• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

پندرہ برس کی محنت اور تقریباً تیرا سی بلین امریکی ڈالرز کی لاگت سے تیار کی گئی یہ تجربہ گاہ ناسا مئی میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب بھیجے گا

رواں سال مئی کے مہینے میں کوانٹم طبیعیات کے ماہرین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناسانے سرد ایٹم کی تجربہ گاہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب لانچ کی جا ئے گی ۔ماہرین کے مطابق یہ پوری کائنات میں سب سے سرد تجربہ گاہ ہوگی ،جس میں تحقیق کرنے والے سائنس داں کوانٹم مظاہر (quantum phenomina) کی بابت وہ تفتیش کریں گے جسے زمین پر کرنا ناممکن ہے ۔

اس کو تیار کرنے میں قریباً83 بلین امریکی ڈالر کی لاگت آئے گی ۔اس منصوبے میں کوانٹم میکانکس کا میکرو اسکوپ پیمانے پر مادّے کی اس حالت کا جائزہ لیا جائے گا ۔جسے بوس آئن اسٹائن کنڈنسیٹ (Bose -Einstein Condensate) کہا جاتا ہے ۔جولاکھوں ایٹموں کو زیرو تک ٹھنڈا کرنے پر بادل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔بعدازاں یہ لہر کی طرح synchroniseکر کے ایک کوانٹم کی طر ح عمل پذیر ہوتے ہیں ۔ سائنس دانوں کواُمید ہے کہ خلا ء میں یہ تجربات کرنا عظیم کارنامہ ہو گا ۔اس مشن کے مینجر کمال اودحریری کے مطابق زمین پر عموماً گریو یٹیشنل لہریں ان کنڈ نسینٹ کو چند سیکنڈز میں بکھیر دیتی ہیں ۔بی ای سی سے قریب ترین خلائی جیسی حالت میں ایک تحقیقی راکٹ سے گرا کر9 سیکنڈ کے لیے وہ حالت پید ا کی گئی تھی لیکن اسپیس اسٹیشن میں تیرتے ہوئے وقت کم سے کم 10 سیکنڈ تک ہو جائے گا ۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ وقت ایک ڈگری کے20 کھربویں حصے کے ریکارڈ ٹمپریچر تک ٹھنڈا کرنے کے لیے کافی ہو گا ۔جو کائنات میں کسی بھی جگہ پر معلوم سرد ترین ٹیمپریچر ہوگا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرد ترین اور دیر تک رہنے والاکنڈنسیٹ بنیادی طبیعیات کے جائزہ کی حد ودکو آگے بڑھانے میں معاون ہوگا۔اس کام کے لیے سائنس داں 15 سال سے انتظار کررہے ہیں۔خلائی اسٹیشن میں انجینئرز کو سمانے والے اٹامک طبیعیاتی آلات کو ایک چھوٹے سے بکس میں رکھنا ہوگا ۔یہ آلات روبیڈیم اور پوٹاشیم کے ایٹموں کو لیزر سے تمام اطراف میں پھینک کر ان کو اتنا آہستہ کردیں گے کہ وہ تقریباً ایک جگہ رکے ہوئے لگیں گے ۔اس کے بعد میگنیٹک فیلڈ کے ذریعے سے ان کے بادل کو جال میں جمع کیا جائے گا ،پھر ان کا کنڈ نسینٹ بنانے کے لئے دوسری ٹھنڈاکرنے والی تراکیب استعمال کر کے اس کے بادل کو زیرو کے مزید قریب لایا جا ئے گا۔ اس طرح سب سے زیادہ توانائی کے ایٹموں کو ریڈیائی لہر کے چاقو سے جال کو بڑا کرکے بادل کو مزید پھیلنے کا موقع دیاجائےگا۔انجینئروں نے زمین کے بدلتے ہوئے مقناطیسی میدان اور دوسرے بہت سے آلات کے اثرات سے نازک کنڈنسینٹ کی حفاظت کے لیے اس کی ڈھال ڈیزائن کرنی ہے۔گر چہ خلاء باز اس کے آلات کو کھول کر مشین کو فٹ کر دیں گے لیکن مشین صرف اس وقت کام کرے گی جب اس کے اردگرد کسی بھی قسم کی کوئی حرکت نہ ہو رہی ہو ،تاکہ کسی بھی حرکت کی وجہ سے تجربات میں خلل کو کم سے کم کیا جاسکے ۔

