• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آغا ناصر

نئے آہنگ اور ندرت ِ خیال سے آراستہ انقلابی شاعر اور دھیمے مزاج کا آدمی 108ویں سال گرہ پر کچھ یادیں کچھ باتیں

شاعری کر کے دھوم مچا دینے والے انسان دوست شاعرفیض احمد فیض نے 13 فروری 1911ء کو زندگی کی پہلی اور 20نومبر 1984 کو آخری سانس لی۔ آج فیض احمد فیض کی سال گرہ ہے ،اس موقعے پر خصوصی مضمون نذرِ قارئین ہے۔

فیض صاحب سے میری پہلی ملاقات 1955میں ہوئی، جب وہ راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں سزا کاٹ کر کراچی آئے۔ انہی دنوں ہم چند طالب علموں نے جو تازہ تازہ سندھ مسلم کالج سے بی اے کر کے کراچی یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔ یونیورسٹی کلب کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کی۔

پروگرام یہ تھا کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بطور مہمان مدعو کر کے ان کے ساتھ شام منائی جائے۔ میں یونیورسٹی کلب کا پہلا سیکرٹری منتخب ہوا تھا اور اس کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تقریب کے پہلے مہمان فیض احمد فیض تھے۔

تقریب کے اختتام پر چائے کے دوران فیض صاحب سے باتیں ہوئیں، وہ اپنے جیل کے شب و روز کا حال مسکرا مسکرا کر اس طرح سناتے رہے جیسے کسی دلچسپ تفریحی سفر کا قصہ ہو۔ یونیورسٹی کلب کی پہلی تقریب بڑی کامیاب رہی، لیکن اس شام میرا سب سے بڑا انعام فیض صاحب سے تعارف اور ان سے عقیدت مندی کا اظہار تھا۔

فیض صاحب سنجیدہ صفت انسان تھے، مگر ان کی سنجیدگی میں بھی عجیب طرح کی خوشگواری اور آسودگی محسوس ہوتی۔ وہ مسکراتے تو ہر وقت رہتے تھے، لیکن طنزومزاح ان کی گفتگو میں شامل نہیں تھا۔ میرا ،ان کا ، تو رشتہ ہی بزرگی اور نیازمندی کا تھا۔ ممکن ہے اپنے قریبی دوستوں اور ہم عمروں کی صحبت میں لطیفہ گوئی اور ہنسی ٹھٹھاکرتےہوں یا شاید اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ میں نے کبھی ان کی بیٹی سلیمہ ، منیزہ یا داماد شعیب ہاشمی سے پوچھا نہیں ،لیکن یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، وہ خوش مزاج آدمی تھے۔ مذاق اور تفریح کو دل سے پسند کرتے تھے اور گاہے گاہے اس کا اظہار بھی کرتے۔

میری بیوی کا نام صفیہ ہے، مگر فیض صاحب جب بھی انہیں دیکھتے تو کہتے ’’ بھئی تم رضیہ ہو یاصفیہ ۔‘‘ آخر بار بار کے پوچھنے پر ایک بار جب وہ ہمارے گھر آئےہوئے تھے اور انہوں نے پھر ہنس کر سوال کیا ، تو صفیہ نے کہا ’’ فیض صاحب میں آپ کو بارہا اپنا نام بتاچکی ہوں۔ اب اگر پھر کبھی آپ نے پوچھا ، تو میں خفا ہوجائوں گی۔‘‘

وہ بہت ہنسے اور بولے ’’بھئی ہمارا بار بار پوچھنا تمہیں برا لگتا ہے۔ یہی تو ہمیں اچھا لگتا ہے۔‘‘ اسی طرح ایک بار ان کا فون آیا ، تو میرے بیٹے نے اٹھایا جس کی عمر دس بارہ برس ہوگی۔ اس نے چونگا ہاتھ میں پکڑے زور سے آواز لگائی۔ ’’ابی فیض انکل فیض کا فون ہے۔‘‘ جب میں نےچونگا ہاتھ میں لیا، تو دوسری طرف فیض بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ بولے ’’ بھئی یہ فیض انکل فیض تو کمال کی اصطلاح ہے۔‘‘

