• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نے مولانا روم سے 5سوالات کے جوابات پوچھے۔ پہلا سوال تھا کہ زہر کسے کہتے ہیں؟ جواب ملا: وہ تمام چیزیں جوایک حد سے زیادہ ہو جائیں ’’زہر‘‘ بن جاتی ہیں، خواہ وہ طاقت ہو یا اقتدار، انا ہو یا دولت ہو، بھوک ہو یا لالچ اور نفرت(جیسے مجھے کیوں نکالا)۔ دوسرا سوال تھا کہ خوف کس شے کا نام ہے؟ جواب ملا غیر متوقع صورتِ حال کو قبول نہ کرنے کا نام خوف ہے (جیسے جیل ہوئی تو دھرنا دیں گے، ملین مارچ کریں گے وغیرہ)۔ تیسرا سوال تھا کہ حَسَد کِسے کہتے ہیں؟ جواب دیا گیا کہ دوسروں میں خیر و خوبی تسلیم نہ کرنے کا نام حَسَد ہے۔ چوتھا سوال یہ تھا کہ غصہ کس ’’بلا‘‘ کا نام ہے؟ جواب ملا کہ جو امر ہمارے قابو سے باہر ہو جائے، اسے تسلیم نہ کرنے کا نام غصہ(بادشاہت کا خاتمہ اور رسوائی ) ہے۔ پانچواں سوال تھا کہ نفرت کسے کہتے ہیں؟ جواب ملا کسی شخص کو جیسا وہ ہے ویسا تسلیم نہ کرنے کا نام نفرت (اداروں کو تسلیم نہ کرنا اور این آر او کا نہ ملنا) ہے۔

پاکستان بدل چکا ہے، پرانے پاکستان میں این آر او ہوتا تھا، نئے پاکستان میں جیل ہوتی ہے۔ ایک دن ٹویٹ ہوتا ہے کہ ہمیں ملنے نہیں دیا جا رہا، جب ملاقات کا دن آتا ہے تو کہتے ہیں کہ آج جمعرات کا دن ہے ہم ملاقات نہیں کریں گے۔ جعلی جمہوریت کے ذریعے جعلی پیسہ اکٹھا ہوتا رہا، جعلی وزیر ومشیر بنتے رہے، جعلی طاقت سے اداروں کو تباہ وبرباد کیا گیا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی صحت پر غلط بیانی نہیں ہونی چاہئے۔ بیٹی مریم نواز کہہ رہی ہیں، ابو جی ٹھیک نہیں ہیں جبکہ ترجمان پنجاب حکومت ڈاکٹر شہباز گل کہتے ہیں کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے، الحمدللہ میاں صاحب نے انڈے، بریڈ، فریش جوس، آلو گوشت، چاول کھائے ہیں۔ غالباً یہ پاکستان کا واحد قیدی ہے، جسے جیل میں ہوتے ہوئے دنیا کی تمام تر سہولیات میسر ہیں۔ یہ مریض وہ مریض ہے جس کو ڈاکٹر چیک کرنے آتے ہیں تو وہ آگے سے کہتا ہے کہ ابھی میں ضروری کام کر رہا ہوں، شام 5بجے آنا۔ دوسری طرف اسی پاکستان کی کیمپ جیل لاہور کی سلاخوں کے پیچھے پیر افضل قادری موجود ہیں، جن کا دل صرف 5فیصد چل رہا، مولانا خادم رضوی معذور ٹانگوں کے ساتھ اسی جیل میں عام قیدیوں کی طرح جیل کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں لیکن حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔ دھرنا دھرنا بولنا آسان ہے لیکن کوئی دھرنا دینے والے وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے دھرنا دینا سیکھ بھی لے، دھرنا تو ہونا چاہئے بلکہ ضرور ہونا چاہئے، بریانی کی ایک پلیٹ پر یہاں سب ممکن ہے لیکن جونہی بریانی ختم ہو گی لوگ چلے جائیں گے۔

آئیں صحت پر سیاست بند کریں، آئیں جعلی جمہوریت کے نام پر دوبارہ بادشاہت حاصل کرنے کا خواب دل سے نکال باہر پھنکیں، ورنہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ جب حالات مزید خراب ہوئے تو چند جو ساتھ کھڑے افراد نظر آرہے ہیں وہ بھی تتر بترہو جائینگے۔ مریم نواز صاحبہ اور حمزہ شہباز صاحب سے کہوں گا کہ وہ لاہور میں موجود بابا موج دریا کے دربار پر خود چلے جائیں یا پھر اپنے ایک (ن) لیگی ایم پی اے کو اپنے پاس بلا کر اصل مسئلہ سن لیں، شاید مسائل سے نکلنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ پاکستان کی جیل میں نواز شریف کو کچھ ہو جائے تو وزیراعظم عمران خان ذمہ دار ہیں اگر اللہ نہ کرے لندن کے اسپتال میں کچھ ہو جائے تو کیا ملکہ برطانیہ ذمہ دار ہوں گی؟ اسی طرح اگر سانحہ ماڈل ہو جائے تو اس وقت کے مقامی چند پولیس آفیسر ذمہ دار کیوں؟ علاج باہر کا پسند ہے، کاروبار بھی باہر کرنا پسند ہے، اولاد کو بھی باہر سیٹل کروانا پسند ہے، عیدیں باہر کرنا پسند ہیں، سیاست کیلئے ہی یہ پاکستان رہ گیا ہے۔ آمریت کا نفاذ کرنے والا پرویز مشرف بالکل غلطی پر تھا، جس نے آئین پاکستان کو معطل کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کیا لیکن جیل کی سلاخوں سے باہر جانے کے لئے این آر او کرنے والے، کروانے والے سب برابر ہیں۔ پرانے پاکستان کے نعرے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے بعد پیش خدمت ہے ’’مجھے لندن جانے دو‘‘۔

اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف۔ میں مانتا اور تسلیم کرتا ہوں کہ بھٹو کرپٹ نہیں تھے، پیپلزپارٹی کو ترقی دینا ہے تو بھٹو کے نظریہ سے ترقی دی جا سکتی ہے۔ انور مجید، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، سراج درانی کے نظریہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کا مزید نقصان ہو گا۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو جیل اگر خلاف قانون تھی تو ڈیل کیوں کی گئی۔ پرویز مشرف اتنا ہی برا تھا تو اس برے شخص کے ساتھ رات کی تاریکیوں میں ملاقاتیں کرنے والا کہاں کا اصول پسند ہے۔ تھانیدار پاکستان کو اچھا مل چکا ہے، بس اب عوام کا فرض بنتا ہے کہ کپتان کی آواز کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ بچائو بچائو کی آوازیں ہر طرف سے آرہی ہیں۔ اب عوام کو چاہئے کہ وہ کرپٹ مافیا کے سامنے  سیسہ پلائی دیوار کی صورت کھڑے ہو جائیں، پاکستان کے عشق میں مبتلا ہونے کا وقت آپہنچا ہے۔ اس لئے قوم کو چاہئے کہ وہ صرف 23مارچ اور 14اگست جیسے مخصوص دنوں میں ہی نہیں، بلکہ ہر لمحہ پاکستان کے عشق میں مست ہو جائیں۔

دعا ہے، اللہ تعالیٰ محمد نواز شریف اور تمام قدرتی و سیاسی بیماروں کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین