فطری ماحول کا تحفّظ اور اس کی بقا اب دنیا بھر کے لوگوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔حتی کہ وہ ممالک بھی اب اس بارے میں سوچنے ،بات کرنے اور اقدامات اٹھانے لگے ہیں جو کل تک اسے اپنا مسئلہ تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔دراصل ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے 6ارب انسانوں کے مسکن، کرہ ارض ، کی بقا اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے پوری دنیا کو ہلادیا ہے،کیوں کہ اس کی وجہ سے کہیں سیلاب،طوفان ،زلزلے اور سونامی آرہے ہیںتو کہیں سردی اور گرمی کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے،کہیں بارش اور برف باری کی شرح بہت بڑھ گئی ہے تو کہیں خشک سالی نے ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
گلوبل وارمنگ، خشک سالی، پانی کی کم یابی ،بڑھتا ہوا بنجر پن ، حیاتیاتی تنوّع میں کمی،بدلتے ہوئے موسمی حالات اور بعض جان دار اقسام کے خاتمے کی طرح کے سنجیدہ مسائل پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہیں۔ماہرین ماحولیات کے مطابق بنی نوع انسان کے مستقبل کو خطر ے سے دو چار کرنے والے ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیےقابلِ دوام ترقیاتی حکمت عملی بناتے وقت قدرتی ماحول کا تحفظ، شہری منصوبہ بندی، شجر کاری اور ماحولیاتی آلودگی کا سد ِ باب کرنے والے منصوبو ں پر توجہ دینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مستقبل میں مفلسی اور فاقہ کشی کی شرح کم سے کم سطح پر رکھنا، آئندہ نسلوںکے کہیں زیا د ہ درختوں اورپودوںسے سجی دنیا میںامن و آشتی کے ماحول میں زندگی بسر کر سکنے کے لیے ، آج اٹھائے جانے والے اقدامات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس معاملے میںبہت حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور عوام میں ماحول کے تحفّظ کا شعوربے دار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ برس ماحول کے تحفّظ کے ضمن میںعالمی سطح پر سب سے خوش آئند خبر 2018کے آخری مہینے میں آئی۔یعنی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میںدوسوممالک کے ایک معاہدے پر متفق ہونے کی۔پولینڈ کے جنوبی شہر کاٹوویسامیں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس’’ کوپ 24 ‘‘میں ایک نئے عالمی معاہدے کی کانفرنس کے آخری روز دو سو ممالک کے مندوبین نے منظوری دی۔ایک سو چھپن صفحات پر مشتمل اس مفصل معاہدےکے چند اہم نکات یہ ہیں:
معاہدے میں2015 کی پیرس کلائمیٹ ڈیل پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق کیا گیا۔ معاہدے میں شامل ممالک ضرر رساں گیسز کا اخراج کم کرنے اور انہیں مانیٹر کرنےکے طریقہ کارپر متفق ہوئے۔ ڈیل کے مطابق غریب ممالک کو تحفظِ ماحول کے منصوبوں کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے باعث ہونے والے نقصانات کا ازالہ بھی کیا جائے گا۔تاہم دو سو ممالک کے مندوبین مسلسل کوشش کے باوجود کئی اہم معاملات پر متفق نہیں ہو پائے جن میں سے چند اہم نکات یہ ہیں:برازیل اور اس کے ہم نوا ممالک مارکیٹ میں نیا’’کاربن کریڈیٹ نظا م ‘ ‘ بنانے پر متفق نہیں ہوئے۔ اب یہ معاملہ مستقبل میں طے کیا جائے گا۔ سعودی عرب اور چند دیگر ممالک کو اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی اہم اور تاریخی اہمیت کی حامل رپورٹ میں اخذ کردہ نتائج پر اعتراض تھا۔ اس لیے معاہدے میں اس رپورٹ کی بر وقت تکمیل کی تعریف کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا۔حتمی معاہدے میں بحیثیت مجموعی زہریلی گیسز کے اخراج میں کمی لانے کے بارے میں الفاظ پر اتفاق نہیں ہو پایا۔
کوپ 24 میں پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کی۔ان کا کہنا تھاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے پاکستان کی معیشت کو 3800 ملین ڈالر زکا نقصان ہوا ہے، لہٰذا عالمی برادری ہر ممکن تعاون کرے۔عالمی برادری کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان اپنےطورپر ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جن کی وجہ سے عالمی حِدّت میں کمی ہو سکے۔انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے ہر ممکن تعاون کیا جائے، خصوصا ایسی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے، جس کے ذریعے پاکستان صاف اور ماحول دوست توانائی پیدا کر سکے۔
عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات میں اگرچہ پاکستان کا کردارزیادہ اہم نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے مرکزی ممالک میں شامل ہے۔ تاہم دو دہائیوں سے ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں مسلسل ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں ضرور موجود ہے۔ماحول کو نقصان پہنچانے والی ضرر رساں گیسز خارج کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 135 واں نمبر ہے۔ تاہم متاثرہ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بھاری نقصان پہنچاہے اور اس ضمن میں سب سے زیادہ اقتصادی نقصان اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان دوسرے نمبرپرہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کو تین اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔یعنی درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی کمی اور فضائی آلودگی ۔
کاٹو وِیسا میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کے موقف کے بارے میں ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کویہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان ایسے اقدامات کر رہا ہے جو تحفظ ماحول کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے بہ قول پاکستان میں قومی خزانے سے 120 ملین ڈالرز خرچ کرکے ’’بلین ٹری سونا می ‘ ‘ نامی منصوبے کے تحت ایک ارب درخت لگائے گئے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نےپانچ برسوں میں ملک بھر میں مزید دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے جس پر تقریبا ایک ارب امریکی ڈالرزخرچ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ایک جانب ہم ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا شکار ہیں اور دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے خبردار کیا ہے کہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کرلے گی۔ اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی،ملک امین کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’’ری چارج پاکستان‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کرائے گی۔اس منصوبے کے ذریعے سیلاب کاپانی ملک کی مختلف جھیلوں میں محفوظ کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت تمام صوبوں کی مشاورت اور رضامندی کے بعد ہی ری چار ج پاکستان اور’’کلین گرین پاکستان‘‘ جیسے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی ان منصوبوں کی فنڈنگ کا انتظام کر رہی ہے تاکہ صوبائی حکومتیں نچلی سطح پر لوکل گورنمنٹ سے یہ تمام کام موثر طریقے سے کرا سکیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں پانی کی قلت سے زیادہ ’’واٹر مینجمنٹ‘‘ کا مسئلہ ہے، کیوں کہ پاکستان میں سیلاب کا صرف نو فی صدپانی محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ وزیراعظم ملک میں مزید ڈیمز بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔ملک امین اسلم کے بہ قول دیگر متاثرہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نئےنئے عنصر نمودار ہو رہے ہیں۔مثلا مون سون کی بارشوں کےانداز میں تبدیلی۔
ماہرینِ ماحولیات کافی عرصے سے ہمارے اربابِ اختیار کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آج اقتصادی ترقی کی بنیادیں وسیع کرنے کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کامقابلہ کرنابھی بہت ضروری ہے۔پاکستان سنجیدہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہے جن کے حل کےضمن میں کی جانے والی کوششوںکی راہ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔لہٰذا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حکومت کو مجموعی قومی پیداوار( جی ڈی پی) کا چھ سے آٹھ فی صدان تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے خرچ کرنا پڑتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کےضمن میں گزشتہ برس کی سب سے بُری خبریں انڈونیشیاسے آئیں جہاںپہلے اٹھائیس ستمبر کوآنے والے زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔زلزلے کی شدّت پانچ اعشاریہ سات بتائی گئی تھی۔پھر وہاں دسمبر کے مہینے میں سونامی آیا جس سے مزید جانی اور مالی نقصانات ہونے کی اطلاعات آئیں ۔ ستمبر کے سانحے میں سرکاری اعدادوشمارکے مطابق سولا ویسی میں آنے والے زلزلوں اور سونامی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد تقریباً دو ہزار تک پہنچ گئی تھی اور پانچ ہزار افراد لاپتا بتائے گئے تھے۔انڈونیشیا میںآفتوں سے نمٹنے والے قومی ادارےکےمطابق ان زلزلوں اور سونامی کی وجہ سے 74 ہزار افراد بے گھر بھی ہوئے ۔ سب سے زیادہ تباہی سولاویسی کے مرکزی شہر پالو میں ہوئی، جہاں بڑے پیمانے پر املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ دسمبر کے آخری ہفتے (22 دسمبر کو)میں اسی ملک میں ایک بار پھر سونامی آیا جس کی لہروں کی زد میں آنے سے 429 سے زاید افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ حکام کا کہنا تھاکہ جزیرہ کراکاٹوامیں آتش فشانی کے باعث سونامی کی لہریں پیدا ہوئیں جس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی جس سے 1400 سے زاید افراد زخمی بھی ہوئے تھے اور ڈیڑھ سو افراد کے لاپتا ہونے کی اطلاعات تھیں۔
جنوری میں آسٹریلیا میں شدید گرمی پڑی اورسڈنی کے مغربی مضافاتی علاقے کیمبل ٹاؤن میں درجہ حرارت 113 درجے فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا تھاجو نیا ریکارڈ تھا ۔ گرمی کی شدت سے درختوں پر بسیرا کرنے والے کئی جان دار بے ہوش اور ہلاک ہو کر نیچے گر پڑے تھے ۔ دوسری جانب پچیس جولائی کو یورپ سمیت جرمنی کے کئی مقامات پر درجہٴ حرارت چھتیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ جرمن شہروں اور قصبات میں درجہٴ حرارت میں اضافہ چوبیس جولائی سے دیکھا گیا۔ محکمہٴ موسمیات نے اگلے دنوں میں مزید گرمی کا اشارہ دیاتھا۔ اس محکمے نے باویریا اور مشرقی جرمنی کے علاقوں میں حِدّت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔گرم موسم کی وجہ سے جرمن شہر ہینوور کے ایئر پورٹ کے حکام نے پروازوں کی آمد و رفت عارضی طور پر روک دی تھی کیوں کہ گرمی کی وجہ سے رن وے کے نرم ہونے کا امکان تھا۔جرمنی کے شعبہٴ صحت اور موسمیاتی ماہرین نے اپنے شہریوں اور طلبا کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر کام ختم کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کا رُخ کریں۔جولائی کے مہینے میں کینیڈا میں بھی شدید گرمی پڑی جس سے چھ افراد ہلاک ہوگئے ۔ پھر اگست کے مہینے میں شدید گرمی اور سورج کی تپش نے متعدد یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میںلیےرکھا۔ سائنس دانوں کے مطابق گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھی۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیاتھا۔اس کے برعکس گزشتہ برس شمالی امریکا میں ریکارڈ توڑ سردی پڑی۔
مئی کے مہینے میں چین سے یہ خبر آئی کہ اس نے ماحول کی نگرانی کے لیے انتہائی جدید ٹیکنا لوجی کا حامل سیٹیلائٹ زمین کے مدار میں پہنچا دیاہے۔بتایا گیا کہ اس کے ذریعے کھلے پانی کا معیار، ہوا میں آلودگی، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج ، فضا میں ذرات کی موجودگی اور اوزون کی تہہ کو جانچا جائے گا۔دوسری جانب اسی مہینے میں کراچی میں گرمی کی شدید لہرآئی،سورج نے اپنا رنگ دکھا دیااورلُو لگنے سے ہلاکتیں ہوئیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق شہر کی مساجد میں معمول سے دگنی لاشیں بھیجی گئیں۔ان میں سے زیادہ تر کی موت اُن کے رشتے داروں کے مطابق لُو لگنے سے ہوئی تھی۔ غیر سرکاری ذرایع کے مطابق کراچی میں مئی میں موسم گرما کی شدید لہر کی لپیٹ میں آ کر ساٹھ سے زاید افراد جان گنوا بیٹھے تھے۔ تاہم سندھ کی حکومت کا موقف تھا کہ لُو لگنے سے زیادہ اموات نہیں ہوئی ہیں۔رمضان المبارک کے آغاز ہی سے کراچی میں موسم شدید گرم ہو گیا تھا اوردرجہ حرارت چوالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچا تھا۔یاد رہے کہ جون 2015 میں کراچی میںسرکاری اعدادوشمار کے مطابق بارہ سو شہری لُو لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔
جون 2018 کے وسط میں یہ بری خبر آئی کہ قطب جنوبی کی برف پگھلنے کی رفتار تین گنا بڑھ چکی ہے۔ماہرین نے ایک نئی تحقیق کےبعد بتایا تھا کہ براعظم انٹارکٹیکا کی برف کے پانی بننے سے سمندری کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 1992 کے چھبیس برس بعد سمند ر کی سطح میں سات ملی میٹرز ے زاید کا اضافہ ہو چکاہے۔ بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے یہ تحقیق چوبیس مختلف فضائی سیٹیلائٹس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر مکمل کی تھی۔ یہ تحقیقی رپورٹ چودہ جون کو سائنسی تحقیق کے معتبر جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس انٹرنیشنل ٹیم میں چوراسی سائنس داں شامل تھے، جن کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والی چوالیس مختلف تنظیموں سے تھا ۔ محققین کی ٹیم کے سربراہ اور برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو شیپرڈ کا کہنا تھا کہ پہلے سے اندازہ لگایا جا چکا ہے کہ زمین کی ماحولیاتی تبدیلیاں یقینی طور پر قطبین کی برفانی چادر کو کم زور کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شیپرڈ کے مطابق سمندرکی سطح کا بلند ہونا مختلف ممالک کی حکومتوں کے لیے باعث تشویش ہو سکتا ہے کیوں کہ ساحلی پٹی پرموجودد انسانی آبادیوں کو اب شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔محققین کے مطابق 1992 کے بعد بحر قطب جنوبی کی پگھل جانے والے برف کا حجم تین ٹریلن ٹن کے قریب ہے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ پانچ برسوں میں اس وسیع برفانی علاقے کی برف پگھلنے کی رفتار ماضی کے مقابلے میں تین گنا سے زاید ہو گئی ہے۔برف پگھلنے سے سمندرکی سطح مجموعی طور پر 7.6 ملی میٹر بلند ہو گئی ہے اور2012 کے بعد سمندرکی سطح تقریباً تین میٹر بلند ہوئی ہے۔قطب شمالی کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے ۔ رپورٹ میں بتایاگیا تھاکہ براعظم انٹارکٹیکا 2012 تک سالانہ بنیاد پر چھہتر بلین ٹن برف سے محروم ہو رہاہے ۔ اس برف کے مایع بننے سے اوسطاً سالانہ بنیاد پر0.2 ملی میٹر سمندر کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ لیکن چھ برسوں میں مجموعی صورت حال کُلّی طور پر تبدیل ہو گئی ہے ۔2012 کے بعد سے اِس برفانی براعظم میں برف پگھلنے کی رفتار میں تین گنا اضافہ ہوا اور سالانہ بنیاد پر پگھلنے والی برف کا حجم 219 بلین ٹن ہو گیا ہے۔ اتنی کثیر مقدارمیں پگھلنے والی برف سے سمندرکی سطح 0.6 فی صد سالانہ بنیاد پر بلند ہو چکی ہے۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ قطب جنوبی پر پھیلی ہوئی برفانی چادرکی سطح میں پائی جانے والی کمی ایک طرح سے ماحولیات کی تبدیلی کا پیمانہ بن چکی ہے۔
جولائی 2018میں یہ رپورٹ سامنے ئی کہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے کروڑوں انسان شدید گرمی سے متاثر ہورہے ہیں۔یہ رپورٹ ایک غیر سرکاری تنظیم ’’سَسٹین ایبل انرجی فار آل‘‘ نے مرتب کی تھی۔ رپورٹ جاری کیے جانے کے موقعےپر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے بھی موجود تھے۔ رپورٹ کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ پاور جنریٹرز کو زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن سے صاف توانائی پر منتقل کیا جائے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ زمین کے ایک ارب سے زاید باسیوں کو مسلسل بڑھتی ہوئی گرمی کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں اقوام عالم سے کہا گیا کہ وہ گرم ہوتے ہوئے زمینی ماحول پر قابو پانے کے لیے مزید عملی اقدام اٹھائیں۔ رپورٹ کے مطابق شدید گرمی سے متاثر ہونے والے یہ لوگ پنکھے، ایئر کنڈیشنر اور ریفریجریٹر جیسی سہولتوںسے بھی محروم ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کو خوراک محفوظ رکھنے اور ادویات کو شدید گرمی سے بچانے ميں مشکلات کا سامنا ہے۔گرمی کی شدت سے متاثر ہونے والوں میں 1.1 ارب سے زاید پس ماندہ افراد کا تعلق براعظم ایشیاسے ہے۔ لاطینی امریکا کے دیہات کے 430 ملین اور کچی بستیوں میں 630 ملین افراد کو گرم ہوتے ہوئےموسم کا سامناہے۔واضح رہے کہ دنیا کی کُل آبادی 7.6 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔یہ رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مذکورہ غیر سرکاری تنظیم نےباون ملکوں میں سروے کیاتھا۔ ان ممالک میں سارک خطے کے ممالک، پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں چین، موزمبیق، سوڈان، نائجیریا، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو بھی سروے میں شامل کیا گیاتھا۔رپورٹ میں واضح کیا گیا تھاکہ ان باون ملکوں کے غریب اور بنیادی سہولتوںسے محروم طبقے کو راحت دینے کے لیے ’’کولنگ‘‘ فراہم کرنا ضروری ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے موسمی حدت بڑھ رہی ہے، یہ سالانہ بنیاد پر2030 اور 2050 کے درمیان معمول سے اڑتیس ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کا سبب بن سکتی ہے۔
