• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ حسن نظامی

ایک چڑے چڑیا نے ایک اونچی کوٹھی میں اپنا گھونسلا بنایا تھا، اس کوٹھی میںولایت سےبیرسٹری پاس کرکے آنے والے رہتے تھےاورایک میم کوساتھ لےکرآئےتھے۔ان کی بیرسٹری کچھ چلتی نہ تھی مگرامیر زمیندار تھے گزارہ خوبی سے ہوجاتا تھا۔ ولایت سےآنے کےبعد خدا نےان کوایک لڑکی بھی عنایت کی تھی۔

چڑےچڑیا نےکھپڑیل کےاندرایک سوراخ میں گھربنایا۔تنکوں اورسوت کافرش بچھایا۔یہ سوت پڑوس کی ایک بڑھیاکےگھرسےچڑیا لائی تھی۔ وہ بیچاری چرخا کاتا کرتی تھی۔ الجھا ہواسوت پھینک دیتی،توچڑیا اٹھا لاتی اور اپنے گھر میں اس کوبچھا دیتی۔ خداکی قدرت ایک دن انڈا پھسل کرگر پڑااورٹوٹ گیا۔ایک ہی باقی رہ گیا۔چڑےچڑیاکواس انڈےکا بڑا صدمہ ہوا، جس دن انڈا گرا تو چڑیا گھونسلےمیں ہی تھی۔ چڑا باہر دانہ چگنےگیا ہوا تھا۔وہ گھرمیں آیا تو چڑیا کو چپ چپ اورمغموم دیکھ کرسمجھا میرے دیر سے آنےکےسبب خفا ہوگئی ہے۔

لگا پھدک پھدک کرچوں چوں۔ چیں، چڑچوں، چڑچوں، چیں چڑچوں، چوں، چڑچوں چڑچوں۔چوں، کرنےکبھی چونچ مارکرگدگدی کرتا۔ کبھی خود اپنےپروں کوپھیلاتا مٹکتا، ناچتا، مگرچڑیا اسی طرح پھولی اپھری خاموش بیٹھی رہی۔ اس نےچڑے کی خوشامد کا کوئی جواب نہ دیا۔ چڑاسمجھا بہت ہی خفگی ہے۔مزاج حد سےزیادہ بگڑگیا ہے۔خوشامد سےکام نہ چلےگا۔ میری کتنی بڑی توہین ہےکہ اتنی دیرخوشامددرآمدکی، بیگم صاحبہ نےآنکھ اٹھا کرنہ دیکھا۔ یہ خیال کرکےچڑابھی منہ پھیرکربیٹھ گیا۔اورچڑیا سے بےرخ ہو کر نیچے بیرسٹر صاحب کو تاکنے لگا۔ جو اپنی لیڈی کے سامنے آرام کرسی پر لیٹے ہنسی مذاق کررہےتھے۔ چڑے نے خیال کیا یہ کیسےخوش نصیب ہیں۔ دونوں کا جوڑا خوش بشاش زندگی کاٹ رہا ہے۔ ایک میں بدنصیب ہوں، سویرے کا گیا دانہ چگ کراب گھرمیں گھسا ہوں، مگرچڑیا صاحبہ کا مزاج ٹھکانے میں نہیں ہے۔ کاش میں چڑا نہ ہوتا،کم سےکم آدمی بنا دیا جاتا۔

