مختار احمد کھٹی ،ٹنڈو غلام علی
جدید دور میں جہاں سہولتوں کی بہتات ہے وہیں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول اور حکام بالا تک رسائی ناممکن ہے۔ریاستی معاملات کا ہر سو رونا رویا جاتا ہے۔سماج کی چیرہ دستیوں کے باعث غریبوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ حصول رزق کیلئے اپنے پیاروں سے دور رہنے اور ان کو زندگی کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے کٹھن مراحل سے گزرنا کوئی پرانی بات نہیں۔ موجود حالات میں گھر کا چولہا جلانے کے لیے گھر سے نکلنے والوں کی اپنے پیاروں کے پاس دوبارہ واپسی کی کو ئی ضمانت نہیں ہوتی۔ ایسی ہی لرزہ خیز کہانی غریب آباد کے محنت کش ڈرائیور محمد لوہارکے خاندان سے وابستہ ہے جو گھر سے نکلا بچوں کی خوشیاں خریدنے اور رات گئے اس کی خون میں لت پت نعش پہنچائی گئی۔ محمد لوہار حیدر آباد بدین کی مسافر کوچ پر ڈرائیونگ کرکے اپنے بچوں کی کفالت کرتا تھا۔ یہ واقعہ گزشتہ ماہ اس وقت پیش جب وہ مسافر کوچ میں سواریوں کو لے کربدین سے حیدر آبادجارہا تھا۔راستے میں مخالف سمت سے آنے والی باراتیوں کی کوچ کے ڈرائیور نے دوران کراسنگ ڈرائیونگ سائیڈ کا گیٹ کھولا جس کے باعث محمد لوہار کی کوچ کابایاں حصہ باراتیوں کی کوچ سے ٹکرایا۔ محمد لوہار نے تھوڑے فاصلے پر جاکر مسافر کوچ روکی اور معذرت کرنے کے لیے گاڑی سے اترنا چاہا لیکن اس نے دوسری کوچ سے کثیر تعداد میں مشتعل افراد کو اپنی جانب آتے دیکھا تو گھبرا کرکوچ دوبارہ دوڑادی۔ مشتعل افراد نے بارات کے ساتھ آنے والی ایک کار میں بیٹھ کر کوچ کا تعاقب کیا اور اور ملنگ ہوٹل کے قریب محمد لوہار کی کوچ زبردستی رکواکر اسےبس میں سے گھسیٹ کر شدید زدوکوب کیا اور محمد لوہار مبینہ تشدد کے باعث موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ مسافر کوچ کے عملے نے بھاگ کر اپنی جان بچانے میں عافیت سمجھی۔
اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع واردات پر پہنچ کرپوسٹ مارٹم کے بعد نعش ٹنڈو غلام علی میں مقتول کے گھر پہنچائی۔ لاش کے گھر پہنچنے پر علاقے میں کہرام برپا ہوگیا۔ورثاء اور علاقہ مکینوں نے مقتول کے بیٹے محمد نعیم لوہار کی قیادت میں سیری تھانے کے سامنے بااثر قاتلوں ، جن کا حاجانہ برادری سے تعلق تھا ،کے خلاف مقدمہ کے اندراج کیلئے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کرکے دھرنا دیا۔ پولیس نے مقتول محمد لوہار کے بیٹے محمد نعیم کی مدعیت میں غلام مصطفیٰ، اسلم، عبدالرحمان، عباس عرف عباسی، اور ارشاد حاجانو کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تاہم کسی گرفتاری کی ہنوز اطلاع موصول نہیں ہو سکی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ملزمان بااثرہیں اور انہوں نے پولیس کی معاونت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروادی ہے۔ محمد لوہار کے مبینہ قاتلوں کی حیدرآباد بدین روڈ پر گاڑیاں بھی چلتی ہیں جن میںسے بیشترواقعہ کے بعد غائب ہو گئی ہیں۔ محمد لوہار کے قتل کے مقدمہ کا اندارج کے بعدمقتول کی قبر پر پولیس تعینات کی گئی اور واقعے کے چنددن بعد لمس حیدرآباد سے میڈیکل بورڈ نے ڈاکٹر مظہر علی ہیسبانی کی سربراہی میں سول جج ماتلی کی زیر نگرانی محمد لوہار کی قبر کشائی کرکے میت کے اجزاء لیےجن کو ٹیسٹ کیلئے لیباریٹری روانہ کیا گیا، جس کی رپورٹ تادم تحریر نہیں مل سکی ہے۔
مقتول محمد لوہار کے بھانجے عبدالحمید لوہار اور بیٹے محمد نعیم لوہار کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان سے شدید نا انصافی کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ قاتل بااثر ہیں اور مقدمہ ختم کرانے کے لیے دباوٗ ڈال رہے ہیں۔ تاہم وہ انصاف کے متلاشی ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری اور کڑی سزا کے منتظر ہیں۔