یہ باپ تھے، بھائی تھے اور بیٹے تھے۔ ان میں سے کچھ مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں بھی تھیں۔ یہ نہتے بچے اور بوڑھے، مرد اور عورتیں ان سب پر دو مساجد میں گھس کر گولیاں برسائی گئیں۔ ان کا قصور کیا تھا؟ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں شہید ہونے والے پچاس مسلمانوں میں پاکستانی، بھارتی، بنگلہ دیشی، افغانی، فلسطینی، شامی، صومالی اور کچھ مقامی بھی تھے۔ یہ گورے بھی تھے اور کالے بھی۔ ان سب پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ انکا قصور کیا تھا؟ حملہ آور برینٹن نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنا بزدلانہ فعل براہِ راست فیس بک پر پوری دنیا کو دکھایا۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک مسلح شخص نے مسجد میں گھس کر 71سال کے افغان بزرگ حاجی دائود نبی اور تین چار سال کے صومالی بچے عبدالحئی دیری کو صرف اسلئے خون میں نہلا دیا کہ یہ مسلمان تھے۔ حملہ آور کا 74صفحات پر مشتمل منشور یہ بتاتا ہے کہ وہ مغربی تہذیب کو بیرونی حملے سے محفوظ کرنا چاہتا تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متاثر یہ شخص ہر مسلمان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا لیکن اتنا بزدل تھا کہ جب ایک پاکستانی نعیم رشید نے حملہ آور سے اس کا ہتھیار چھیننے کی کوشش کی اور زخمی ہونے کے باوجود مزاحمت کی تو یہ بزدل حملہ آور نعیم رشید پر مزید گولیاں برساتا ہوا کرائسٹ چرچ کی النور مسجد سے بھاگ گیا۔ ہفتہ کے دن حملہ آور کو نیوزی لینڈ کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ بڑا مطمئن نظر آرہا تھا۔ شاید وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ مغربی تہذیب کا بہت بڑا ہیرو بن چکا ہے کیونکہ اس نے پچاس مسلمانوں کو موت کی نیند سُلا کر صلیبی جنگوں کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیا ہے لیکن حقیقت میں دو مساجد میں نہتے مسلمانوں پر حملہ ہی اس کا اعترافِ شکست تھا۔ آج پوری دنیا ایک غیر مسلح شہید پاکستانی نعیم رشید کی بہادری کا اعتراف کر رہی ہے اور حملہ آور برینٹن کو ایک بزدل شخص قرار دے رہی ہے۔ حملہ آور کو یہ تو پتا تھا کہ جمعہ کے دن دوپہر کو مسلمان مسجدوں میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے ہوئے ان مسلمانوں پر گولیاں برسانا بہت آسان ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ان مسلمانوں پر گولیاں برسا کر وہ انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ کر دے گا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ پچاس مسلمان شہید کا درجہ پائیں گے۔ موت سب کو مار سکتی ہے لیکن شہید موت کو بھی مار دیتا ہے۔
بزدل آسٹریلوی حملہ آور نے کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں میں گھس کر وہی کچھ کیا جو اسرائیلی فوج فلسطین میں، بھارتی فوج کشمیر میں اور امریکی فوج افغانستان میں کر رہی ہے۔ حملہ آور نے اپنے منشور کے ذریعہ نفرتوں کی نئی آگ بھڑکانے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی ہوئی کیونکہ اس کی خونریزی کے خلاف دنیا بھر کے مسیحیوں، یہودیوں، ہندوئوں، سکھوں، بدھسٹوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے مسلمانوں کیساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ حملہ آور برینٹن کا ہیرو ڈونلڈ ٹرمپ بھی سانحہ کرائسٹ چرچ کی مذمت پر مجبور ہو گیا اور بھارت کے اسلام دشمن وزیراعظم نریندر مودی کو بھی ایک خط کے ذریعہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے ساتھ اظہارِ افسوس کرنا پڑا۔ وہ سب اسلام دشمن جو مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، غلط ثابت ہو گئے۔ ساری دنیا پر واضح ہو گیا کہ دہشت گردی کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ زبان اور نہ ہی کوئی نسل ہے۔ اگلا جمعہ بزدل آسٹریلوی حملہ آور کے لئے مزید ناکامیوں کا پیغام لے کر آ رہا ہے کیونکہ اس دن دنیا بھر کے امن پسند مسیحی، یہودی، ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے پیروکار مختلف براعظموں میں نمازِ جمعہ ادا کر کے مساجد سے باہر آنے والے مسلمانوں کا استقبال پھولوں سے کریں گے اور اس کے بعد جو اتوار آئے گی، اس دن مسلمان گرجا گھروں کے باہر پھول ہاتھوں میں لے کر کھڑے ہوں گے۔ کرائسٹ چرچ کے شہداء کے خون سے پوری دنیا میں امن کی ایک ایسی تحریک شروع ہو سکتی ہے جو نفرتوں کے خلاف محبتوں کا پیغام بن سکتی ہے لیکن اس تحریک کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری دنیا بھر کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے جو کرائسٹ چرچ کے شہداء کے اصل وارث ہیں۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے مسلمانوں کو منافقت چھوڑنا ہو گی۔ اسلام میں جھوٹ اور منافقت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اسلام ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینے کا نام ہے۔ ہمیں آسٹریلوی حملہ آور برینٹن کی مذمت ضرور کرنا چاہئے لیکن یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کرائسٹ چرچ کی مسجد میں شہید ہونے والے فلسطینی اُسامہ عدنان اور ڈاکٹر امجد حمید نے اپنا وطن کیوں چھوڑا؟ بوڑھا افغان حاجی دائود نبی مہاجر کیوں بنا؟ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارغ التحصیل ایبٹ آباد کا پاکستانی نعیم رشید اپنے خاندان کو نیوزی لینڈ کیوں لے گیا؟
کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ فلسطین سے لے کر کشمیر تک ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور مسلمان ظلم سے تنگ آ کر نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں؟ ظلم سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن اس ظلم کی وجہ مسلمانوں کی نااتفاقی ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور تفرقے سے دور رہنے کا حکم دیا لیکن ایک ارب سے زائد مسلمان آپس میں تقسیم ہیں، فرقہ واریت کا شکار ہیں اور ایک دوسرے کی نفرت میں اُن کو بھی گلے لگانے کیلئے تیار ہیں جو ہر مسلمان کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ آسٹریلوی حملہ آور برینٹن ایک غیر مسلم تھا اور آج اس کی ہر کوئی مذمت کر رہا ہے لیکن ایک مسلمان کالم نگار جمال خاشقجی کے جسم کے ٹکڑے کرنے والے تو غیر مسلم نہیں تھے۔ وہ بدقسمتی سے مسلمان تھے۔ ان ظالم مسلمانوں کی ہم میں سے کتنے حق پرستوں نے مذمب کی؟ ترکی کے صدر طیب اردوان نے اس قتل کی بہت مذمت کی لیکن ان کے اپنے ملک میں دو سو سے زیادہ صحافی جیلوں میں ہیں۔ ایران نے بھی جمال خاشقجی کے قتل کی مذمت کی لیکن خود ایران میں انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے عماد باغی کو 2018ء میں زندہ جلا دیا گیا۔ ایک ایرانی پروفیسر سید امامی کو گرفتار کرکے سرکاری حراست میں تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا گیا۔ مسلمانوں کو یہ منافقت ختم کرنا ہو گی۔ دوسروں کے ظلم کے خلاف کلمۂ حق ضرور کہیں لیکن اپنے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت بھی پیدا کریں۔
پاکستان کو دیکھ لیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کے کردار کی بڑی تحسین کی جاتی ہے۔ اسی فوج کے ایک افسر بریگیڈیئر اسد منیر کے دہشت گردی کے خلاف کردار پر ریاست نے انہیں تمغے بھی دیئے لیکن اسی ریاست کے ایک ادارے نیب کے رویے سے تنگ آکر اسد منیر نے خود کشی کر لی۔ خود کشی سے قبل اسد منیر نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام جو خط تحریر کیا اس نے مجھے اندر سے ہلا دیا۔ لوگ سمجھتے ہیں نیب صرف سیاستدانوں سے انتقام لیتی ہے لیکن میں ایسے کئی غیر سیاسی لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں نیب نے ناکردہ گناہوں میں قید کر رکھا ہے اور اُن پر رہائی کے لئے پلی بارگین کا دبائو ڈالا جاتا ہے تاکہ نیب والوں کی دال روٹی چلتی رہی اور نعیم رشید جیسا بینکر ریاست کے ظلم و ناانصافی سے تنگ آکر نیوزی لینڈ چلا جائے۔ ہمیں اپنی اپنی جگہ ہر قسم کے ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئے۔ ظالم صرف غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان بھی ہوتا ہے۔ ہر ظالم کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں گے تو انصاف ملے گا۔ جب ہم ایک دوسرے کو انصاف دیں گے تو پھر دنیا سے بھی انصاف ملے گا۔ اس لئے کرائسٹ چرچ کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے دنیا بھر کے مسلمان منافقت کو خیر باد کہہ دیں، ہمارا اصل قصور ہماری منافقت ہے۔