• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام کا نظام عفت و عصمت … سورہ نورکی روشنی میں

تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(گزشتہ سے پیوشتہ)
الزام کے ثبوت کیلئے چار گواہوں کا مطالبہ
{آیت۱۳-۱۸}وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں(۱۳) اگر اللہ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا(۱۴) جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی‘ گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی(۱۵) تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں یااللہ! تو پاک ہے‘ یہ تو بہت بڑا بہتان ہے (۱۶) اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو(۱۷) اللہ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے‘ اور اللہ علم و حکمت والا ہے(۱۸) فتنہ باز منافقوں پر شدید نکیر اور ان سادہ لوح مسلمانوں کو سخت تنبیہ جنہوں نے اتنے حساس مسئلے کو معمولی جان کر اٹھایا اور مسلمان معاشرہ میں سخت انتشار و ہیجان پیدا کردیا۔ جیسے حضرت مسطح ‘ حضرت حسان بن ثابتؓاور حمنہ بنت جحش کیونکہ یہ مومن لوگ تھے اور مفسرین کے مطابق یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی لیکن جن کے دل ایمان سے خالی تھے جیسے منافقین اور ان کا سردار ابن ابی بن سلول۔ یہ لوگ اس حکم میں نہیں ہیں۔ کیونکہ اس کے پاس ایمان تھا اور نہ عمل صالح۔ اور اصول یہ بتایا جارہا ہے کہ اگر کسی کو برائی میں ملوث کررہے ہو تو چار گواہ پیش کئے جائیں ورنہ ایسے لوگ اللہ کی نگاہ میں جھوٹے ہیں تحسبونہ ھیناً وھو عنداللہ عظیم سادگی کے باعث تم نے بھی اس معاملے کو بہت ہلکا جانااور تم میں سے بعض کی زبانیں اسے اچھالتی پھریں۔ کیا تم نے اس بات کو سہل جانا حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ سہل بات نہیں بہت سخت واردات ہے اور کسی عام آدمی کی عزت کا مسئلہ ہی نہیں سرور دوعالم ﷺکے حرم مبارک کا تھا۔بلکہ اس غفلت پر ان لوگوں کی سخت خبر لی گئی کہ جب تمھیں اس طرح کی باتیں سنائی دے رہی تھیں تو تم نے ان گندی باتوں کو سننے اور اس کی تردید میں سستی سے کام کیوں لیا؟ تم نے فوراً یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ قسم باللہ یہ تو صریح بہتان ہے ۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو(۱۷)اس آیت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ ان کی ہر خطا مقبول التوبۃ اور پاک ہوکر آخرت میں رحمت و مغفرت پر منتج ہوئی۔
خلاصہ احکام
اس آیت میں مسلمانوں کوتین آداب ملحوظ رکھنے کی تلقین کی گئی کہ(۱) اس طرح کا بیہودہ کلام سنتے ہی اپنی ماں کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہئے تھا(۲) اس معاملے کو آسان نہ سمجھتے بلکہ اس کی تحقیق کرتے(۳) صاف کہہ دیتے کہ سبحانک ھٰذا بھتان عظیم۔
واقعہ افک کا خلاصہ
واقعہ افک کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ قدیم و جدید تمام مفسرین نے اسے ذکرکیاہے ۔اس کا خلاصہ ذکرکیاجاتاہے !’’۶ ھ کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ بنی مصطلق سے مدینہ منورہ واپس تشریف لارہے تھے۔ اس سفر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ آپؐ کے شریک سفر تھیں۔ آپؐ کی سواری کااونٹ علیحدہ تھا۔ اس پر ہودج تھا آپ ؐہودج میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ حمّال ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیتے تھے۔ آپ ہلکی پھلکی اور کم سن تھیں۔ ایک روز اتفاق سے ایک منزل پر آپؐ کو ہودج سے باہر ویرانے کی طرف جانے کی ضرورت پیش آئی۔ واپس آئیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا ہودج پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ حمالوں کاخیال بھی ادھر نہ گیا کہ آپ موجود نہیں ہیں۔ اب جب آپ واپس اپنی جگہ پر آئیں تو قافلہ جاچکا تھا ‘ سخت متاسف ہوئیں لیکن آپ نے یہ خیال کیا کہ آگے چل کر جب میری تلاش ہوگی اور میں نہ ملوں گی تو کوئی ڈھونڈنے بہرحال یہاں ضرور ہی آئے گا۔ رات کا پچھلا پہر تھا آپ چادر لپیٹ کر وہیں بیٹھ گئیں ‘ پریشانی تھکاوٹ ‘ جنگل کی تنہائی یہ سب چیزیں آپ کے اعصاب پر بری طرح چھاگئیں۔ سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں گم ہوگئیں۔ ایک صحابی حضرت صفوان ؓتھے ان کی ڈیوٹی تھی کہ وہ قافلے سے کچھ فاصلہ پر پیچھے پیچھے چلا کریں۔ گری پڑی چیز کی ‘ یا بھولے بھٹکے کی خبر گیری کیلئے۔ وہ جب صبح سویرے یہاں پہنچے تو پہچانا اور بے اختیار پکار اٹھے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آواز سے سیدہ صدیقہ ؓکی آنکھ کھل گئی ‘ انھوں نے فورا ً منہ ڈھانپ لیا۔ حضرت صفوان ؓ نے چپکے سے اونٹ قریب لابٹھایا۔ ام المؤمنین پردہ کے ساتھ اونٹ پر سوار ہوگئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل تھامے قافلہ میں جاکر ملادیا۔ بات کچھ بھی نہ تھی لیکن اس سفر میں منافقین ابن ابی کی قیادت میں بڑی تعداد میں شریک تھے۔ اس نے اپنی خباثت سے خوب خوب حاشیہ آرائی کی۔ اور گنتی کے تین مسلمان (دومرد ایک حسان بن ثابت ‘ اور مسطح اور ایک عورت حمنہ بنت جحش ) بھی سنی سنائی باتوں کو دہرانے لگے۔ تمام پاکیزہ خصلت ‘ پاکیزہ مزاج مسلمانوں کو اس الزام تراشی سے جو تکلیف پہنچی ہوگی۔ اس کا کیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خصوصاً جناب صدیقہ ‘ آپ کے والد مکرم حضرت ابوبکر صدیق ؓاور خود نبی ﷺکو۔ تقریباً پچاس دنوں بعد یہ آیات برأت خود قرآن مجید میں نازل ہوگئیں ‘‘
واقعہ افک سے منافقین کے مذموم عزائم
جنگ احزاب میں بری طرح ناکامی کے بعد کفار کی ہمت اس حد تک ٹوٹ گئی تھی جسے محسوس کرتے ہوئے نبیﷺنے فرمایا کہ آج کے بعد قریش تمہارے مقابلے میں کبھی نہیں آئیں گے ‘ بلکہ تم آگے بڑھ کر اقدام کرو گے ۔گویا اب مخالف اسلام قوتیں بے دست وپا ہوچکی ہیں۔ اسلام کی اس فتح کے پیچھے اقتدار ‘ اسلحہ و اسباب اور عددی برتری نہ تھی بلکہ ان کی اخلاقی برتری تھی۔ دشمنوں نے اس تفوق کو کچلنے کیلئے کئی بار کوشش کی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی تدابیر کو ہمیشہ ناکام بنا دیا۔ اس قسم کا ایک مظاہرہ اس وقت ہوا جب آپ نے رسم تبنیت پر ضرب کاری لگاتے ہوئے منہ بولے بیٹے حضرت زیدبن حارثہ کی مطلقہ اور اپنی پھوپھی زاد سیدہ زینبؓ سے نکاح کیا تھا۔ اور دوسرا سخت وار اس غزوہ کے موقع پر کیا یعنی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ پر تہمت لگائی !پھرجب واقعہ افک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی جس سے منافقین کا ایک مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺاور حضرت ابوبکر صدیق کی عزت پر حملہ کیا جائے اور دوسری طرف اسلامی معاشرے کی بلند اخلاقی اور وقار کو گرانے کی کوشش کی جائے !اللہ تعالیٰ نے ان مواقع پر منافقوں کی مناسب مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی توجہ یہ تعلیم دینے کی طرف مبذول کرائی کہ تمھارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ‘ ان کو بھردو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کرلو۔ تاکہ اول تو مسلم معاشرہ برائیوں کی پیداوار اور ان کے پھیلائو سے محفوظ رکھا جائے اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا اور فوری تدارک کیا جائے !
