اسلام آباد (صالح ظافر) سابق وزیر خارجہ بیرسٹر خورشید محمود قصوری نے ملک کے نئے چیف جسٹس جسٹسآصف سعید کھوسہ کو لکھے ایک کھلے خط میں ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے عہدے کو بغیر سوچے سمجھے اور بے لگام استعمال کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اس سے ماتحت عدالتوں کے کام کرنے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور یہ وہ مناسب طریقہ کار نہیں جس کی ضمانت دی جاتی ہے یا جس میں اپیل کا حق ہوتا ہے۔ خورشید قصوری کا تعلق قانون دان فیملی سے ہے۔ انہوں نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو لکھے خط میں انہوں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے دور کے حالات و سرگرمیوں کا احاطہ کیا ہے اور ساتھ ہی کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ خورشید قصوری نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے چیف جسٹس پاکستان ایسا ترکہ چھوڑیں گے جس کی وجہ سے ان کے فیصلوں پر آنے والے وکلاء اور جج صاحبان فخر کریں گے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ صرف دانش مندانہ فیصلے ہی وقت کے امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سبکدوش چیف جسٹس ثاقب نثار کا ان کی ساکھ اور قانونی امور پر مہارت کی وجہ سے احترام کرتے ہیں لیکن نیک نیتی سے کیے جانے والے اقدامات بھی اگر سوچ سمجھ کر نہ کیے جائیں تو ان کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ خورشید قصوری نے نشاندہی کی ہے کہ یہ بات سمجھنے کیلئے دانائی کی ضرورت نہیں کہ ایسے اضطرابی اور جلد بازی میں کیے جانے والے ’’مقبول‘‘ فیصلے وقت کے کڑے امتحان کا مقابلہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی معیشت کے قوانین کی نفی کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے خورشید قصوری نے کہا کہ سینئر بیوروکریٹس نے شکایت کی تھی کہ وہ ان کے کام میں بہت زیادہ مداخلت کرتے تھے، ان کی عادت تھی کہ وہ انہیں طلب کرتے تھے اور انہیں گھنٹوں انتظار کراتے تھے، ان کا قیمتی وقت ضایع کرتے تھے اور ساتھ ہی ان کی ساکھ مجروح ہوتی تھی۔ یہ طرز عمل جسٹس ثاقب نثار کے دور میں بھی جاری رہا اور اس کی وجہ سے بیوروکریسی تقریباً مفلوج ہو کر رہ گئی اور تقریباً قلم چھوڑ ہڑتال کی نوبت آگئی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ’’ میڈیا کی جانب سے ٹرائل‘‘ کرنا ان کے دور کی ایک عام شکایت بن چکا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس پر مبنی جوڈیشل ایکٹوازم کا آغاز کیا اور ہفتے کے سات دن اور 24؍ گھنٹے خبروں میں رہے، اکثر شہ سرخیوں میں بھی آتے۔ شاید وہ وزیراعظم سے زیادہ خبروں میں آتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایگزیکٹو سے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ سے۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ سویلین حکومت مہمند ڈیم کے افتتاح کی تاریخ بھی مقرر نہیں کر سکتی۔ انہوں ںے کہا کہ یہ وہ باتیں نہیں جو آئینی جمہوریت کی اقدار ہوتی ہیں۔ جب چیف جسٹس نثار صاحب یہ کہتے ہیں کہ ’’میں کھل کر اعتراف کرتا ہوں کہ میں معاملات کو درست نہیں کر پایا‘‘ تو اس سے ان کا سیاسی و معاشی معاملات میں انتہائی سرگرم ہونا غیر ضروری ثابت ہو جاتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز، ریکو ڈک اور رینٹل پاور پلانٹ کیس کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے خورشید قصوری کہتے ہیں کہ میں اس وقت اسٹیل مل کی صلاحیت میں اضافے کیلئے روسی حکومت کی دلچسپی حاصل کرنے پر کام کر رہا تھا اور روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے کارآمد مذاکرات بھی ہوئے تھے اور انہوں نے پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی تھی، لیکن عدالتی فیصلے نے ان تمام کوششوں کا خاتمہ کر دیا۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے اسٹیل مل کے نقصانات 200؍ ارب روپے تک جا پہنچے ہیں اور بڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران، عدالت کے رینٹل پاور پلانٹ اور ریکو ڈک کے فیصلوں کو بھی عالمی ثالثی اداروں نے مسترد کر دیا ہے اور پاکستان پر رینٹن پاور پروجیکٹس کیس میں 700؍ ملین ڈالرز جبکہ ریکو ڈک کے معاملے میں بھی ناقابل یقین حد تک جرمانے عائد کیے جا چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس کے وکلاء ، مقدمہ لڑنے والوں اور ساتھ ہی عدالت میں موجود لوگوں کے ساتھ رویے کے حوالے سے خورشید قصوری نے کہا کہ اس حوالے سے کئی شکایات تھیں۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کس طرح ایک بہترین ساکھ کے حامل سینئر صحافی 80؍ برس کے حسین نقی کو جھاڑ پلا دی اور انہیں ’’تم!‘‘ کہہ کر پکارا۔ خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ مجھے بھی اس واقعے پر اتنا ہی صدمہ ہوا جتنا صحافی برادری کو ہوا تھا۔ انہوں نے دو چیف جسٹس صاحبان کی خواہش کا ذکر کیا جو تمام ہفتے چوبیس گھنٹے خبروں میں رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ججوں کو گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہتے، شاید یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں ججوں کے نام ٹیلی فون ڈائریکٹری میں نہیں ملتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں۔ خورشید قصوری نے پانے خط میں اسلامی اور مغربی طرز عمل کا حوالہ دیا کہ ایک جج کا رویہ اور خصوصیات کیا ہونا چاہئیں، انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، تھامس ہابز اور جج رچرڈ پوزنر، جس نے کہا تھا کہ ’’غصیلے جج سے بچ کر رہنا‘‘، کے حوالہ جات بھی پیش کیے۔ خورشید قصوری نے کہا کہ میرے پاس کہنے کیلئے الفاظ نہیں تھے جب سپریم کورٹ کے ایک نامور سینئر وکیل نے مجھے بتایا کہ چیف جسٹس نثار صاحب ایک فیصلہ کرنے والے ہیں۔ مذکورہ وکیل نے بتایا کہ جو چیف جسٹس صاحب سوچ رہے ہیں اس کی قانون میں اجازت نہیں۔ چیف جسٹس نے یہ تک کہا کہ ’’ہم جو کہتے ہیں وہی قانون ہے۔‘‘ خورشید قصوری نے حال ہی میں لیے جانے والے توہین عدالت کے نوٹسز کا معاملہ بھی اٹھایا جن میں لوگوں کو دھمکایا گیا یا واقعی کچھ لوگوں کیخلاف یہ نوٹس جاری کیے گئے۔ قصوری کا کہنا تھا کہ ججوں کو ایسا نہیں ہونا چاہئے جنہیں لوگ ان کی طاقت کی وجہ سے پہچانیں۔ ان کی عزت اور وقار ان کے فیصلوں کے معیار اور جزئیات سے پیدا ہوتا ہے۔ خورشید قصوری نے اپنے خط میں نئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی کامیابی کی دعا کی اور انہیں نیا عہدہ ملنے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے تعلیمی پس منظر اور قانونی مہارت کی وجہ سے امید ہے کہ وہ نئے چیف جسٹس صاحب آرٹیکل (3)184 کے استعمال میں تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ میری آراء نئی نہیں ہیں، میں اب بھی اپنے اُس موقف پر قائم ہوں جو میں اپنی 2016ء میں شائع ہونے والی کتاب (Neither a hawk,Nor a Dove) کے صفحہ نمبر 452؍ تا 475؍ میں واضح کر چکا ہوں کہ ایگزیکٹو اور لیجسلیٹو ناکامیوں کے ایسے کئی اصل واقعات موجود ہیں جن پر عدالت عوامی اہمیت کی بنا پر بنیادی حقوق نافذ کر سکتی ہے۔ انہوں نے رائے دی کہ آخری حربے کے طور پر عدالت آئین کے آرٹیکل (3)184 کو استعمال کرتے ہوئے از خود نوٹس لے سکتی ہے۔