آج نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کا شغر ساری مسلم دنیا اپنی تاریخ کے بدترین انتشار، بدامنی، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی بحران کی زد میں ہے۔ تقریباََ 60ملکوں میں بسنے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان آج جس ذہنی کرب اور فکری ابہام کے دور سے گزر رہے ہیں اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ عجیب بات یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک اگرچہ بظاہر امیر ملک تھے لیکن وہ کبھی بھی ترقی یافتہ نہ ہوسکے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے مغربی ممالک کے محتاج رہے۔ اسی طرح وہاں عشروں تک ہر طرح کی ڈکٹیٹرشپ رہی جس کے دوران یہ دعو یٰ کیا جاتا رہا کہ جمہوریت کی نسبت ڈکٹیٹر شپ زیادہ مستحکم نظامِ حکومت ہے۔ لیکن چالیس چالیس سال کی ڈکٹیٹر شپ عوامی مزاحمت کے سامنے نہ صرف ریت کی دیوار ثابت ہوئی بلکہ اپنے پیچھے وہ معاشرتی اور معاشی انتشار چھوڑ گئی جس نے ان ممالک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اور چند سال پیشتر تک جو ممالک امیر کہلاتے تھے وہاں غربت راج کرنے لگی ہے۔صرف یہی نہیں تمام مسلم دنیا میں آمریتوں کے انہدام کے بعد انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے استحکام کی بجائے انتہا پسند اپنی پوری خوفناکی کے ساتھ ابھر آئے کہ جس کا کچھ سال پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مذہبی نظام کے نام پر اٹھنے والی ان تحریکوں نے ایسے انداز اپنائے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے مظالم بھی ان کے سامنے ماند پڑ گئے بلکہ ماضی کے ظالم تو دوسروں کے لئے خوف کی علامت تھے۔ لیکن ان انتہا پسندوں نے سب سے زیادہ سفاکی کا مظاہرہ اپنے ہی ہم مذاہب کے ساتھ کیا۔ آج یہ لوگ نہ صرف اپنے مذہب بلکہ انسانیت کے لئے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ ابتری اور انتشار صرف مسلم دنیا تک ہی کیوں محدود ہے۔ القاعدہ ، طالبان ، بوکو حرام اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں صرف مسلم ممالک میں ہی کیوں پیدا ہوتی ہیں ؟ تیل اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک کبھی بھی ترقی یافتہ کیوں نہیں بن سکے؟ ان کا سائنس او ر ٹیکنالوجی میں حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کبھی دنیا کی سپرپاور ہوتے تھے آج پسماندگی اور کمزوری کی علامت بن چکے ہیں۔ مسلم ممالک میں صدیوں سے رائج آمرانہ نظام کیوں ان ممالک کو سیاسی ، معاشرتی اور معاشی استحکام نہیں دے سکا؟
ایک جواب تو اس کا وہ ہے جو عوام الناس کو مذہبی اور دائیں بازو کے سیاسی لیڈروں نے طوطے کی طرح رٹایا ہوا ہے کہ یہ ہمارے خلاف غیر مسلموں کی سازشوں اور مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے درحقیقت یہی سوچ اور طرزِ عمل ہی مسلم دنیا کے تمام مسائل کیوجہ ہے جہاں تک غیر مسلموں کی سازشوں کا تعلّق ہے تو دنیا میں اپنی اہمیّت بنائے رکھنا شطرنج کے کھیل کی طرح ہے ۔ اگر کوئی آپکے خلاف سازشیں کرتا ہے اور آپ اسے روک نہیں سکتے یا ان سازشوں کو کائونٹر نہیں کر سکتے تو یہ بذاتِ خود آپ کی کمزوری کی علامت ہے۔ کیونکہ سازشوں کو علم، طاقت اور دانائی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، ہاتھ جوڑ کر یا شکوے کرنے سے توایسا ہونا ممکن نہیں۔ دنیا کی سیاست میں تاریخی طور پر سازشیں اور جنگ و جدل کی شرح غیر مذاہب کی نسبت اپنے ہم مذاہب بلکہ ایک ہی خاندان کے اندر زیادہ ہوتی ہے۔ جنگِ عظیم ِ اوّل اور دوم میں متحارب ممالک کی اکثریت عیسائی تھی۔ کربلا کی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی اور مہا بھارت تو ایک خاندان یعنی کزنز(Cousins)کے بیچ لڑی گئی جنہیں کورو اور پانڈو کہتے تھے۔ سو یہ سازشی تھیوری تو اپنی موت خود ہی مر جاتی ہے۔ دوسری بات ہےمذہبی نظام کے نفاذ اور مذہب سے دوری کی۔ تو ہر مذہب میں فرقوں کے وجود کے بعد عملی طورپر یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کسی ایک مذہبی نظام پر تمام فرقوں کا اجماع(Consensus)یا اتفاقِ رائے ہوسکے۔ دوسرا مذہبی نظام کوئی ایسا خواب نہیں جس کی تعبیر صرف کوئی مذہبی رہنما ہی بتا سکتے ہیںجو خود اپنے مفادات کے لئے ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہتے ہیں اور قوم کو فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ غیر مسلم مسلمانوں کے تمام فرقوں کو مسلمان قرار دیتے ہیں لیکن مسلمان ایک دوسرےکے فرقوں کو کافر تک کہنے سے نہیں چوکتے۔درحقیقت کائنات کی تمام آفاقی سچائیاں جن پر اکثریت کا اتفاق ِ رائے ہے وہی دنیا کے ہر اچھے نظام کی بنیاد ہیں۔ جن میں اسلام بھی شامل ہے۔ سوائے چند مذہبی عبادات اور رسوم کے دنیا کے تمام اچھے نظامِ حیات ایک جیسے ہی ہیں۔ جن پر چل کر بنی نوع ِ انسان نے ترقی کی ہے۔ لیکن کچھ شاطروں نے مذہبی نظام کو ایک (Puzzle)’’معمہ‘‘ یا ’’سراب‘‘ بنا کر سادہ لوح عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ اور وہ ایک ایسے راستے پر چل پڑے ہیں جہاں قتل و غارت گری اور فرسٹیشن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مسلم دنیا کے انتشار اور پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو دیگر اقوامِ عالم سے علیحدہ سمجھنے لگے ہیں اور کسی خود ساختہ ’’ احساس ِ برتری ‘‘ کا شکار ہوگئے ہیں جو درحقیقت احساسِ کمتری کی ہی ایک شکل ہے۔ اس احساس نے انہیں پہلے عالمی برادری سے الگ تھلگ کر دیا اور پھر اپنے ہی ہم مذہبوں سے بھی دور کردیا او ر وہ فرقہ ورانہ عصبیت کا شکار ہوکر ایک دوسرےکا خون بہانے لگے ہیں جہاں تک مسلم امہ کے اتحاد کا سوال ہے تو ان کے تعلقات مسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم عالمی طاقتوں کے ساتھ ہیں۔ کوئی مسلمان ملک کسی غیر ملکی مسلمان کو اپنی شہریت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ یہاں تک کہ جنگ سے تباہ حال شام کے بیس ہزار پناہ گزینوں کو ایک غیر مسلم ملک جرمنی نے شہریت کی پیشکش کی ۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ہم بھی عالمی برادری کا ایک حصّہ ہیں۔ ہمیں خود کو اس سے الگ ثابت کرنے کی حماقت کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ جب تک مسلم دنیا جمہوریت، علم و تحقیق ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور مذہبی انتہا پسندی سے باہر نکل کر عالمی برادری کے ساتھ نہیں چلتی یہ مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جائیں گی۔