چڑااسی ادھیڑبن میں تھا کہ چڑیا نےغمناک آوازنکالی۔’’ چوں‘‘ چڑے نےجلدی سےمڑکرچڑیاکو دیکھا اورکہا چوں چوں چڑچوں چوں کیا ہے،آج تم ایسی چپ کیوں ہو؟۔ چڑیا بولی انڈا گرکےٹوٹ گیا۔ انڈاگرنے کی خبرسےچڑےکورنج ہوا، مگراس نےصدمہ کودباکرکہا، تم کہاں چلی گئیں تھیں۔ انڈا کیوں کرگر پڑا۔چڑیا نےکہا میں اڑکرذراچمن کی ہواکھانےچلی گئی تھی۔انڈا پھسل گیا۔ یہ سن کرچڑا آپےسےباہرہوگیا۔ اس کےمردانہ جوش میں طوفان اٹھ کھڑاہوا۔ اوراس نے کڑک دارگرجتی ہوئی چوں چوں میں کہا۔ پھوہڑ، بدسلیقہ، بےتمیز توکیوں اُڑی تھی۔ تجھ کوچمن کی ہوا کےبغیرکیا ہواجاتا تھا۔ کیا تونےبھی اس گوری عورت کی خصلت سیکھ لی ہےجوگھرکاکام نوکروں پر چھوڑکرہواخوری کرتی پھرتی ہے۔تو ایک چڑیا ہے۔ تیراکوئی حق نہیں ہےکہ بغیرمیری مرضی کے باہرنکلے۔ تجھ کومیرے ساتھ اڑنے اور ہوا خوری کرنے کا حق ہے۔ آج کل تو انڈوں کی نوکر تھی۔ تجھے یہاں سےہٹنے کا اختیار نہ تھا، تو نے ایک انڈے کا نقصان کرکےاتنا بڑاقصورکیا ہےکہ اس کا بدلہ کچھ نہیں ہوسکتا،تو نےخدا کی امانت کی قدرنہ کی، جواس نےہم کونسل بڑھانےکی خاطردی تھی۔ میں نے توپہلےدن منع کیا تھاکہ اری کمبخت اس کوٹھی میں گھونسلہ نہ بنا، ایسا نہ ہوان لوگوں کا اثر ہم پربھی پڑجائے۔ ہم بیچارے پرانے زمانے کے دیسی چڑے ہیں۔ خدا ہم کونئےزمانےکےچڑیاچڑے سےبھی بچائےرکھے،کیوں کہ پھرگھرکےرہتےہیں نہ گھاٹ کے، مگرتونہ مانی ، کہتی رہی ’’کوٹھی میں رہوں گی،کوٹھی میں گھربناؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کرمیراناک میں دم کردیا۔

چڑیاپہلےتواپنےغم میں چپ چاپ چڑے کی باتیں سنتی رہی لیکن جب چڑاحد سےبڑھا تواس نےزبان کھولی اورکہا،بس، بس سن لیا، بگڑچکے،زبان کوروکو۔ انڈےبچےپالنےکا مجھی کاٹھیکہ نہیں ہے،تم بھی برابرکےشریک ہو۔ سویرےکے گئے یہ وقت آگیا، خبرنہیں اپنی کس سگی کےساتھ گلچھرے اڑاتے پھرتے رہے ہوگے۔ دوپہر میں گھرکےاندرگھسےہیں اور آئے تو مزاج دکھانےآئے۔ انڈا گرپڑا۔مرے پنجہ کی نوک سے،میں کیا کروں۔ میں کیا انڈوں کی خاطر اپنی جان کو گھن لگالوں،دوگھڑی باہرکی ہوابھی نہ کھاؤں۔ صبح سےیہ وقت آگیا، ایک دانہ حلق سےنیچےنہیں گیا۔ تم نے پھوٹے منہ سےیہ بھی نہ پوچھا کہ کیا تو نےکچھ تھوڑانگلا۔ مزاج ہی دکھانا آتا ہے، اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ اکیلی چڑیایہ سب بوجھ اُٹھائے،اب آزادی اوربرابری کا وقت ہے۔ آدھا کام تم کروآدھا میں کروں۔ دیکھتے نہیں میم صاحبہ کووہ تو کچھ بھی کام نہیں کرتیں۔ صاحب کو ساراکام کرناپڑتا ہے۔ اور بچے کو آیا کھلاتی ہے۔ تم نےایک آیا رکھی ہوتی۔ میں تمہارےانڈے بچوں کی آیا نہیں ہوں۔

چڑیا کی اس تقریر سےچڑا سُن ہوگیا اورکچھ جواب نہ بن پڑا۔ بےچارہ غصہ کوپی کرپھرخوشامد کرنےلگا۔ اوراس دن سےچڑیا کےساتھ انڈے کی آدھی خدمت بانٹ کراپنےذمہ لےلی۔ 

تازہ ترین