اگست کے مہینے میں امریکا سے یہ خبر آئی کہ کرہ ارض پر ضرر رساں گیسز کے اخراج میں حیران کُن حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ماحولیات سے متعلق امریکا میں جاری کی جانے والی خصوصی رپورٹ میں واضح کیا گیاتھا کہ سبز مکانی گیسز کے اخراج میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہےجس کی وجہ سے زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافےسے کئی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔یہ رپورٹ امر یکا کے ساڑھے چار سو سے زاید سائنس دانوں نے ساٹھ ممالک سے حاصل کی گئیں معلومات کی روشنی میں مرتب کی تھی۔ یہ سالانہ بنیاد پر جاری ہونے والی’’اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ رپورٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس دستاویز کو امریکا اور عالمی سطح پربہت معتبر حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔امریکی سائنس دانوں نے اس رپورٹ میں مختلف زمینی خطّوں میںماحول کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لے کر یہ بتایا تھا کہ 2017 میں مختلف ممالک نے زمین کی فضا کوغیر معمولی طور پر آلودہ کرنے میں کردار ادا کیا ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کہ2017 ہی میں امریکاکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاریخی پیرس کلائمیٹ ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔حالاں کہ امریکا کو چین کے بعد زمینی ماحول آلودہ کرنے والا دوسرا بڑا ملک قرار دیا جاتا ہے۔
تین سو صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ امریکی موسمیاتی سوسائٹی اور سمندر اور فضا سے متعلق امریکا کی قومی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئی تھی۔ رپورٹ میں ضرر رساں یا سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں غیرمعمولی اضافے کی نشان دہی تو کی گئی،لیکن یہ واضح نہیں کیا گیاتھا کہ یہ گیسزخارج کرنے والے بڑے ممالک کون کون سے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زمین کے مختلف حصوں میں آنے والے طوفانوں، سیلابوں، انتہائی درجہٴ حرارت، کم ہوتی ہوئی برف اور قحط کے پھیلاؤ کا سبب یہ ہی ماحولیاتی آلودگی ہے۔2017 میں ان انتہائی زہریلی گیسز کا بے پناہ اخراج ہوا۔ اس اخراج کی وجہ سے زمین کی بالائی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ بڑھ گئی۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس (2017 میں ) سب سے زیادہ درجہٴ حرارت ایک سال پہلے کے قریب تھا ،لیکن زمین پر کئی علاقوں کو شدید گرم موسم کا سامنازیادہ دیر تک کرنا پڑا تھا۔ درجہٴ حرارت میں اضافےکا سامنا کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن، بلغاریہ، اسپین اور میکسیکو نمایاںتھے اور ان ہی ممالک میں موسم گرمانے طوالت پائی۔اسی طرح قطب شمالی و جنوبی میں بھی درجہٴ حرارت بڑھنے لگاہے اور یہ گزشتہ دو ہزار سالوں میںسامنے آنے والی پریشان کن صورت حال ہے۔ اس برفانی خطے میں برف گرنے کی رفتار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ قطب جنوبی کے بڑے گلیشیرز کی جسامت میں بائیس ملی میٹر زکمی ہو چکی ہے۔مذکورہ رپورٹ میں واضح کیا گیاتھا کہ زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافہ ہونےسے اِس کی فضا میں آبی بخارات کے حجم میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور اس میں تسلسل رہنا مختلف زمینی خطوںمیں بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنے گا۔
ستمبر کے اوائل میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہونے وا لے ماحولیاتی مذاکرات شدید تعطل کا شکارہوگئے تھے ۔ بینکاک میں جاری ماحولیاتی تبدیلیوںسےمتعلق مذاکرا ت میں پیدا شدہ تعطل کے تناظر میں دنیا بھر میں لوگوں نے آٹھ ستمبر کو احتجاجی مظاہرے کیے۔ نوّے سے زاید ممالک میں تقریباً ایک ہزار احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیوں کا انتظام کیا گیاتھا۔ ان میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ زمین کے تبدیل ہوتے ہوئےماحول کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ ہزار ہا مظاہرین نے پیرس امن ڈیل پر عمل پیرا ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔دوسری جانب تھائی لینڈکےدارالحکومت میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی چھ روزہ کانفرنس بغیر کسی پیش رفت کے اختتام پذیر ہوگئی تھی۔
یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک لاکھ سے زاید ماحول دوست افراد ایک مظاہرے میں شریک ہوئے۔امریکی شہر سان فرانسسکو میں چوبیس گھنٹوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری تھاجس میں متبادل ماحول دوست توانائی کے حق میں آواز بلند کی گئی۔ مظاہرین نے جدید سائنسی ترقی کو ماحول دشمن بھی قرار دیا۔ فرانس کے دارالحکومت، پیرس میں ایک لاکھ سے زایدماحول دوست افرادایک مظاہرے میں شریک ہو ئے ۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں دس ہزار سے زاید افراد نے ایک مظاہرے میں شریک ہو کر ماحول دوستی کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کی برسلز میں واقع عمارت کے سامنے بھی کلائمیٹ چینج کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ ان مظاہروں کے حق میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اپنی آواز شامل کی ہے۔
یاد رہے کہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ماحولیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس چار ستمبر کو شروع ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں 196 ممالک کےتقریبادو ہزار مندوبین شریک ہوئے جنہوں نے 2016 کی پیرس کلائمیٹ ڈیل کا نفاذ ممکن بنانے کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ کانفرنس کے آغاز پر ترقی پذیر ممالک نے ترقی یافتہ اقوام سے مزید ذمے داریوں کا احساس کرنے کا مطالبہ بھی کیا جو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیر ملکوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکاتھا۔یہ کانفرنس اقوام متحدہ کی رواں برس منعقد ہونے والی سی او پی چوبیس کے انعقاد سے قبل کی آخری کانفرنس تھی۔
اس سے قبل جی سيون کے رکن ممالک کی کانفرنس جون 2018میں کینیڈا میں ہوئی تو دنیا بھر کے لوگوں کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھی۔اس دو روزہ سمٹ ميں رکن ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے تجارت، ماحول اور ايرانی جوہری ڈیل جیسے موضوعات پر تبادلہ خيال کیا۔ تاہم اس اجلاس ميں کوئی خاطر خواہ پیش فت نہیں ہو سکی تھی۔ صنعتی طورپرترقی يافتہ ملکوں کے اس گروپ کے اجلاس ميں رکن ممالک کے مابين ’’قوانین کے تحت تجارت‘‘ پر اتفاق ہو گيا تھا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سلسلے ميں مشترکہ اعلاميے کی توثيق کرنے سے انکار کر دياتھا۔اس طرح امریکا، کینیڈا، جرمنی، فرانس، جاپان، برطانيہ اور اٹلی کے رہنماؤں کی يہ سمٹ متعدد امور پر تقسيم کا شکار رہی۔ماحولیاتی تبدیليوں کے حوالے سے بھی اس اجلاس ميں کوئی خاطر خواہ پيش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
ان امور کے علاوہ ماحولیاتی اعتبار سے گزشتہ برس کئی اور اہم واقعات بھی پیش آئے۔مثلا کئی ممالک میں جنگلات میں شدید آگ لگی ،کئی ملکوں میں ہلکے نوعیت کے زلزلے(پاکستان سمیت) اور سونامی آئی اورجرمنی میں کوئلے کی کان کنی کے خلاف 50 ہزار سے زائد جرمنوں نے مظاہرہ کیا۔جون 2018کے اواخر میں یہ رپورٹ سامنے آئی کہ گلوبل فاریسٹ واچ کے ڈیٹا کے مطابق 2017ء میں دنیا سے 29.4 ملین ہیکٹرز یا 72.6 ملین ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات ناپید ہو گئے۔ یہ رقبہ اپنی جغرافیائی وسعت میں جرمنی کے کُل رقبے سے دگنا بنتا ہے۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اس سے بھی ایک سال قبل یعنی 2016ء میں زمین سے 29.7 ملین ہیکٹرز یا 73.4 ملین ایکٹر جنگلاتی رقبہ ختم ہو گیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جنگلاتی رقبے کے لیے 2017ء بہت برا تھا اور 2016 اس سے بھی زیادہ برا۔
ماحول کے تحفّظ کے حوالے سے سالِ گزشتہ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ بہت سی بُری خبروں کے ساتھ 2018میں کچھ اچھی خبری بھی آئیں،لیکن ان کے اثرات بُری خبروں کے مقابلے میں بہت محدود ہیں۔یعنی دنیا بھر میں آج بھی ماحول کا تحفّظ انسانوں کی اوّلین ترجیح نہیں ہے۔