فیض صاحب بہت ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے۔ مجھے ابھی تک ان کا کوئی ایسا جاننے والے دوست ، عزیز ، شاگر د یا ساتھی نہیں ملا جھو یہ کہہ سکے کہ اس نے فیض صاحب کو کبھی غصے میں دیکھا۔ ان کی شخصیت میں بڑا ٹھہرائو تھا۔ وہ ہرحال میں بڑے پرسکون اور باوقار نظر آتے۔ یقینی بات ہے کہ ان کے دل پر بھی ہر طرح کی واردات گزرتی ہوگی۔ ایک شاعر ہونے کے ناتے وہ عام انسانوں کی نسبت یقیناً زیادہ حساس تھے،مگر مجال ہے جو داخلی غم، غصے اور فکرمندی کو اپنی ظاہری شخصیت پر کبھی حاوی آنے دیا۔ان کے چہرے پرہمیشہ مخصوص مسکراہٹ طاری رہتی۔ جب وہ بات کرتے، تو ایسا اطمینان ظاہر ہوتا کہ جیسےدنیا میں مسائل کا کوئی وجود ہی نہیں۔

ان کی صلح پسند طبیعت ، مطمئن رویہ اور پرسکون باتیں سن کر یہ ماننے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اتنے بڑے ترقی پسند انقلابی اور باغی شاعر ہیں۔ یہ بات اس لئے اور بھی عجیب لگتی کہ ان کا یہ رویہ دوسرے ترقی پسند اور انقلابیوں سے بالکل مختلف تھا۔ ایک قصہ اس سلسلے میں بڑا مشہورہوا۔ ایک بار ان سے کسی نوجوان کامریڈ نے بہت مضطرب ہو کر پوچھا ’’فیض صاحب آخرانقلاب کب آئے گا؟‘‘

فیض صاحب مسکرائے اور اپنے مخصوص انداز میں بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’بھئی آجائے گا، ابھی آپ کی عمر ہی کیاہے۔‘‘

فیض صاحب کی شخصیت کو مقبول عام بنانے میں اعلیٰ درجہ کی شاعری کے علاوہ ان کی سادگی اور شیریں زبان کا بھی بڑا حصہ ہے۔ ان میں تکبر اور خودپسندی، بے جاانانیت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ کسی کی دل آزاری یا کوئی ایسی حرکت کرنا جو دوسروں کوناگوار گزرے، کوئی ایسی بات کرنا جس سے ان کے رتبے یا حیثیت کا اظہار ہو، ان کی سرشت ہی میںنہیں تھا۔ لحاظ اور مروت ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار کسی محفل میں ان سے پوچھا گیا ’’ فیض صاحب ! یہ بعض اخبارات میں آپ کے خلاف بے سروپا الزامات اور تضحیک آمیز تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ آخر آپ ان کی تردید کیوں نہیں کرتے؟

انہوں نے جواب دیا ’’بھئی اگر ان کاا خبار یہ سب شائع کرنے کی وجہ سے زیادہ بکتا ہے، تو انہیں یہ کرنے دو۔ ہمارا کیا بگڑتا ہے۔‘‘

