تحریر:واٹسن سلیم گِل…ایمسٹرڈیم سانحہ ساہیوال ہمارے نطام کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے مگر بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم اس طرح کے واقعات کے اب عادی ہو چکے ہیں یعنی ہمارے نظام کے چہرے پر اس طرح کے داغوں نے اصلی چہرہ ہی چھپا دیا ہے۔ واقعہ ہوتا ہے پوری قوم سکتے میں ہوتی ہے۔ متحد بھی ہو جاتی ہے۔ مذمت، آہنی ہاتھ، کیفر کردار، عبرت کا نشان وغیرہ جیسے لفظوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اب کچھ نئے لفظ جیسے جے آئی ٹی، فرانزک رپورٹ اور نہ جانے کیا کیا، اس کے بعد پھر زندگی معمول پر رواں دواں ہو جاتی ہے۔ ہاں ہم اتنے بھی سنگ دل نہیں ہیں ہر سال واقعہ والی تاریخ پر موم بتیاں، پھول کچھ بیانات، وعدے اور ۔ مجھے یاد ہے کہ افغانستان یا عراق جنگ میں اتحادی فوجوں کے درمیان غلطی سے حملوں (فرینڈلی فائر) کے دوران خاص طور پر امریکہ کو پوری دنیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اور اسے اقوام عالم سے معذرت طلب کرنی پڑتی تھی مگر ہمارے ملک میں تو یہ روایت ہی نہیں ہے۔ کہنے کو ہمارا نظام جمہوری ہے مگر اس میں جمہوریت کے علاوہ سب کچھ ہے۔ جمہوریت کی قدر پوچھنی ہے تو تھانوں میں بند قیدیوں سے پوچھو، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے، شناختی کارڈ، بجلی پانی اور گیس کے کے لئے جدوجہد کرتے صارفین سے پوچھو کہ کیا واقعی یہ جمہوری نظام ہے؟۔ کیا جمہوری نظام ایسا ہوتا ہے۔ ظلم تو شاید ساری دنیا میں ہوتا ہوگا مگر ظالم کو سینہ تان کر تکبر اور رعونیت سے آزادی کے ساتھ چلتے پھرتے صرف پاکستان میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ عظیم فلاسفرسقراط جمہوریت کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہمیں سمندر کا سفر کرنا ہو تو جہاز کے کپتان کا چناؤ ووٹ کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا بلکہ جو شخص سمندر کے ماحول اور جہاز کے علم کے بارے میں معلومات رکھتا ہو اسے کپتان بنایا جانا چاہئے۔ یعنی تقریباً 2400 سال قبل دنیا کے عظیم فلاسفر نے جمہوریت اور قابلیت کے درمیان کا فرق ہمیں سمجھایا وہ آج بھی ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہی آیا۔ یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب جو کہ دنیا کے بہت سارے ممالک سے بھی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے اس کا وزیر اعلیٰ جمہوری طریقے سے ضرور منتخب کیا گیا وہ ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے اپنے گھر میں بجلی نہیں تھی۔ یعنی یہ اس کی قابلیت تھی۔ جس کی بنا پر اسے اتنے بڑے صوبے کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس صوبے میں ایک گائے ایک وزیر کے علاقے میں گھسنے پر آئی جی تبدیل ہو جاتا ہے جب کہ وہ علاقہ وزیر کا بھی نہیں تھا۔ اسی صوبے میں خاتون اول کی صاحبزادی سے رات دو بجے سوال جواب کرنے پر ڈی پی او کو معطل کر دیا جاتا ہے مگر چاہے واقعہ ماڈل ٹاؤن کا ہو یا ساہیوال کا، انسانی خون بہانے پر نہ تو زمین کانپتی ہے اور نہ ہی آسمان ہلتا ہے۔ لعنت ہے ایسی جمہورت پر، سقراط کے مرنے سے پہلے آخری جملے کو غور سے سُننے کے بعد اگر اس سے کچھ سیکھا جائے تو شاید ہمارے حکمران کچھ سیکھ لیں۔ شہرہ آفاق فلاسفر افلاطون جو کہ سقراط کے شاگردوں میں سے تھے وہ استاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سقراط کا آخری جملہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے دوست کرائیٹو کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ "کرائیٹو ہم پر ایک مرغ ادھار تھا، پلیز اسے چکا دینا۔ جس پر کرائیٹو نے جواب دیا تھا کہ میں چکا دونگا۔ دنیا کی سب سے پہلی جمہوریت بھی ان ہی یونانی فلاسفرز کی مرہون منت ہے۔ جمہوریت سے انصاف اور مساوی حقوق کو نکال دیا جائے تو جمہوریت صفر ہوتی ہے۔ انصاف کے لئے عوام کا واسطہ عدالتوں سے پہلے پولیس سے پڑتا ہے۔ مگر پولیس کے حالات، تربیت اور پولیس کے قوانین اس قدر بوسیدہ ہیں کہ ان سے اب بدبو آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں راؤ انوار جیسے پولیس افسران کو دلیر، بہادر اور نڈر جیسے خطابات سے نوازاجاتا ہے۔ اور یہ یاد رکھیں کہ راؤ انوار ایک نہیں ہے بلکہ ہر صوبے میں ایک راؤ انوار ہے اور بہت سے اس کے ماتحت ہیں جو جمہوری نظام اور انصاف کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کئی سال پہلے کراچی ائرپورٹ کی حدود میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے چار کارکن ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیئے گئے۔ فہیم کمانڈو، ذیشان حیدر عابدی، یوسف رحمان اور مفیض فاروقی کی لاشیں برآمد کی گئیں تو ان چاروں کے ہاتھ پیچھے کی جانب ہتھکڑیوں سے بندھے تھے اور ہم بہت خوش تھے۔ اسی سال یعنی 1995 کو ایک اور پولیس مقابلہ ہوا جس میں ایم کیو ایم کے فاروق دادا، غفار مادہ، جاوید مائیکل اور حنیف ترک جن کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ پوسٹ مارٹم میں ڈاکٹرز نے کہا کہ ان پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔ پھر ایم کیو ایم کے کارکن اور کراچی کے پولیس افسران قتل ہونے لگے۔ الزام ایم کیو ایم پر لگتا گیا۔ اس ساری کہانی میں ایک شخص جو نا صرف محفوظ رہا بلکہ ترقی کرتا رہا وہ تھا راؤ انوار۔ یہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے وقت بھی اے ایس آئی کے طور پر موجود تھا۔ پھر بوری بند لاشیں، کراچی کے مختلف تھانوں کے پولیس افسران جن میں بہادر علی، چوہدری لطیف اور بہت سے نام شامل ہیں قتل کر دیئے گئے۔ بہادر علی سمیت بہت سے افسران اپنی خفیہ نقل و حمل کے باوجود قتل ہوئے کیونکہ ان کے بارے میں مخبری پولیس کے اندر سے ہی دی جاتی تھی۔ سوائے راؤ انوار کے نصیر اللہ بابر آپریشن میں شامل تمام افسران قتل ہوئے۔ ملک کا تین بار منتخب وزیر اعظم جیل میں ہے۔ سابق صدر زیر عتاب ہے اور بہت سے بڑے بڑے سیاستدان، صحافی اور بیوروکریٹ عدالتوں اور نیب کے ہاتھوں ذلت اٹھا رہے ہیں مگر ایک معمولی ایس ایس پی کو جو نظام ہتھکڑی نہ لگا سکے وہ کیسے منصفانہ نظام ہوسکتا ہے اور ہم کیسے اس نظام میں بہتری کی صورت تلاش کر سکتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں نظام ہی اس معاشرے کے اچھے اور خراب ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہم مغرب کی تعریف اسی لئے کرتے ہیں کہ مغرب میں نظام اچھا ہے۔