اشاعت فحش سنگین اور ناقابل برداشت جرم ہے
{آیت ۱۹-۲۰} جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے(۱۹) اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ بڑا شفیق اور مہربان ہے ‘ تو سخت سزا ملتی (۲۰) موقع و محل کی مناسبت سے تو آیت کا براہ راست مفہوم قصہ افک کے تناظرمیں سمجھنا مشکل نہیں ہے لیکن آیت کا اطلاق عمومی ہے یعنی وہ تمام قصے ‘ کہانیاں‘ ڈائجسٹ ‘ اشعار ‘ غزلیں ‘ گانے ‘ تصویریں اور تفریحی مشاغل‘ میڈیا ‘ سینما‘ فلم انڈسٹری ، اور وہ تمام اڈے جن سے معاشرہ میں فحش پھیلتا ہو اس آیت کی رو سے سخت و قبیح جرم ہیں۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ یہ ناجائز ہیں اور ان کے سرانجام دینے والے ’’ستارے‘‘ یا’’ ہیرو‘‘ نہیں ’’خباثت کے غبارے‘‘ اور’’ زیرو‘‘ ہیں۔ یہ لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہئے۔ ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا ‘ قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہئے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کررہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سخت سزاؤں کے مستحق ہیں۔ کیونکہ عام لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے برے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ‘ کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طورپران کا کس قدر نقصان اسلامی معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اس لیے جن برائیوں کی وہ نشاندھی کررہا ہے انھیں پوری قوت سے مٹانے کی کوشش کرو۔ کیونکہ اس راستے سے شیطان تمھیں نجاستوں میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھائے اور رتمھیں اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے جاؤتو تم میں سے کوئی شخص اپنی قوت کے زور سے پاک نہیں رہ سکتا۔اللہ خوب جانتا ہے کہ بھلائی کاجذبہ کس میں موجود ہے اسی لحاظ سے جس کو چاہتا ہے وہ پاک کردیتا ہے۔ اور سمجھنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔
واقعہ میں ملوث مسلمانوں سے درگزر کرنے کی ہدایت
{آیت ۲۱-۲۲} ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا‘ تو وہ اسے بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا لیکن اللہ جسے پاک کرنا چاہے‘ کر دیتا ہے۔ اور اللہ سمیع و علیم ہے(۲۱) اور قسم نہ کھائیں وہ لوگ جو تم میں سے جو صاحب مقدرت اور صاحب استطاعت ہیں۔ اس بات کی کہ وہ اپنے رشتہ دار اور مسکینوں اور مہاجروں کی مدد نہ کریں گے۔ بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف فرما دے؟اللہ غفور رحیم ہے ۔}جو صادق الایمان مسلمان واقعہ افک میں مخالف طرف جاکھڑے ہوئے ‘ ان سے درگزر کرنے کاحکم ! سیدہ صدیقہ ؓ پر لگائے گئے الزام کو ہوا دینے والے ان صادق الایمان لوگوں میں سے ایک مسطح بن اثاثہ بھی تھے۔ ان کی والدہ حضرت صدیق ؓ کی رشتے میں خالہ تھیں۔ خاوند کی وفات کے بعد ام مسطح اور خود مسطح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی زیرکفالت تھے۔ ان پر حضرت ابوبکرؓ کے بہت احسان تھے۔ اس لئے آپ کو ان کے اس کردار سے بہت دکھ ہوا۔ جب سیدہ عائشہ کی برات نازل ہوگئی تو حضرت صدیق ؓنے ان کی کفالت بند کرنے کی قسم کھالی۔ بعض دوسرے صحابہؓ نے بھی ایسے تمام افراد کی مدد جاری رکھنے سے ہاتھ کھینچ لینے کا اعلان کردیا مگر جب یہ آیت اتری: اور قسم نہ کھائیں وہ لوگ جو تم میں سے جو صاحب مقدرت اور صاحب استطاعت ہیں۔ اس بات کی کہ وہ اپنے رشتہ دار اور مسکینوں اور مہاجروں کی مدد نہ کریں گے۔ بلکہ معاف کر دینا اور درگزر کر لینا چاہیے کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف فرما دے؟اللہ غفور رحیم ہے {۲۲ } تواس کو سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق ؓنے فورا کہا (بلیٰ واللہ انا نحب ان تغفرلنا یا ربنا )واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمادے۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کردی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے اسی طرح باقی صحابہ کرام نے بھی اپنی اپنی قسمیں واپس لے لی تھیں۔
پاکدامن خواتین پر تہمت تراشی کی سنگینی
{آیت۲۳-۲۵}جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے(۲۳) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے(۲۴) اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے اور سچ کو سچ کردکھانے والاہے(۲۵)عفت مآب خواتین پر بہتان کی نحوست اور سزا ذکر کی جارہی ہے کہ جولوگ پاکدامن ‘ سیدھی سادی شریف مومنہ عورتوں پر تہمت تراشتے ہیں دنیاوآخرت میں ان پر لعنت ہے اور بہت بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پائؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق ہے اور سچ کو سچ دکھانے والاہے۔ جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے(۲۳) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے(۲۴) اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے اور سچ کو سچ کردکھانے والاہے(۲۵) غافلات وہ بھولی بھالی عورتیں جنہیں خبر ہی نہیں کہ بدکاری وبدچلنی کیا ہوتی ہے۔ جو چھل بٹنے نہیں جاتیں ‘ جن کے دل پاک ہیں جن کے حاشیہ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کوئی ان پر بدچلنی کا الزام لگاسکتا ہے۔ اسلام نے شریف پاکدامن عورتوں کا وصف یہ بیان کیا ہے۔ لیکن کھیل کھائی ہوئی ‘ چاروں کھونٹ گھومی گھامی ہوئی ‘ اپنے حقوق کیلئے مرنے مارنے والیاں اور کسی معاشرہ میں جو درجہ بھی رکھتی ہوں سو ہیں لیکن اسلامی معاشرے میں یقیناً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ یہاں عظمت عفت وپاکدامانی میں ہے جو اُن کے ہاں شاید اولیت نہیں رکھتا۔
تازہ ترین