شہید بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کا وہی المیاتی منظر، ویسی ہی دل شکستگی، جیالوں کی نہ ختم ہونے والی آہ و بکا اور گڑھی خدا بخش کے شہدا کا انصاف کے لیے نہ ختم ہونے والا انتظار۔ لیکن تین روز قبل تین بار منتخب وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا اور پھر گرفتاری اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی سپریم کورٹ میں جعلی بینک کھاتوں میں سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو، سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور دیگر سمیت 172 چوٹی کے لوگوں کے خلاف سنگین مالیاتی الزامات کے ساتھ ہی اُن کے نام بیرونی سفر کی بندش میں ڈالے جانے پر سیاسی کشیدگی عروج پہ تھی۔ محترمہ شہید بی بی کی برسی پہ توقع کی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی زرداری صاحب کے ’’مصالحتی نظریہ‘‘ کی موقع پرستی سے نکل کر مزاحمتی راہ اختیار کرے گی۔ اور ہوا بھی کچھ ایسے ہی۔ ایسی صورت میں جب بلاول بھٹو کو بھی ایک برس اور چھ برس کی عمر کے وقت سے مختلف کھاتوں میں شامل کر لیاگیا، جیالوں کا غصہ عروج پہ تھا۔ بلاول بھٹو کی سیاسی زندگی کی اہم ترین تقریر میں اُن کا واضح نشانہ بقول اُن کے ملک کے ’’نام نہاد ٹھیکیدار‘‘ تھے۔ پختون نوجوانوں کی بے چینی، بلوچستان کی ماؤں بہنوں کی غائب ہوئے نوجوانوں کے لیے فریاد، میاں نواز شریف کو دی گئی سزاؤں کے خلاف پنجاب میں ردّعمل، لاڈلے کی کٹھ پتلی حکومت، وفاق کو درپیش خطرات، اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے ناتے صوبائی خودمختاری کے خاتمے اور وَن یونٹ کی طرز کی مرکزئیت پسندانہ وحدانی حکمرانی، جمہوریت پہ شب خون، عوامی و انسانی حقوق و آزادی کی پامالی اور حقِ اظہار اور میڈیا کی آزادی پہ لگی بندشوں کے خلاف بلاول بھٹو نے آئندہ برسوں کے لیے حزبِ اختلاف کا سیاسی ایجنڈا پیش کر دیا۔ مسلم لیگ ن کے خلاف گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری احتساب کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مبینہ کرپشن کے بڑے کھاتے کھلنے سے جہاں سیاسی محاذ آرائی وسیع تر ہو چلی ہے اور اب دو بڑے صوبے سندھ اور پنجاب اس کی آغوش میں ہیں تو وہیں پر دو بڑی جماعتوں کی بڑی قیادت کے منتخبہ احتسابی عمل کی لپیٹ میں آنے سے حزبِ اختلاف کی قیادت کا خلاپیدا ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جمہوری عبور کے عشرہ (2008-2018) کی تمام قیادت اگلے چند برسوں میں یا تو پابندِ سلاسل ہوگی یا پھر مقدمات بھگت رہی ہوگی۔ اگر احتساب سبھی کا، بلااستثنیٰ اور منصفانہ طور پر ہو رہا ہوتا تو حزبِ اختلاف کی سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی چیخ پکار کا کوئی اخلاقی جواز نہ رہتا۔ اُوپر سے حکومت کی مشکوک پاک دامنی سے خود احتساب کی تقدیس ایسی مجروح ہوئی ہے کہ استغاثہ اور مستغیث کی حدِ فاصل مٹ گئی ہے۔ اب احتساب کا ریلا کب اپنی حدوں سے گزر کر خود محتسبوں کو لپیٹ میں لیتا ہے تو پھر دیکھئے سیاسی بساط کیسے لپٹتی ہے یا پھر اُلٹائی جاتی ہے۔
یہ منظر ہم بارہا دیکھ چکے 1949ء کے پروڈا (PRODA) جس کے تحت بنگالی حزبِ اختلاف کو سیاست سے بیدخل کیا گیا تھا، جنرل ایوب خان کے ایبڈو (EBDO) کے ذریعے تمام سیاسی قیادت کو میدانِ سیاست سے باہر کیا گیا، یا پھر جنرل ضیاالحق کی بھٹو صاحب کو دی گئی پھانسی اور پیپلز پارٹی کا احتساب، جنرل مشرف کی نواز شریف کو ملک بدر کرنے اور مسلم لیگ کی ق میں کایا پلٹ اور آئین کی 62-63 کی شقوں کے وزرائے اعظم و دیگر منتخب نمائندوں کے خلاف جابے جا استعمال، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازیاں اور انتقامی کارروائیاں اور اب تحریکِ انصاف کی دونوں جماعتوں کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کی حشرسامانیاں۔ پھر بھی کرپشن کم ہونا تو درکنار، اس کے ڈانڈے تمام شعبہ ہائے زندگی تک پھیلتے چلے گئے ہیں اور کرپشن کی غضبناک کہانیوں کے مخبر مصنفوں کے قصے کسی انجام کو تو کہاں پہنچنے تھے، احتساب کے چیف کمشنروں کی ناتمام پھرتیاں لوگ تکتے رہ گئے۔ اور نکلا کبھی کچھ بھی نہیں، سوائے کرپشن کی بڑھوتری کے۔ بقول وزیراعظم ہر سال دس ارب ڈالرز ملک سے اُڑان بھر جاتے ہیں۔ ماضی کے سایوں کا پیچھا کرتے کرتے آپ سرمایہ کے جاری انخلا کو روکنے کی تدبیر کیوں نہیں کرتے۔ اور آپ ایسا اس لیے نہیں کر پاتے کہ اس میں سارے کا سارا مالیاتی، انتظامی، سرکاری، غیرسرکاری اور اداراتی نظام ملوث ہے جس میں ہر کوئی بقدر جثہ حصے کا طلبگار ہے۔
