مشتمل ہو گا اور اس کے ساتھ ہی اسے کسی جگہ کی سب سے بڑی نقل کا اعزاز بھی حاصل ہو گا۔ اس شہر میں محققین ایک برس تک قیام کے دوران مختلف تجربات کریں گے جس میں مریخ پر زندگی کے لیے ضروری خوراک، پانی اور توانائی کا حصول شامل ہے۔

یہ منصوبہ دبئی کی '’مریخ 2117ء ‘منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کے تحت آئندہ سو برس کے دوران مریخ پر پہلی انسانی آبادی کا قیام عمل میں لانا ہے۔ اس شہر میں جدید لیبارٹریوں کے ذریعہ مریخ کے سخت موسم اور مریخ کی زمینی ساخت کی نقل تیار کی جائے گی۔ شہر میں ایک عجائب گھر بھی موجود ہو گا، جس میں خلا میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو پیش کیا جائے گا۔ اس عجائب گھر کی دیواریں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی جائیں گی اور اس میں متحدہ عرب امارات کے صحرا سے ریت لا کر استعمال کی جائے گی۔ عجائب گھر اور لیباٹریوں کے علاوہ یہاں مارس سٹی میں کام کرنے والے سائنس دانوں کا گھر بھی ہو گا۔ اس شہر کے ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ غیر موافق ماحول میں پائیدار زندگی گزارنے کے حوالے سے مستقبل کی ایجادات میں اہم کردار اور حوالہ ہو گا۔

ناسا کا مقابلہ

خلاء میں ریسرچ کرنے والے امریکی ادارے ناسا نے 2015ء میں ایک مقابلے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت آرکیٹیکٹس اور ماہرین کو ایسے گھر ڈیزائن کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جو مریخ پر تعمیر کیے جاسکیں اور وہ مریخ کے موسم کی سختی کو برداشت کرسکیں۔اس سلسلے میں، ایک طویل ریسرچ اور بحث و مباحثے کے بعد ناسا نے پانچ مختلف طرح کے ڈیزائنز کو شارٹ لسٹ کیاہے۔ناسا کا کہنا ہے کہ لوگ مریخ پر ان گھروں میں ایک سال تک آرام سے زندگی گزارسکتے ہیں۔ان گھروں میں ہر طرح کی سہولت موجود ہوگی، جن کا تصور زمین پر تعمیر شدہ کسی بھی گھر میں کیا جاسکتا ہے، جیسے بیڈ رومز اور کچن وغیرہ۔ یہاں تک کہ ان گھروں میں درخت بھی اُگائے جاسکیں گے۔ ان گھروں کی تعمیر اس طرح کی جائے گی کہ وہ زیرِ زمین تعمیر نہ ہونے کے باوجود اپنے مکینوں کو تابکاری سے محفوظ رکھیں گے، اس مقصد کے لیے ان کی حفاظتی شیلڈ میں ایسی جدت لائی گئی ہے کہ ان گھروں میں روشنی بھی آئے گی۔ یہ رہائش گاہ مریخ پر مٹی کے شدید ترین طوفان کو بھی برداشت کرسکے گی۔ ان گھروں کی تعمیر کے لیے مریخ پر ایک تھری ڈی پرنٹر لے جایا جائے گا، کیونکہ یہ گھر تھری ڈی پرنٹر سے تعمیر کیے جائیں گے۔

تازہ ترین