ہم بزرگ خوش نصیب ہیں، کیوں کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔ بچپن میں محلے کی چھتوں پہ اپنے دوستوں کے ساتھ روایتی کھیل کھیلے۔ لالٹین کی روشنی میں ناول پڑھے۔ اپنے پیاروں کے لیےاپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔ ہم نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔ کھلیانوں کی رونق دیکھی۔ مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔ عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں،ہمارے جیسا تو کوئی نہیں ،کیوں کہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جو سر پہ سرسوں کا تیل انڈیل کر اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر شادیوں میں جاتے تھےاورہم وہ لوگ ہیں ،جو گلی ڈنڈا کھیلتے تھے اور گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو بابو سمجھتے تھے۔ انکل سرگم کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور ہم وہ بہترین لوگ ہیں، جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی، اسکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں، جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔کبھی وہ بھی وقت تھا،جب ، سب گھر والےچھت پر سوتے تھے۔ پانی کاچھڑکاؤ ہوتا تھا۔ ایک اسٹینڈ والا پنکھابھی چھت پر ہوتا تھا۔ لڑنا جھگڑنا سب کااس بات پر ہوتا تھاکہ پنکھے کے سامنے کس کی منجی نے ہونا تھا۔سورج کے نکلتے ہی آنکھ سب کی کھلتی تھی، لیکن ڈھیٹ بن کر پھر بھی سب ہی سوئے رہتے تھے۔وہ آدھی رات کو کبھی ،بارش جو آتی تھی ، تو اگلے دن تک منجی گیلی ہی رہتی تھی ۔ چھت پر سونے کےسب دور ہی بیت گئے۔منجیاں بھی ٹوٹ گئیں ۔ رشتے بھی چھوٹ گئے،بہت خوب صورت خالص رشتوں کا دورتھا۔ لوگ کم پڑھے لکھےلیکن مخلص ہوتے تھے ،اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت، مفادات اور خودغرضی میں کھو گیا۔ کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل ’’جاہل زمانہ‘‘آ گیا۔