• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عموماً کہا جاتا ہے کہ ہر بڑے آدمی کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کردار ہوتاہے۔ فرانس کے حکمران نپولین بونا پارٹ کے الفاظ ہیں ’’ مجھے ایک اچھی ماں دے دومیں ایک عظیم قوم دوں گا۔‘‘

ترک کے بانی مصطفےٰ کمال کبھی ’’اتاترک‘‘ ( بابائے ترک )نہ بن پاتے، اگر ان کے پیچھے ان کی ماں زبیدہ خاتون کا کردار نمایاں نہ ہوتا۔ برصغیر میں مولانا محمدعلی اور شوکت علی ان کو ’’جوہر‘‘ بنانے کاسہرا ان کی ماں کے سر جاتا ہے، اسی طرح قائداعظم محمدعلی جناح کو ’’بابائے قوم‘‘ بنانےمیں ان کی بہن فاطمہ جناح کا بھی نہایت اہم کردار تھا۔

انتظامی امور سے لے کر ملک کی باگ دوڑ تک عورتوں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں دنیاکے بہت سے ممالک جو برطانیہ اعظمی کی قلم رو کا حصہ بنے رہے۔ برطانیہ میں آج بھی ملکہ الزبتھ کی بادشاہت ہے۔ ایک عشرہ پہلے مارگریٹ تھیچر یہاں کی وزیراعظم تھیں۔

پاکستان میں بیگم رعنا لیاقت علی خان صوبہ سندھ کی گورنر تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔آج دنیاکے بیشتر ممالک میں عورت کو بہت سے حقوق اور آزادی حاصل ہوچکی ہے۔ وہ سربراہ مملکت ،سفارت کار، سائنسدان ، سیاست دان اور اسپیکر بھی ہیں۔ عورت پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ دونوں صورتوں میں مرد کے ساتھ زندگی کی گاڑی چلانے میںاہم کردار ادا کررہی ہے۔ملازمت یا کاروبار کے لئے گھر سے نکلی ہے تو زمینوں پر کاشت بھی کررہی ہے۔ صنعت کار ، ڈاکٹر ، نرس ، اسکول ، ٹیچر، لیکچرار، پروفیسر ، پرنسپل ، وائس چانسلر بھی ہے تو دوسری طرف بجری ڈھوتی ، تارکول بچھاتی اور اینٹیں بناتی عورتیں بھی ہیں، اگر محنت مزدوری کے کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ محنت کررہی ہیں۔ وہ صرف زیر تعمیر سڑکوں ، زیر تعمیر عمارتوں پر ہی نہیں بلکہ اہل ثروت لوگوں کے گھروں میں بھی کام کاج کررہی ہیں۔ وہ ہر شعبہ زندگی میں سرگرم عمل ہیں اور کارگہہ زیست میں اپنی پہچان بنارہی ہیں۔

قائداعظم محمدعلی جناح نے کہا تھا کہ ’’کوئی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیںکرسکتی جب تک اس قوم کی عورتیں ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ نہ چلیں۔‘‘

ہماری خواتین مذہبی و معاشرتی اقدار میں رہتےہوئے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔دنیا بھر کے دانشوروں نے خواتین کے وجود کو اہم قرار دیا اور کہاکہ ’’ ان کےوجود سے پوری کائنات روشن ہے۔‘‘ اسی لئے تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں توکبھی ملکہ ز بیدہ ، کبھی رضیہ سلطانہ کے روپ میں تو کبھی چاند بی بی بن کر تو کبھی الجزائر کی جمیلہ ، فلسطین کی لیلیٰ بن خالد بن کر بہادری کےکارنامے دکھاتی رہی ہیں۔ ا ن کے علاوہ بھی بے شمار خواتین کا ذکر تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتا دکھائی دیتاہے،جنہوں نے قوموں کے مقدر کو چار چاند لگا دیئے تھے۔

آج ادب سے لےکر عسکری شعبوں ، خلائوں ، فضائوں میںہر جگہ خواتین کامیابی کے جھنڈے گاڑتی نظر آرہی ہیں۔

چے خف کا قول ہےکہ ’’عورت مردسے زیادہ محنتی سمجھدار اور نیک ہے۔‘‘

عورت باہمت اور پرعزم ہے ،جس نے خلانورد بن کر سیاروں پر قدم رکھا تو تیراک بن کر سمندر کے سینے کو چاک کیا، کوہ پیما بن کر بلند ترین پہاڑوں کو سر کیا۔

ابن رشد کا قول ہےکہ ’’ وہ قوم کبھی سرفرازی و بلندی حاصل نہیں کرسکتی، جس کی عورتیںمردوںکے دوش بدوش کارِ زندگی میں شریک نہ ہوں۔‘‘

خواتین کی خدمات کی ایسی انگنت تابندہ مثالیں ہیں، جن میںمدر ٹریسا، شائستہ اکرام اللہ، بلقیس ایدھی ، شیریں عبادی ، ڈاکٹر رتھ فائو ، ملیحہ لودھی ، بانو قدسیہ، پروین شاکر اور بے شمار،جنہیں ملک و قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ خواتین آبادی کے لحاظ سے نصف سے زیادہ ہیںاور ان کا کردار کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں طور پر نظر آتاہے،یہی وجہ ہے کہ روانڈا کے بعد ایتھوپیا دوسرا افریقی ملک ہے، جہاں وزراء میں نصف خواتین ہیں۔خواتین نے اپنی اہلیت سے ثابت کر دکھایا کہ وہ اعلٰی عہدوں پر فائز رہ کر اِسے خوش اسلوبی سے نبھا سکتی ہیں۔

علامہ اقبال نے اپنے ایک مقالے میں تحریر کیا تھاکہ :

’’عورت تمدن کی جڑہے، لہٰذا اس کی طرف پوری توجہ دیناضروری ہے۔ اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کےزیورسے آراستہ کریں مرد کی تعلیم صرف ایک فردواحد کی تعلیم ہے ،مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔‘‘

دنیا میں معیشت بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور وہی قومیں ترقی کی منازل طے کررہی ہیں جو بہتر حکمت عملی سے کام کررہی ہیں۔ شعور و آگاہی کے اس جدید دور میںخواتین کوتعلیم سے آراستہ کرنا اور بااختیار بنانا ناگزیر تقاضا ہے، کیوںکہ جب تک ملک وقوم کی اتنی بڑی آبادی ملکی تعمیر و ترقی میں شرکت نہیں کرے گی تو معیشت کی صورت حال بہتر نہیں ہوسکتی۔

تازہ ترین