مملکتِ خداداد کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نظاماتی اصلاحات، تحدید و توازن کے نظام کی تشکیل، شفافیت، خفیہ نہاں خانوں تک، اطلاعات کے لیے رسائی اور بلاامتیاز اور منصفانہ احتساب کا بیڑا کون اُٹھائے۔ کرپشن تو ہمارے کرایہ دارانہ، مفت خور اور گماشتہ پیداگیروں کے نظام کا طرۂ امتیاز ہے، جس میں رشوت، مراعات، کک بیکس، وسائل پہ قبضہ گیری اور جانے کیا کیا شامل ہے۔ ہمارا جدید نوآبادیاتی طرز کا ڈھانچہ اس امر کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ طاقتوروں کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرے اور اتنا کہ غریبوں کو دو وقت کی روٹی اور محروم علاقوں اور لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں بچ رہتا۔ جوں جوں مالی و مالیاتی بحران بڑھتا ہے اور ذرائع آمدن کمیاب، ویسے ویسے اُمرا کے طبقوں، مرکز اور صوبوں اور اداروں کے مابین ذرائع کی تقسیم پہ جھگڑا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کبھی سیاسی قوتوں میں محاذ آرائی کی صورت، کبھی غاصبوں کی صورت اور کبھی طبقوں اور صوبائی مزاحمتوں کی صورت۔ اور جب کوئی راہِ نجات نہیں ملتی تو پورا نظام لپٹ جاتا ہے، بازو ٹوٹ جاتا ہے یا پھر تیرگی بڑھتی جاتی ہے اور دُور دُور تک کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ جو جمہوری وقفے نصیب بھی ہوتے ہیں تو متحارب سیاسی گروہوں کی باہم جوتم پیزار میں آمرانہ قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد بھی مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف کیا کچھ نہ کیا اور آصف زرداری نے اگر جمہوری عبور کو پٹری سے نہ اُترنے دیا تو آخر میں وہ بھی بلوچستان کی مخلوط حکومت کو گرانے میں شامل ہوگئے۔ اب یہ دونوں جماعتیں اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتا کریں۔
اب جب پانی سر سے گزر رہا ہے تو آج کی حزبِ اختلاف کو معلوم پڑا کہ محاذ آرائیوں کے گناہوں کی کیا سزا ہوتی ہے۔ ایسے میں تیسری قوت کو احتساب کی لہر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا بھی ہے تو اس بے خبری کے ساتھ کہ سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگا کر خود آپ پر بھی سیاسی زمین تنگ ہو جائے گی۔ یقیناًمحترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت، نواز شریف کی سزاؤں اور دیگر رہنماؤں کے خلاف جاری احتسابی مہم سے حزبِ اختلاف کی قیادت کا خلاپیدا ہو چلا ہے۔ نواز شریف ان مقدمات میں بری ہو بھی جائیں تو تاحیات نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں اور لگتا ہے کہ اب آصف علی زرداری کی باری ہے اور تین صوبوں میں مرکز کی براہِ راست حکمرانی کا سلسلہ شاید سندھ تک بھی وسیع ہو جائے۔ قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کے خلاف جاری مقدمات اور اُن کی مصالحت کوشی کے ہوتے ہوئے حزبِ اختلاف کوئی موثر مزاحمت کرنے سے رہی۔ مسلم لیگ ن کی حالت تو یہ ہے کہ آج کے کنونشن میں اُن کی کوئی قیادت کرنے والا نہیں۔ بہتر ہوتا کہ یا تو مریم نواز سامنے آتیں یا پھر کوئی اور نیا قائد۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی قیادت کے مخمصے سے دوچار نظر آتی ہے۔ آصف زرداری اگلے برس مقدمات میں اُلجھے نظر آئیں گے تو بلاول بھٹو کو والد کے کاروبار سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر وہ بھی دھر لیے گئے تو پھر پیپلز پارٹی کا کیا بنے گا۔ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو ملوث کرنے کا مطلب محض سیاسی لگتا ہے۔ دونوں جماعتوں کو اپنے اپنے سیاسی بوجھ ہلکے کرنے ہوں گے، اور ایک نیا جمہوری میثاق کرنا ہوگا۔ اب وقت ہے کہ نئی جمہوری قیادت سامنے آئے جو ماضی سے تائب اور مستقبل کی ناقابلِ سمجھوتہ جمہوری اساس استوار کرے۔ وگرنہ لوگ کہنے پہ مجبور ہوں گے کہ اِن تلوں میں تیل نہیں!