خرم علی
’’ ہانیہ ٹھیک طرح لکھو ناں، یہ کیسے لکھ رہی ہو، دیکھو کتنی خراب لکھائی ہے تمہاری، ایسا لگ رہا ہے، کاپی میں کیڑے بنائے ہوں،میں کتنا سمجھاتی ہوں تمہیں کہ خوش خط کیا کرو، یہ جو دن بھر موبائل پر گیمز کھیلتی رہتی ہوں ناں، اس سے بہتر آدھا گھنٹہ خوش خط کرلو تو لکھاےی اچھی ہو جائے گی تمہاری، اپنی لکھائی پر توجہ دو، دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ہانیہ کی امی اسے ہوم ورک کراتے ہوئے ،مسلسل ڈانٹ رہی تھیںاور لکھائی بہتر کرنے کے لیے کہہ رہی تھیں ۔ ماماایک بات تو بتائیں، ہانیہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا، آج کل تو تمام کام کمپیوٹر پر ہی ہوتا ہے، چاہے، دفتر ہو یا اسکول ہر جگہ تمام کام ٹائپنگ کا ہی ہوتا ہے، پھر آپ مجھے لکھائی بہتر کرنے کے لیے کیوں کہتی رہتی ہیں،ہانیہ کی بات سن کر اس کی ماما خاموش ہوگئیں کیوں کہ ان کے پاس کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ ‘‘
ویسےیہ صرف ہانیہ نہیں بلکہ اکثر نوجوان سوچتے ہیں کہ بچپن میں لکھائی بہتر کرنے کے لیے کتنی مشق کرتے تھے، مگر اب تو ہر کام ہی کمپیوٹرائزڈ ہوتا ہے، پھر لکھائی پر اتنی توجہ دینی کی کیا ضرورت ۔۔۔ ایسے وقت میں جب کہ قلم اور کاغذ کا انجام معدومیت کی صورت اختیار کرنے کے قریب نظر آ رہا ہے۔ہاتھ سے لکھنے کے فوائد کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے، جن سے جدید ٹیکنالوجی کے نام پر صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ایک انگریزی ویب سائٹ کے مطابق گرچہ بہت سے تعلیمی اداروں نےٹیکنالوجی پر مکمل انحصار کرتے ہوئے، ہاتھ سے لکھنے کو نظر انداز کر دیا ہے، تاہم حالیہ تحقیق میں سائنس دانوں نےاس بات پر زوردیا ہے کہ ہاتھ سے لکھنے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
سیکھنے کے عمل میں بہتری
علم نفسیات کی ایک سوسائٹی کی جانب سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالےکے مطابق لیپ ٹاپ کے بہ جائے ہاتھ سے نوٹس لکھ کر ان کو مرتب کرنے سےسمجھنے میں بہتری آتی ہے۔ لیکچر کے دوران لیپ ٹاپ کے ذریعے نوٹس کو مرتب کرنے سے طالب علم کا معلومات کے ساتھ رابطہ کمزور رہتا ہے ،جو خود سیکھنے کے عمل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔کیوں کہ تائپنگ کے دوران تمام تر توجہ صرف کمپوزنگ پر مرکوز ہوتی ہے، جب کہ ہاتھ سے لیکچر نوٹ کرنے والا نوجوان سمجھ کر لکھتا ہے، جس سے سیکھنے کے عمل میں بہتری آتی ہے۔
دماغی صلاحیتوں کا پروان چڑھنا
ایک معروف امریکی جریدے میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہاتھ سے لکھنے سےسیکھنے کےعمل میں انسانی دماغ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ہاتھ سے لکھائی کے لیے انگلیوں کی درست حرکت کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔انسانی دماغ سے متعلق تحقیقی مطالعوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے کے دوران دماغ کے مخصوص حصوں میں سرگرمی ہوتی ہے،یہ وہ حصے ہوتے ہیں جو کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے کی بورڈکے ذریعے لکھتے ہوئے کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔
تشکیل میں مددگار
تحقیق سے ثابت ہے کہ جو طالب علم قلم سے لکھتے ہیں ،وہ یقینا ًکمپیوٹر کیبورڈ استعمال کرنے والوں سے زیادہ لکھتے ہیں۔ یہ لوگ تیزی سے لکھنے کے علاوہ زیادہ مکمل اوربہترتشکیل کے ساتھ جملوں کو تحریر کرتے ہیں۔
پڑھنے میں دشواری
ہاتھ سے لکھائی اُن طلبہ کے لیے مددگار ہوتی ہے جو پڑھنے میں دشواری Dyslexia سے دوچار ہوتے ہیں۔ قلم کے ذریعے دائیں سے بائیں یا اس کے برعکس لکھائی ایسے طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہے جن کو الفاظ کو درست طور پر پڑھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
سُکون بخش
ہاتھ کی لکھائی کے ایک ماہر ڈاکٹر مارک سیور کہتے ہیں کہ سکون سے متعلق ایک جملہ تحریر کرنا درحقیقت ایک قسم کا "علاج" ہے۔ مثلا یہ جملہ "میں خیریت سے ہوں گا" دن میں کم از کم 20 مرتبہ لکھنے سے واقعتا انسان زیادہ راحت اور سکون کا حامل ہو سکتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔
بعض روایتی مہارتیں اور صلاحیتیں اتنی اہم اور قیمتی ہوتی ہیں جن کو ہمیں کھونا نہیں چاہیے۔ بالخصوص جب کہ ہماری عقل اور دماغ کے لیے یہ بہت فائدے مند ہوں۔