علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان واپسی اور لاہور میں جلسہ عام کا تخیل دینے والے اور اس کیلئے مالی و انتظامی تعاون کرنے والے سبھی علامہ صاحب کی پرفارمنس سے اور آخری لمحات تک تقریر کے متن اور مافی الضمیر میں مجوزہ تبدیلیوں سے بھی مطمئن ہیں۔ میری معلومات کے مطابق سب سے زیادہ خوش اور مطمئن جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر جان ایسپوزیٹو (Esposito) ہیں جنہوں نے علامہ طاہر القادری کے دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بارے میں 413صفحات پر مشتمل انگریزی میں شائع کردہ فتویٰ کا پیش لفظ ہی نہیں لکھا بلکہ علامہ طاہر القادری کو امریکی حکومتی نظام سمیت متعدد اہم امریکیوں سے بھی متعارف کرایا اور اس سے آگے کے مراحل میں حتی المقدور تعاون کیا۔ 1980ء کے عشرے میں اسلام کے بارے میں تدریس و تحقیق کیلئے مشہور امریکی یونیورسٹی ٹیمپل یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد اعلیٰ پائے کے محقق پروفیسر اسمٰعیل فاروقی کی سرپرستی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم جان ایسپوزیٹو اس وقت امریکہ کے سرکاری اور علمی نظام میں اسلام کے حوالے سے نہ صرف انتہائی محترم اور معتبر مانے جاتے ہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور علمی امور میں ان کی رائے اور سفارش کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سعودی پرنس ولید کے نام کی چیئر پر بھی فائز ہیں ان کے استاد پروفیسر اسمٰعیل فاروقی اور ان کی اہلیہ یونیورسٹی کیمپس کی حدود میں ہی اپنی رہائش گاہ پر انتہائی پراسرار طور پر اچانک قتل کردیئے گئے اور اس قتل کا معمہ میری معلومات کے مطابق آج تک حل نہیں ہوا۔ مرحوم سے مختلف اجتماعات میں مجھے ملاقاتوں اور مختلف موضوعات پر ان کی رائے جاننے کے مواقع ملے ان کی موت امریکہ میں مسلمان کمیونٹی کیلئے نہ صرف ایک عالم اور گائیڈ کی موت تھی بلکہ ان کے بعد ایک عرصہ تک مسلم کمیونٹی خود کو بے سہارا تصور کرتی رہی۔ بہرحال کینیڈین شہریت کے حصول کے بعد علامہ طاہر القادری اب جس اہتمام اور انتظام کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور عوامی منظر پر لوٹے ہیں یہ ان کی صلاحیتوں کا ایک منفرد اور اعلیٰ نمونہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ثمرات سے مستفید ہونے والے (Beneficiaries of war on terror) سیاستدانوں، حکمرانوں اور ثمرات حاصل کرنے والوں میں سے کوئی بھی پاکستانی علامہ صاحب جیسی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار یا کردار ادا نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آمد اور تقریر سے حکمرانوں اور اپوزیشن میں کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا بلکہ عمران خان بھی ان کی تقریر کے حوالے پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے نہ تو حکومت کو چیلنج کیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی حمایت کی بلکہ آئین اور نظام کے حوالے سے پہلے سے طے شدہ انداز میں بات کی۔ پاکستان میں انتخابات کو رکوانے یا ملتوی کرنے کی بات بھی نہیں کی اور پھر 10جنوری کے مارچ کا اعلان بھی کر دیا۔ بعض حلقے تجسس میں ہیں کہ علامہ طاہر القادری کا مشن کیا ہے؟ میری ناقص معلومات کے مطابق علامہ صاحب نہ تو سربراہ مملکت یا وزیراعظم بننے کیلئے آئے ہیں اور نہ ہی دہری شہریت کے حامل علامہ صاحب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس کی اجازت ہے لہٰذا احباب خاطر جمع رکھیں علامہ صاحب اقتدار اور انتخابی عہدے حاصل کرنے کی دوڑ میں نہیں ہیں بلکہ ان کا نعرہ ہی یہ ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے قبل نظام میں تبدیلی اور ریاست کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے کا مشن مکمل ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا پاکستان کے اہل اقتدار بلکہ اپوزیشن بھی کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ علامہ صاحب کی پاکستان آمد نے دہشت گردی کی مخالف قوتوں میں بھی گروہی و سیاسی دوریاں کم کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائدین کی لاہور کے جلسہ میں موجودگی کا فیصلہ اور عمل اس کی ایک مثال ہے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے شہر لاہور میں پُرامن اور منظم وکامیاب جلسے کا انعقاد بھی پیش نظر رہے ورنہ مخالفین کے جلسوں کو درہم برہم کرنے کے واقعات بھی تاریخ لاہور کا حصہ ہیں لہٰذا علامہ طاہر القادری نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اس ضخیم فتویٰ کے اجرا، اشاعت او وسیع پیمانے پر اس کی مفت تقسیم کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں بیٹھ کر گزشتہ ڈیڑھ سال یا اس سے زائد عرصہ میں اس انداز سے پاکستان آنے اور عوامی سطح پر اپنے مشن کی کامیابی کیلئے جو منظم تیاری کی تھی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس کی ایک مثال نیویارک میں علامہ صاحب کے پہلے اجتماع کی تھی جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت تھی اور تمام مناظر دیکھنے کا موقع ملا۔ تقریباً 450پاکستانی مرد و خواتین پر مشتمل اس اجتماع میں علامہ صاحب نے اردو کی بجائے انگریزی میں تقریر کی، اردو سمجھنے والوں کے مجمع سے انگریزی میں خطاب کی وجہ جاننے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ہال میں تقریباً 20 گوری نسل کے خوش لباس افراد ادھر ادھر کھڑے، بیٹھتے نظر آئے معلوم ہوا کہ علامہ صاحب کی بحفاظت آمد و رفت کیلئے یہ حضرات ڈیوٹی پر سرکاری اہلکار ہیں علامہ صاحب نے بڑے مدلل انداز میں اپنے فتویٰ کے بارے میں دلیل، حوالے اور تاویل پیش کی مغرب کی نماز کا وقفہ ہوا تو نیویارک ریاست کے کاؤنٹر ٹیرر ازم کے سربراہ امریکی اہلکار سے سامنا ہوگیا جو ایک پاکستانی سے محو گفتگو تھے لہٰذا مجھ سمیت بعض پاکستانیوں کیلئے یہ بات معمہ تھی کہ آخر پاکستانیوں کے مجمع میں صرف ڈیوٹی پر متعین چند امریکی اہلکاروں کی خاطر علامہ صاحب نے اردو کی دل نشینی کے بجائے انگریزی میں وعظ فرمانے کی ضرورت کیوں سمجھی۔
تقریب کے بعد علامہ صاحب نے مجھ سمیت چند پاکستانیوں سے ہال کے بالائی حصے میں ملاقات کرکے کرم فرمائی کی تو ان تمام گورے اہل کاروں کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ فتویٰ کی ایک ایک کتاب بھی مفت دی اور پھر اس کے بعد نیویارک اور نیوجرسی میں کئی کئی ہزار پاکستانیوں کے اجتماع منعقد کرنے کے کامیاب تجربات بھی کئے گئے۔ بہرحال جان ایسپوزیٹو خوش اور مطمئن ہیں۔