• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلا شبہ روم ان عظیم اور خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے جہاں آپ جائیں گے تو وہاں کی دیو مالائی قصوں والی عمارات کو دیکھ کر مبہوت رہ جائیں گے۔ زمانۂ قدیم کی ایک سلطنت، جس کا دار الحکومت روم تھا، اس سلطنت کا پہلا بادشاہ آگسٹس سیزر تھا جو27قبل مسیح میں تخت پر بیٹھا۔ اس سے قبل روم ایک جمہوریہ تھی، جو جولیس سیزر اور پومپے کی خانہ جنگی اور گائس ماریئس اور سولا کے تنازعات کے باعث کمزور پڑگئی تھی۔

ایک زمانے میں کئی موجودہ ممالک بشمول انگلستان، اسپین، فرانس، اٹلی، یونان، ترکی اور مصر اس عظیم سلطنت کا حصہ تھے۔ رومی سلطنت کی زبان لاطینی اور یونانی تھی۔ مغربی رومی سلطنت500سال تک قائم رہی جبکہ مشرقی یعنی بازنطینی سلطنت، جس میں یونان اور ترکی شامل تھے، ایک ہزار سال تک موجود رہی۔ مشرقی سلطنت کا دار الحکومت قسطنطنیہ تھا۔ مغربی رومی سلطنت4ستمبر 476ءکو جرمنوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئی جبکہ بازنطینی سلطنت29مئی 1453ء میں عثمانیوں کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ کے ساتھ ختم ہو گئی۔ اپنے عروج کے دور میں رومی سلطنت 59لاکھ مربع کلومیٹر (23لاکھ مربع میل) پر پھیلی ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کی ثقافت، قانون، ٹیکنالوجی، فنون، زبان، مذاہب، طرز حکومت، افواج اور طرز تعمیر میں آج بھی رومی سلطنت کی جھلک نظر آتی ہے۔

روم میں 14ویں صدی سے17ویں صدی کے دوران انتہائی خوبصورت اور پرشکوہ عمارات اورعوامی یادگاریں تعمیر کی گئیں۔ گرجاؤں کو فریسسکوز (دیواروں اور چھتوں پر بنائی جانے والی تصاویر) سے سجایا گیا۔ سینٹ پیٹرز کا گرجا گھر تقریباً سولہویں صدی عیسوی میں مکمل ہوا اور اسے معروف آرٹسٹ مائیکل اینجلو نے ڈیزائن کیا۔ اسی زمانے میں یہاں مختلف چوک پر بڑے بڑے مجسمے اور فوارے نصب کیے گئے، جو ساری دنیا میں روم کی پہچان بن گئے۔ رافیل برنینی اور فرانسسکو جیسے فنکاروں نے اپنے مجسموں اور تصاویر سے اس شہر کو ایسی جادو نگری میں ڈھال دیا کہ جو بھی یہاں آتاہے حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

پین تھیون

روم کی ایک اور قدیم یادگار پین تھیون ہے، جو توجہ کی حامل ہونے کے ساتھ ابھی تک اچھی حالت میں ہے۔ اسے27ق م میں آگسٹس سیزر کی قلوپطرہ اور انتھونی پر فتح کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا ۔یہ بُت پرستوں کی تمام دیوتاؤں کے لئے وقف کی گئی عبادت گاہ تھی لیکن اب یہ ایک کیتھولک گرجا ہے۔16ویں صدی میں مائیکل اینجلو نے سینٹ پیٹرز کے گرجا گھر کا گنبد ڈیزائن کرنے سے پہلے اس کا باقاعدہ مطالعہ کیا۔ روم شہر فواروں سے بھرا پڑا ہے مگر سب سے حسین ٹریوی فاؤنٹین ہی کو گردانا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے بدصورت رہائشی عمارتوں نے گھیرا ہوا ہے۔

کیپٹلانو میوزیم

کلوزیئم کے قریب ہی کیپٹلانو میوزیم ہے، جہاں روم شہر کی قدیم تاریخ سے متعلق نوادرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے قریب ہی فورم رومانو کے کھنڈرات قدیم رومی تہذیب کی شان و شوکت کی بھی گواہی دے رہے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں جولیس سیزر کو قتل کیا گیا اور اس کے بعد سینٹ کےامراء نے کیپٹلانو میوزیم کے قریب ایک مندر میں اپنے آپ کو مقفل کر لیا۔ قدیم روما کی عمارتیں حسن و نزاکت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر عجب جاہ و جلال رکھتی ہیں۔ ان کھنڈرات کے سحر نے دنیا کو آج بھی مسحور کر رکھا ہے۔ یہ دنیا کے نفیس ترین خطے اور ایک عہد میں مہذب ترین قوم کے کھنڈرات ہیں۔

کلوزیم ایمپی تھیٹر

یہ عمارت کھنڈر ضرور ہے لیکن یہ کھنڈرات اس کی تاریخی حیثیت چیخ چیخ کر بتاتے ہیں۔ اس کا عام نام فلاویئن ایمپی تھیٹر ہے اور یہ شاہی دَور کی علامت ہے۔ یہ157فٹ اُونچا ہے جو کہ جدید زمانے کی 16منزلہ عمارت کے برابر ہے۔ اس کی لمبائی 620فٹ اور چوڑائی تقریباً 510فٹ ہے۔ اس کے 80دروازے تھے اور اس میں50ہزار سے زائد تماشائیوں کی گنجائش تھی۔ اسے تعمیر کرنے کا حکم 72ء میں شہنشاہ وسپاسین نے دیا تھا، جسے80ء میںمیںمکمل کرلیا گیا۔ جب آپ اس کے پاس کھڑے ہونگے تو اس کی بابت ضرور سوچیں گے کہ کاش یہ دیواریں بول سکتیں۔ حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس ایمپی تھیٹرکی تعمیر اُس مالِ غنیمت سے مکمل کی گئی تھی، جو رومی لشکر 70ء میں یروشلم کی بربادی کیساتھ اپنی فتح مکمل کرکے یہودیہ سے لائے تھے۔ صدیوں تک اس ایمپی تھیٹر میں خونی مقابلے ہوتے رہے۔

روم کے مشہور چوک

پیازا اسپانا کا شمار روم کے قابل دید چوراہوں میں ہوتا ہے، جہاں مشہور شعراء شیلے اور کیٹس کے گھر بھی واقع ہیں۔ پیازا نووانا جہاں برنینی کا بنایا ہوا خوبصورت فوارہ موجود ہے، ایک قدیم مصری ستون پر تعمیر ہوا ہے۔ روم کا سب سے اہم چوراہا ’پیازا وینیزا‘ ہے، وہاں ایک انتہائی خوبصورت عمارت وییتوریانو ہے، جہاں سے مسولینی اپنے عہد میں فاشزم کے فروغ کے لیے تقریریں کرتا تھا۔

تازہ ترین