واضح رہے کہ اس میں استعمال ہونےوالی ٹیکنالوجی انتہائی سادہ ہے،کیوںکہ ویکیوم چیمبر (vaccum chamber)متاثر ہونے کی وجہ سے پورے منصوبے میں خطرہ پیدا ہو گیا تھا ۔لہذا ابھی تک طبیعیاتی ماہرین خلا ء میں ایٹمی انٹر فیرومیٹری (atomic interferometry) تجربہ کرنے کے قابل نہیں ہوئے ہیں ۔اس طریقہ کار میں کنڈنسینٹ کی کوانٹم لہر کو دولہروں میں جدا کرکے دوبارہ ملایا جاتا ہے ۔اس کے نتیجے میں جو مداخلت کا طریقے کاربنے گاوہ سائنس دانوں کو کشش ثقل کی بالکل درست معلومات حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا ۔ روبرٹ تھا مپسن کے مطابق اس کا جدید کٹ2019 ء کے آخر میں موصول ہوگا ۔

ماہرین کواُمید ہےکہ یہ منصوبہ نئی طبیعیات کی اختراع کا باعث ہوگا ۔اس لیب سے سائنس دانوں کی پانچ ٹیمز مختلف تجربات کریں گی ۔ایک ٹیم ریڈیائی لہروں اور مقناطیسی میدانوں کی مدد سے بلبلے کی شکل کے 30 مائیکرو میٹر کے کنڈنسینٹ کو ٹریپ کرے گا ۔جن کا سائز قریباً انسانی بال کے نصف کے برابر ہوگا ۔کوانٹم میکا نکس کے مطابق بلبلے بہت پتلےاور بغیر کنارے کے ہوتے ہیں ۔اس لیے کنڈ نسینٹ زمین کی بہ نسبت مختلف طور پر عمل کرے گا ،کیوں کہ زمین پر وہ یا تو کرہ (گولہ ) ہو تا ہے یا پھر طشتری کی شکل اختیار کر تا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم یہ شکل اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتےجب تک ہم کشش ثقل سے چھٹکارا نہیں پا لیتے ۔

یونیورسٹی آف کولا راڈوکے سائنس داںایرک کارنیل کی سر براہی میں ایک گروپ ایفیمو اسٹیٹ (efimov states) تخلیق کرنے کی کوشش کرے گا ،جس کا نام روسی تھیوریٹیکل فزسٹ وٹیلی ایفی موو کے نام پر رکھا گیا ہے ،جس نے 1970ء میں پیش گوئی کی تھی کہ ان کوانٹم اسٹیٹ میں ایٹم ڈھیلی سی حالت میں مل کر جوڑے بناتے ہیں ۔لیکن یہ ایٹم تین اور چار کی صورت میں بھی جڑ سکتے ہیں ۔جو بورومین رینگ (borromean rings) کی طرح ہیں ۔یعنی رینگ اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ اگر کسی ایک رینگ کو علیحدہ کریں تو پورا سسٹم ہی علیحدہ ہوجاتا ہے جو نکلیر فزسٹ کی دل چسپی کا میدان ہے۔

جوہری طبیعیاتی ماہرین کے لیے خلائی اسٹیشن کی تجربہ گاہ عملی طور پر بڑی غیر معمولی ہوگی ،کیوں کہ طبیعیاتی ماہرین اپنے تجرباتی آلات خود ڈیزائن کرکے خود ہی بناتے ہیں ۔تھامپسن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اُمید سے زیادہ بہتر طور پر کام کررہا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین