حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن دنیا فانی ہے، زندگی چند روزہ ہے، کوئی ہزاروں سال نہیں جئے گا، ہستی ناپائیدار ہے، اپنی اپنی بھلائی کی فکر کرو، جستجو امن کی کرو، سفید لباس پہننے میں اچھا لگتا ہے، کفن کی صورت میں ہو تو خوف آتا ہے، آگ سرد لمحات میں سرور دیتی ہے فضا میں آگ بارود بکھیر کر مخلوق خدا کی سانس روک دیتی ہے۔ یہ مخلوق ہی ہے ایک دوسرے سے ڈرنے والی یہ بندوں نے ہی بندوں کو ڈرا رکھا ہے اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہتھیاروں سے، اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے بارود سے، اپنے ہی ہاتھوں سے بنے ایٹم بم سے۔ عقل و فہم سے کام لیکر آگے بہت آگے نکلنے والو کونسی آگہی ہے جو رہ گئی ہے تہمارے شعور میں آنے کو کیا اس بحرکائنات نے تمہیں ادراک نہیں دیا کہ آگ کیا ہے، شعلے کیا ہیں، باردو کیا ہے، جھلسا دیتی ہے، راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔ ایسی راکھ کے پھر پانی میں بہادی جائے اپنے اپنے خطوں کو آگ سے دوآشتہ کرنے والو آگ زمینیں کھا جاتی ہے کہ پھر کھنڈر ہی کھنڈر ہر جگہ نظر آئیں۔ آگ حیوان و انسان کھا جاتی ہے، شجر و چمن کے قطار در قطار سلسلے اسی بارود گردی کی زد میں آجاتے ہیں۔ کائنات کا حسن آن کی آن میں تباہ، اور اگر لڑنا ہے تو عداوت اور فساد ختم کرنے کی لڑائی لڑو۔بارود سے اچھی وہ لڑائی تھی جو ہاتھوں سے لڑی جاتی تھی، کھلے میدانوں میں آبادی سے دور صرف مٹی اور پتھریلی زمین جہاں ہوتی تھی۔ پانچ چھ سو میل کے فاصلے پیدل طے کئے جاتے تھے۔ طول و طویل سفر طے کرنے کے دوران کبھی کبھی جنگ کے ارادے بھی بدل جایا کرتے تھے۔ فوجیں تنگ پڑ کر بڑھنے سے انکار بھی ہوجاتی تھیں یا پھر ایک دوسرے کی خبرداری اور جاسوسی میں ہی وقت گزر جاتا تھا۔ غفلت اور کوتاہ اندیشی سے ہٹ کر بھی لڑائیاں پروان چڑھتی ہیں وہی حال ماضی میں رہا اور وہی حال اب بھی ہے کہ جنگ کے پیاسے وحشی درندوں کی طرح ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو میدانوں کی جنگوں کی بات ہورہی ہے کہ شہری آبادی سے دور لڑائی میں بارود سے آگ کے شعلے عام لوگوں کیطرف لپکنے سے بچت ہوجاتی ہے۔ اور مائیں بھی دھوئیں کی فضا میں بچے پیدا کرنے سے بچ جاتی ہیں۔ بچے صحت مند پیدا ہوتے ہیں تاکہ نسل تیار ہو پھر سے جنگوں کیلئے، تو لڑائی کے پیاسے جب بھی لڑتے تھے تو سرکٹا لیا کرتے تھے، ہاتھی، گھوڑوں کے پائوں تلے روندے جاتے تھے، لشکر پامال ہوکر کھلبلی کا شکار ہوجاتے تھے۔ جنگ آج بھی ہورہی جدید ترین ہتھیاروں کیساتھ، اب فوجیں میلوں بلکہ کئی سو میل پیدل نہیں چلتیں، طیاروں، جہازوں اور توپوں کے استعمال سے جنگ لڑی جاتی ہے۔ سرحدوں سے تین میل اندر آکر منٹوں سیکنڈوں میں تباہی پھیر جاتے ہیں۔ فضا میں ایک قسم کا جہازی غول امڈتا ہے اپنی اپنی طاقت دکھا کر یہ جا وہ جا۔ مگر اوپر سے وہ نہ صرف بم بستیوں پر گراتا ہے بلکہ معصوم جانوں کا زیاں بھی کرجاتا ہے۔ آج کی جنگیں زمینی بھی ہیں، بحری بھی ہیں اور فضائی بھی۔ جنگ سے ماحول نہایت ہولناک ہوجاتا ہے کہ ہزاروں شہر اور شہری متاثر تو ہوتےہیں آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوتی ہیں بارود، آگ اور دھوئیں کے اثر سے نہیں نفرت کی بارود میں جھلس کر یہ کندن نہیں بنتے بلکہ نسل درنسل نفرت کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ ہتھیاروں کا ٹکرائو رہتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہتھیاروں کا ٹکرائو ہورہا ہے، بہتر تھا کہ ان سب ہتھیاروں کو توڑ کر، کوٹ کر ان سے کھیتوں کے اوزار بنالئے جائیں تاکہ بے کار ہونے والی زمینوں کو دوبارہ کاشت کیا جاسکتا۔ وہ جو ہر ذہن میں سوال ابھرتے ہیں نہ کہ جنگ ضرور کرو، مگر اپنی اپنی غربت مٹانے کو، اپنے اپنے مسائل حل کرنے کو اپنے اپنے دلدر دور کرنے کو۔ مسلمان جنگ سے متعلق اپنے نبیﷺ کی حدیث کے تحت سوچ رکھتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوہی جائے تو پھر صبرواستقامت کا ثبوت دو، یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔جنگ جھوٹ بھی بلواتی ہے ایمان بھی خراب کرتی ہے، مزاج بھی اتار چڑھائو کا شکار ہوتا ہے۔ بیماروں کیلئے مزید بیماریاں لاتی ہے، امیروں کو غریب اور غریبوں کو فقیر اور فقیروں کو مار ہی ڈال دیتی ہے، جو باقی بچ جاتے ہیں وہ غلام۔ حالیہ پاکستان و بھارت کی مڈبھیڑ میں کسی لڑنے کو تیار فوجیوں کو وہ مقام ملا یا نہیں مگر ساحر لدھیانوی کو خوب خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے ان کی عرصہ دراز کی لکھی نظم جنگ میں خوب کام آتی ہے اب تو جتنی بار بھی جنگیں ہوتی ہیں اتنی ہی مرتبہ یہ یاد کرنا پڑتی ہیں۔ تو بات ہورہی تھی کہ جنگوں میں ایمان بھی خراب ہوجاتا ہے جھوٹ بھی ابھر کر خوب آتا ہے یعنی پھر کون ایمان اور کون بے ایمان پتہ نہیں چلتا بس صورت حال اس شعر کی مانند ہوتی ہے۔ مجھے کافر کہو گے تو تمہارا کیا بھلا ہوگا۔ میرا بھی وہی خدا نکلا تو پھر تمہارا کیا ہوگا۔ جنگ چیز تو اچھی نہیں ہے بس انا کی بھیڑچال ہے جوشیلوں کی بڑک ہے۔ جذبات کی بھڑک ہے ہرجا آگ کی لپک ہے۔ اپنی سرمئی شاموں کو انگاروں کے رنگوں سے کیوں دوآشتہ کرنا۔ شاموں کو کون جلاتا ہے، جمن کو کون بے رنگ کرتا ہے۔ چمن مہکا رہے تو اچھا ورنہ ویرانی کسے خوش رنگ لگتی ہے۔ جنگ پھر جنگ ہے یہ ہوتی ہے تو ہوتی رہتی ہے۔ یہ اپنے ہاتھ میں نہیں رہتی، جنگ کا قانون بن جاتی ہے۔ ہوا کے دوش پر خوف تحریر رہتی ہے۔ علم و عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے جنگ کا سیلاب کسی ساحل پر نہیں رکتا۔ جنگ کا طوفان ہر موج بہالے جاتا ہے کئی گھروں کے چراغ بجھ جاتے ہیں۔ راج کی دنیا تاراج ہوجاتی ہے جسم و چہرے خون بس خون ہوتے ہیں۔ انسانیت حیوانیت کا نقاب اوڑھ لیتی ہے۔