5 اگست کو یومِ استحصالِ کشمیر کے موقع پر برطانیہ و یورپ کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کی گئیں اور احتجاج کیا گیا۔
سفارت خانہ پاکستان اسٹاک ہوم میں 5 اگست یوم استحصال کشمیر کی مناسبت سے تقریب منعقد کی گئی۔
سفیر پاکستان بلال حئی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری قوم مسلسل بھارتی جارحیت اور ظلم وستم کا شکار ہو رہی ہے، اب عالمی برادری کا فرض بنتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر حل کروائے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دلوائے۔
تقریب میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن سیدہ وردہ بی بی کی جانب سے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور ہیڈ آف ٹریڈ احسن ریاض چوہدری نے وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے پیغامات پڑھ کر سنائے۔
تقریب کے آغاز میں تمام شرکاء کی جانب سے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
اس موقع پر پاکستانی سفارتخانہ اور سوئیڈن میں مقیم پاکستانی و کشمیری کمیونٹی نے کشمیر کاز کی حمایت کا اعادہ کیا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر پاکستان کی قیادت کو سراہا۔
تحریکِ کشمیر ناروے کے زیرِ اہتمام بھارت کے 5 اگست 2019ء کے ظالمانہ اقدام اور یومِ استحصالِ کشمیر اور فلسطین کے طور پر مناتے ہوئے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔
اس موقع پر اسٹیج سیکریٹری کے فرائض تحریکِ کشمیر ناروے کے صدر سید شاہ حسین کاظمی نے ادا کیے، تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے عبداللّٰہ عزیز الرحمٰن نے کیا۔
مظاہرے میں سیاسی و سماجی مذہبی رہنماؤں سمیت نارویجن سیاست دانوں نے بھی شرکت کی، پرامن احتجاج میں شریک شرکاء نے فلسطین اور کشمیر کے حق میں پلے کارڈ، بینرز اور جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔
پرامن احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے برخلاف جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وہاں غیر قانونی قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اسی طرح دہشت گرد اسرائیل نے 2023ء میں ایسی ہی ظالمانہ کارروائیاں فلسطین میں کر کے فلسطین کے مظلوم و معصوم عوام کو ان کی اپنی سر زمین سے علیحدہ کر دیا اور وہاں پر ظلم کی داستان رقم کی۔
اس موقع پر مقررین نے ناروے سمیت عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری اور فلسطینی عوام کو حقِ خودارادیت دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اوسلو کی فضائیں فری فلسطین، فری کشمیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔
پرامن احتجاج سے حافظ مولانا محبوب الرحمٰن، فلسطینی فلاحی تنظیم کے سینئر رہنما احمد عبداللّٰہ چوہدری، نذر حسین، سینئر سیاستدان خالد محمود چوہدری، چوہدری رفاقت علی، چوہدری حاجی محمد افضال، مسلم لیگ (ن) کے صدر شاہد تنویر بٹ، فرودے لاسلہ فيلپسستا سینٹروم پارٹی کے گائیر لیپسٹاڈ اور دیگر نے خطاب بھی کیا۔
تقریب کے اختتام پر انجمن حسینیہ ناروے کے امام و خطیب سید مولانا ازوار شاہ نے امتِ مسلمہ کے مظلوموں، معصوموں اور شہیدوں کے لیے اجتماعی دعا کی اور کہا کہ اللّٰہ رب العزت فلسطین، کشمیر اور جہاں بھی مسلمان اس وقت پس رہے ہیں، ان سب کے لیے اپنی رحمت کے فیصلے فرمائے اور ان سب کو آزادی کا سورج دیکھنا نصیب فرمائے۔
آخر میں تحریکِ کشمیر ناروے کی طرف سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا گیا۔
سفارتخانہ پاکستان ناروے، اوسلو میں 5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے 6 برس مکمل ہونے پر یومِ استحصالِ کشمیر کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا، جس کے بعد صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ کے خصوصی پیغامات حاضرین کو سنائے گئے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض کمیونٹی ویلفیئر کاؤنسلر محمد فراز نے انجام دیے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کی ہدایت پر کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
تقریب میں سابق نارویجن پارلیمنٹرینز، سیاستدانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، ماہرینِ تعلیم، سول سوسائٹی، میڈیا کے نمائندگان، پاکستانی و کشمیری تارکینِ وطن اور کشمیر کے حامی دیگر افراد نے شرکت کی۔
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاسی مشیر، مگنس کلنگ لینڈ خصوصی مہمان کے طور پر شریک ہوئے۔
مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، آبادی کا تناسب بدلنے کی بھارتی کوششوں اور ریاستی جبر کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کشمیری عوام کو مزاحمت اور قربانیوں پر خراجِ تحسین پیش کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
سفیرِ پاکستان سعدیہ الطاف قاضی نے اپنے خطاب میں بھارت کے مظالم کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔
دیگر مقررین میں نارویجن پارلیمنٹ کے سابق ڈپٹی اسپیکر اختر چوہدری، معروف مصنف اور سابق رکن اوسلو پارلیمنٹ خالد محمود، چوہدری اور سٹی کونسلر ماہ نور بیگ، تحریکِ کشمیر ناروے کے صدر شاہ حسین کاظمی شامل تھے۔
تقریب کے دوران مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر ایک مختصر ڈاکیومنٹری بھی پیش کی گئی، جبکہ آخر میں جماعت اہل سنت کے امام و خطیب سید نعمت علی شاہ نے کشمیری اور فلسطینی عوام کی آزادی کے لیے خصوصی دعا کی۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پاکستانی سفارت خانہ میں بھی یومِ استحصالِ کشمیر کی خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔
تقریب میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے بڑی تعداد میں پاکستانی کشمیری خواتین سمیت شریک ہوئے۔
خصوصی تقریب سے خطاب میں فرانس میں پاکستانی سفیر ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ 6 سال قبل بھارت نے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اس کی خود مختاری پر کاری ضرب لگائی تھی، بھارت نے یہ اقدامات مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے کنٹرول کو مزید مستحکم کرنے، اس کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع حیثیت کو نقصان پہنچانے اور کشمیریوں کو اپنی ہی سر زمین میں بے اختیار اور اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کیے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازع ہمارا نیشنل کاز اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے اس لیے پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا رہے گا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے جرائم کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔
اس موقع پر نامور مقررین کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید، کشمیر انٹرنیشنل پیس فورم یورپ کے چیئرمین زاہد اقبال ہاشمی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 2019ء کے بھارت کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکومت ان اقدامات کو واپس لے۔
تقریب میں بھارت کے غیر قانونی زیرِ تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔
پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق تقریب میں پاکستانی تارکینِ وطن، ماہرینِ تعلیم، صحافیوں، طلباء اور پیشہ ور افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تقریب میں جموں و کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حقِ خودارادیت کے لیے کشمیری عوام کی 7 دہائیوں کی طویل جائز جدوجہد کو اجاگر کیا گیا۔
اس موقع پر ہیڈ چانسلری کاشف جمیل بلوچ، قونصلیٹ مریم، پاکستان کے صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے، جن میں تنازع کشمیر کی اصل حقیقت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر بھارتی جبر اور بربریت پر توجہ مرکوز کی گئی۔
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری مقبوضہ کشمیر کے معصوم لوگوں پر مسلسل غیر قانونی اور غیر منصفانہ جبر کا نوٹس لے۔
وہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے زیر اہتمام 5 اگست 2019ء کے ہندوستان کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی مذمت کے طور پر منعقدہ ’یومِ استحقاق‘ کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیمینار/ویبنار سے بطور خاص خطاب کر رہے تھے۔
اس سرگرمی کا مقصد یہ اجاگر کرنا تھا کہ اس دن بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔
سیمینار میں لارڈ قربان حسین ستارۂ قائداعظم، لارڈ شفق محمد، یاسمین قریشی ایم پی، چیئرمین، یو کے پاکستان کشمیری کونسلرز فورم لیاقت علی ایم بی ای، خالد محمود، سابق ایم پی، ڈائریکٹر آکسفورڈ اسلامک انفارمیشن سینٹر ڈاکٹر شیخ رمزی، نیوہم کے ڈپٹی میئر ڈاکٹر ذوالفقار علی، کونسلر امجد عباسی، محترمہ شمیم شال، احمد قریشی، ایڈووکیٹ ریحانہ علی، ڈاکٹر عابدہ رفیق اور برطانیہ میں کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مہمان مقررین نے 6 سال قبل آرٹیکل 370-A کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر منسوخ کرنے کے بھارتی حکومت کے اقدام کی مذمت کی۔
مقررین نے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔
انہوں نے جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
مقررین نے تنازع کے منصفانہ حل کے لیے برطانیہ کی پارلیمنٹ اور فیصلہ سازوں تک رسائی کے لیے اقدامات اور سرگرمیوں پر مشتمل ایک روڈ میپ تیار کرنے کا مشورہ دیا۔
سیمینار میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے کشمیریوں اور دنیا بھر میں پاکستانیوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زور دیا تاکہ کشمیر کاز کی مؤثر وکالت کی جا سکے۔
انہوں نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں وحشیانہ ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کی، جس میں حریت رہنماؤں کی نظر بندی، میڈیا کی بندش، مواصلاتی بلیک آؤٹ، جبری گمشدگی، تشدد اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے آپریشن بنیان مرصوص کے دوران پاکستان کی مسلح افواج کے لیے قوم کی غیر متزلزل حمایت کو اجاگر کیا، جس کی وجہ سے معرکۂ حق کی فیصلہ کن کامیابی ہوئی۔
سیمینار سے پہلے ہائی کمیشن نے ایک تصویری نمائش کا انعقاد کیا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے مظالم کے ثبوت پیش کیے گئے تھے۔
دل دہلا دینے والی تصاویر نے انسانی حقوق کے جاری بحران اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق تنازع کشمیر کے پرامن حل کی ضرورت کی واضح یاد دہانی کروائی۔
شرکاء نے شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔
جموں و کشمیر کی بھارت سے مکمل آزادی کے حامی سیکڑوں کشمیریوں اور تحریکِ کشمیر برطانیہ نے مختلف کشمیری جماعتوں کے تعاون سے منگل کے روز لندن میں برطانوی وزیرِاعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور بعد ازاں انڈین ہائی کمیشن کی جانب مارچ کیا۔
مارچ میں برطانیہ کے دورے پر تشریف لائے ہوئے مرکزی صدر پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر چوہدری محمد یاسین نے بھی شرکت کی، مظاہرین نے بھارت کے کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
اپنے خطاب میں چوہدری محمد یاسین نے کہا کہ کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دیا جائے، بھارت کے 5 اگست 2019ءکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ احتجاج بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی کے 6 سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا، ان آئینی شقوں کے تحت کشمیر کو خصوصی خودمختار حیثیت حاصل تھی اور اس کے متنازع درجے کو یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔
مظاہرین نے اس بھارتی اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔
مظاہرے کی قیادت تحریکِ کشمیر یوکے اور آل پارٹیز کشمیر الائنس برطانیہ کے صدر فہیم کیانی نے کی۔
انہوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مارچ دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے ہے کہ ہم بھارتی آبادیاتی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں اور کشمیری عوام کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر پر بھی کڑی تنقید کی کہ انہوں نے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا خیرمقدم کیا۔
فہیم کیانی نے کہا کہ کیئر اسٹارمر نے مودی کو اپنی رہائش گاہ پر خوش آمدید کہا جو ہندوتوا کے نسل پرستانہ نظریے کا معمار ہے، مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کشمیر میں مظالم ڈھا رہی ہے اور ہزاروں کشمیریوں کو کالے قوانین کے تحت قید کر رکھا ہے، برطانوی وزیرِاعظم کو انسانی جانوں پر تجارت کو ترجیح نہیں دینی چاہیے، مظلوموں کی فریاد کو نظرانداز کرنا برطانوی اقدار کے منافی ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت بھارت پر پابندیاں عائد کرے جب تک وہ انسانی حقوق کی پامالی بند نہیں کرتا اور کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا حق نہیں دیتا
مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، انہوں نے کشمیر کے حق میں نعرے بھی لگائے اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی پالیسیوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرے۔
مظاہرین نے تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی، شہری آزادیوں کی بحالی، مقبوضہ کشمیر میں اقوامِ متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی تعیناتی عمل میں لائے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔
خطاب کرنے والوں میں فضل احمد قادری، سید حسین شہید سرور اور ڈاکٹر یاسین رحمٰن بھی شامل تھے۔
احتجاج میں کشمیری سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں کشمیر سالیڈیریٹی کمپیئن لوٹن کے کوآرڈینیٹر حاجی چوہدری محمد قربان، سابق مئیر لوٹن ریاض بٹ، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر خالد محمود، چیئرمین ایم سی یوتھ وِنگ سردار عثمان علی خان، سیکریٹری جنرل APIKCC انعام الحق خواجہ، محمد غالب، وزیر آزاد کشمیر عامر یاسین چوہدری، ممبر ضلع کونسل کوٹلی شاہ نواز یاسین چوہدری، سینئر نائب صدر تحریکِ کشمیر برطانیہ چوہدری محمد شریف، صدر لوٹن اسلامک کلچرل سوسائٹی مرکزی جامع مسجد لوٹن حاجی چوہدری محمد شفاعت پوٹھی، لوٹن کونسلر چوہدری ادریس لطیف، لوٹن کونسلر زینب راجہ، تحریکِ کشمیر کے چوہدری محمد رمضان، چوہدری اشتیاق، ساجد ملک اور شوکت ملک شامل تھے۔
مسلم کانفرنس کے پروفیسر ممتاز بٹ، پروفیسر امتیاز چوہدری، بھلوال سے پاکستان مسلم لیگ ن کے راجہ عبدالحمید، پی ٹی آئی کشمیر سمیت مختلف الفکر کشمیری ڈائسپورا کی بڑی تعداد یوکے کے مختلف علاقوں سے شریک تھی۔
مختلف رہنماؤں نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ مسرت عالم بھٹ، یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی ،ڈاکٹر عبداللّٰہ، حمید فیاض سمیت تمام کشمیری سیاسی اسیران کو فوری رہا کیا جائے۔
مظاہرین نے خبردار کیا کہ کشمیر کا حل طلب مسئلہ دنیا کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے، عالمی برادری کی خاموشی خطرناک ہے۔