• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے دن یاد نہیں ہے، مجھے تاریخ یاد نہیں ہے۔ بہت پرانی بات ہے مگر مجھے مہینہ یاد ہے، مجھے سن یاد ہے۔ مہینہ تھا دسمبر کا اور سن تھا انیس سو اکہتر (1971ء)! میں ریڈیو پاکستان کراچی کی طرف سے ’’اک اک اسکول‘‘ میں اینٹی سبوتاژ (Anti-Sabotage) یعنی تخریب کاری کے توڑ کی ٹریننگ لے رہا تھا۔ کسی خفیہ ادارے کا تربیتی اسکول تھا۔ مجھے ’’اک اک اسکول‘‘ کا انگریزی نام یاد نہیں ہے شاید Ack-ack اسکول تھا۔ میرے ساتھ کراچی ٹیلیوژن کے دو سینئر پروڈیوسر تشبیہ الحسن اور ظہیر بھٹی ٹریننگ لے رہے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جس ادارے میں ہم تربیت لے رہے تھے، وہ کلفٹن میں ساحل سمندر کے قریب تھا۔ دن ٹھنڈے تھے۔ صبح گیارہ یا ساڑھے گیارہ کے قریب چائے کے وقفے کے دوران ظہیر بھٹی، تشبیہ الحسن اور میں چائے کے مگ لے کر ادارے کی چھت پر دھوپ میں کھڑے چائے پی رہے تھے تب اچانک دو جنگی لڑاکا جہاز ایک طرف سے بے انتہا تیزی سے پرواز کرتے ہوئے آئے اور ہمارے سر پر سے گزر گئے۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا۔ چند سیکنڈوں میں جہازوں نے کیماڑی پر ڈائیو Dive کیا اور اپنے پیچھے دھویں کے بادل اور لپکتے ہوئے شعلے چھوڑ گئے۔ دشمن کے جہازوں نے آئل ٹرمینل کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ کراچی پر پہلا ہوائی حملہ تھا۔

وہ دن کراچی کے المناک دن تھے۔ عجیب قسم کی بے یقینی کا عالم تھا۔ کسی کو کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا تھا۔ مشرقی پاکستان کی صورتحال مغربی پاکستان والوں سے چھپائی جارہی تھی۔ پاکستان ٹیلیوژن اور ریڈیو پاکستان لوگوں کو یقین دلوانے میں لگے ہوئے تھے کہ مشرقی پاکستان میں سب کچھ اچھا ہو رہا ہے۔ مٹھی بھر تخریب کاروں اور شرپسندوں کو ٹھکانے لگایا جارہا ہے۔ لوگ بی بی سی اور وائس آف امریکہ سے خبریں سنتے تو چکرا جاتے، پریشان ہوجاتے۔ دن بھر افواہیں گشت کرتیں۔ لوگ بے مقصد اور بے معنی بحث کرتے، کبھی آپے سے باہر اور کبھی مایوس ہوجاتے، بجھے بجھے دکھائی دیتے۔ شام ہوتے ہی لوگ گھروں کو لوٹ جاتے، بتیاں بجھا دیتے۔ رونقیں روٹھ گئیں۔ رات میں اچانک سائرن بجتے اور پھر ہیبت ناک اندھیرا شہر کو نگل لیتا۔ کیا ہورہا تھا؟ جب کوئی کسی سے الگ ہورہا ہوتا ہے تو کیا اسی طرح ہوتا ہے؟ جب رشتے ٹوٹتے ہیں تو کیا فضا اسی طرح سوگوار ہوجاتی ہے؟ جب دوست، دوست سے جدا ہوتے ہیں تو کیا وجود میں ماتم کدے کا احساس ہوتا ہے؟

شہر میں بنگالیوں پر کڑی نظر رکھی جارہی تھی خاص طور پر پڑھے لکھے بنگالیوں پر۔ماحول اس قدر آلودہ ہوچکا تھا کہ دیکھے بھالے لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دفتروں میں کام کرنے والے بنگالی سہمے سہمے رہتے تھے۔

میرا اوڑھنا بچھونا تب ریڈیو پاکستان کراچی میں تھا۔ ایک رات سائرن بجنے کے بعد بلیک آئوٹ تھا۔ براڈ کاسٹنگ ہائوس گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا تھا تب اچانک براڈ کاسٹنگ ہائوس سے متصل لان سے لوگوں کا شور شرابا سننے میں آیا۔ میں نے باہر نکل کر دیکھا۔ اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بس اتنا محسوس ہورہا تھا کہ چوکیداروں اور گارڈز نے کسی کو پکڑ رکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں جاکر دیکھتا کہ چوکیداروں نے کس کو پکڑ رکھا ہے، وہ اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور اسے قانون نافذ کرنے والوں کے حوالے کردیا۔ آناً فاناً وہ اسے لے کر چلے گئے۔ پوچھ گچھ کرنے پر پتا چلا کہ وہ کوئی غیر نہیں تھا، وہ میرا کولیگ، میرا دوست انیس الرحمان تھا۔ ریڈیو پاکستان کی مانیٹرنگ سروس کے ڈپٹی ڈائریکٹر براڈ کاسٹنگ ہائوس میں ان کا دفتر تھا۔ انیس الرحمان بھی تقریباً چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ دنیا بھر کے ریڈیو کی نشریات میں پاکستان کے بارے میں خبروں کی مانیٹرنگ اور ریکارڈنگ کرنے والے شعبے کے انچارج تھے۔ بنگالی زبان کے ادیب تھے، کہانیاں لکھتے تھے، کبھی کبھار شاعری بھی کرلیتے تھے۔ دل کے سچے، نیت کے کھرے، ہنس مکھ تھے۔ انیس پر چوکیداروں نے الزام لگایا کہ وہ ہندوستانی ہوائی جہازوں کو ٹارچ سے سگنل دے رہا تھا۔ یہ احمقانہ الزام تھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی بڑی بڑی عمارتوں اور گھنے درختوں کے درمیان واقع ہے۔ لڑاکا جہاز بجلی کی سی تیزی سے پرواز کرتے ہیں۔

مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں اپنے دوست، اپنے بھائی انیس الرحمان کیلئے کچھ نہ کرسکا۔ اس کے بعد پھر کبھی انیس سے میرا رابطہ نہ ہوسکا۔ برسہابرس گزر گئے۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا۔ میں نے ریڈیو پاکستان کو الوداع کہا اور پیپلز اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے میڈیا علوم سے وابستہ شعبہ ایجوکیشنل ٹیکنالوجی میں شامل ہوگیا تب ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر برصغیر کی پہلی فاصلاتی طریقہ کار سے پڑھانے والی اوپن یونیورسٹی قائم ہوئی تھی۔ جہاںدرس و تدریس کا کام ریڈیو اور ٹیلیوژن کے ذریعے ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے کے بعد جنرل ضیاءالحق نے پہلا کام یہ کیا کہ پیپلز اوپن یونیورسٹی کا نام تبدیل کرکے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رکھا۔

ایک روز میں سپر مارکیٹ میں کسی دکان پر کھڑا تھا اور سودا سلف لے رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے قریب کھڑا ہوا شخص مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، اس نے میرا نام لیا ’’جلیل…!‘‘

وہ انیس الرحمان تھا۔ بنگلہ دیش کی ایمبیسی میں کلچرل اتاشی لگ کر غیر ملکی بن کر اپنے وطن آیا تھا۔

تازہ ترین