اسی سلسلے میں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یادہے۔کراچی میں مشہور اداکار کمال احمد رضوی نے فیض صاحب کو اپنے گھر کھانے پر بلایا ۔ میں اور کراچی ٹیلی ویژن کے جنرل منیجر برہان الدین حسن بھی موجود تھے۔ کمال احمد رضوی ان دنوں ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے قریب بوٹ کلب جانےوالی سڑک پر ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ فیض صاحب پی ای سی ایچ میں کسی کے گھر قیام پذیر تھے۔ انتظام یہ تھا کہ عالمی یافتہ وائیلن نواز امداد حسین جو پروفیسر سراج کے صاحبزادے تھے، فیض صاحب کو اپنی کار میں کمال احمد رضوی کے یہاں لے آئیں گے۔ سارے مہمان آٹھ بجے ان کے گھر جمع ہوگئے، مگر کافی وقت گزرنے کے باوجود امداد آئے اور نہ فیض صاحب۔دو اڑھائی گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد سب نے جان لیا کہ وہ لوگ اب نہیں آئیں گے۔بھوک سے سب کا برا حال تھا۔ لفظوں میں اظہار کئے بغیر سارے مہمان دل ہی دل میں فیض صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ ہامی بھرنے کے باوجود غائب ہوگئے۔ جب گیارہ بجنےکو آئے ، تو کمال احمد رضوی نے مجبوراً کھانا لگوادیا۔ عین اس وقت نیچے سےکمال احمد کے پالتوکتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ مطلب تھا کہ کوئی آیا ہے۔ کمال احمد رضوی لپک کر نیچے گئے اور ذرا دیر بعد امداد حسین اور فیض صاحب کو ساتھ لئے اوپر آگئے۔ سب نے ایک ساتھ ان پر شکوے شکایات کی یلغار کردی۔

آخر جب محفل ذرا پرسکون ہوئی، تو فیض صاحب نے تاخیر کا سبب بتایا۔ کہنے لگے ’’بھئی ہم تو وقت کے بہت پابند ہیں۔ اول تو امداد ہمیں لینے دیر سے آئے۔ پھر جب کار میں روانہ ہوئے اور ڈرگ روڈ پر آئے (جسے اب شاہراہ فیصل کے نام سے جانا جاتاہے) توہم نے ان سےکہا ، بھئی آپ تومخالف سمت جارہےہیں۔ کمال احمد رضوی کےہاں جانے کے لئے ، تو اس سڑک پر داہنے ہاتھ مڑنا تھا ، مگر امداد نے اصرار کیا کہ وہ صحیح سمت جارہےہیں۔ ہم چپ ہوگئے۔ پھر جب کا ر ہوائی اڈے کے سامنے پہنچی ، تو انہیں احساس ہوا اور واپس لوٹے، اس طرح دیر ہوگئی۔‘‘

کسی نے کہا ’’فیض صاحب جب آپ کو معلوم تھا کہ وہ غلط سمت جارہے ہیں، تو آپ نے انہیں روکا کیوں نہیں؟‘‘

کہنے لگے ’’بھائی ، ایک دفعہ کہہ تو دیا تھا ، اب اگر وہ نہیں مانے، تو ہم کیا کرتے؟‘‘

اس بھولپن پر اور صاف گوئی پر لوگوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ اسلام آباد پیش آیا۔ 1984ء میں اسلام آباد کی ادبی تنظیم ، دائرہ کی جانب سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اسلام آباد میں ان کی کسی تقریب میں آخری شرکت تھی۔ جلسے میں ڈاکٹر محبوب الحق نے فیض کی نظموں کے انگریزی ترجمے بھی پڑھ کر سنائے جو انہی دنوں کتابی صورت میں شائع ہوئے تھے۔ تقریب کے اختتام پر جب مہمان مشروبات کے لئے میزوں کی طرف گئے، تو فیض صاحب کے ایک منہ چڑھے دوست نے جو مشہور نقاد بھی ہیں، ان سے کہا ’’فیض صاحب ڈاکٹر محبوب الحق نے آپ کے شعروں کا کیسا خراب ترجمہ کیاہے۔ سنا ہے انہوں نے طباعت سےپہلے مسودہ آپ کو دکھایا بھی تھا ، تو پھر آپ نے اس کی اشاعت کی اجازت کیسےدے دی؟

فیض صاحب نے مسکرا کر کہا ’’ہاں بھئی ہم نے دیکھا ، تو تھا لیکن جب انہوں نے ترجمہ کر ہی لیا تھا، تو ہم نے سوچا انہیں چھپوانے دیں۔ کچھ کہتے، تو ان کی دل آزاری ہوتی۔‘‘

فیض صاحب کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو ان کے قریبی دوست اور محترم ڈاکٹر آفتاب احمد نے بیان کرتےہوئے دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ’’انہیں کتابوں سے زیادہ انسانوں سے محبت تھی۔ میں نے انہیںکبھی کسی پر غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ نفرت نام کی چیز سےوہ ناآشنا تھے۔ انہیں لوگ اچھے لگتے تھے۔ ہنستے کھیلتے لوگوں میں بیٹھ کر وہ واقعی بہت خوش رہتے۔ وہ بہت کم افسردہ یا مغموم نظر آتے۔ اس معاملے میں وہ بہت پرائیویٹ آدمی تھے۔ ذاتی دکھ کو وہ خود ہی جھیلتے۔ برداشت اور صبر و سکون ان کی طبیعت کا خاصہ تھے۔ اپنی افسردہ دلی سے انجمن کو افسردہ نہ کرتے۔‘‘

20؍نومبر کی اداس شام فیض صاحب اپنے چاہنے والوں کو غمگسار اور افسردہ چھوڑکردنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں ان دنوںاسلام آباد کے ای سیون سیکٹر میں رہتا تھا۔ فیض صاحب بھی دو ایک بار اس گھر میں آچکے تھے۔ اس شام جب میں سورج غروب ہونے کے ذرا دیر بعد چہل قدمی سے لوٹا ، تو میری بیوی صفیہ اور بچےکچھ حیران و پریشان گھر کی دہلیز ٹر کھڑے تھے۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ ضرور کوئی بری خبر ہے۔صفیہ کو فیض صاحب سے میری محبت اور عقیدت کا بخوبی علم تھا۔ اسی لئے ا س نےہزار پوچھنے پر بھی ایک دم مجھے کچھ نہیں بتایا۔ پھر اس لئے بھی کہ صرف دو ماہ قبل میری امی کا انتقال ہوا تھا۔ ان کا صدمہ ابھی تک دل سے محو نہیں ہوا تھا۔ آخر یہ مشکل اس طرح آسان ہوئی کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بول اٹھی، جانے کس نے فون اٹھایا اور پھروہیں سے باآواز بلند مجھ سے پوچھا ’’ خالد سعید بٹ صاحب پوچھ رہے ہیں ، کیا آپ ان کے ساتھ چلیں گے…؟ میں نے استفسار کیا کہ کہاں؟ تب صفیہ نے بتایا کہ لاہور سے خبر آئی ہے، فیض صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ کل صبح ان کی تدفین ہے۔ میں جیسے سناٹے میں آگیا۔ اس وقت جس کمرے میں بیٹھا تھا ،وہاں سامنے والے صوفے پر فیض صاحب ایک دوپہر بیٹھے تھے۔مجھے یوں لگا جیسےوہ پھر اس صوفے پر آبیٹھےہیں، اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ پیتے مسکراتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’’ٹھیک ہے بھئی تم کہا کرتے تھے کہ آپ نے اپنی زندگی بڑی سہل بنالی ہے۔ کسی بات سے انکار ہی نہیں کرتے… تو بس یہ ہوا۔ ہم سےموت کے فرشتہ نے آکر کہا کہ چلو… ہم نےکہا ٹھیک ہے بھئی ۔ تم کہتےہو ، تو چلے چلتے ہیں۔‘‘

اگلے روز ماڈل ٹائون کے قبرستان میں انہیں سپردخاک کرنے کے بعد جب میں ، مصلح الدین اور فرہاد زیدی گاڑی میں لاہور سے اسلام آباد آرہےتھے، تو سارے راستے ہم تینوں فیض صاحب کے شعرےسناتے رہے… لیکن جب میں نے یہ شعر پڑھا ، تو پھر سب خاموش ہوگئے۔ پھر اسلام آباد تک ہم تینوں میں سے کسی نے ان کا کوئی شعر نہیں سنایا ؎

اک گل کےمرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا

اک چہرے کملا جانے سےکتنے دل ناشاد ہوئے

(مضمون نگار مشہور ڈائریکٹر،مصنف اور پاکستان ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے)

تازہ ترین