تقریب تو بنگلہ دیش کے قیام کی ’’چالیسویں سالگرہ ‘‘مکمل ہونے پر تھی اسلام آباد میں متعین غیرملکی سفارتکاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ بنگلہ دیشی لڑکیاں رنگ برنگ لباس میں علاقائی اور روایتی رقص پیش کر رہی تھیں۔ اسلام آباد میں بنگلہ دیشی ہائی کمیشن کے حکام کی بڑی تعداد اور ان کی بیگمات ساڑھیوں میں ملبوس اور ماتھے پر تلک لگائے مہمانوں کے ساتھ سیلفیاں بنوانے میں مصروف تھیں۔ سالگرہ کا بڑا کیک بھی موجود تھا جسے بنگلہ دیشی ہائی کمشنر سمیت دیگر شرکاء نے مل کر کاٹنا تھا ،گپ شپ اور سیاسی صورت حال پر تبصرے ہو رہے تھے اپنے اپنے تجزیے پیش کئے جا رہے تھے۔ غیرملکی سفارتکاروں میں قابل ذکر موضوع سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اسیری اور بیماری، سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات اور نیب کے اقدامات تھے۔ بنگالی زبان میں کسی مغنیہ کا ملی نغمہ گونجا تو بے اختیار شہناز بیگم کی یاد آگئی چند روز پیشتر ہی جن کا انتقال ہوا تھا سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد اور جیوے جیوے پاکستان۔ عالی جی کا یہ نغمہ انہوں نے پاکستان کی دھرتی پر ہی گایا تھا۔ جو آج تک ان کی یاد دلاتاہے شہناز بیگم کی یاد نے ماضی کے کئی در وا کر دیئے۔
یہ غالباً 1998کی بات ہے بنگلہ دیش میں سارک ممالک کے وزرائے اطلاعات کی کانفرنس تھی پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین سید اور بھارت کی جانب سے ان کی ہم منصب سشما سوراج کر رہی تھیں جواس وقت بھارت کی وزیر خارجہ ہیں ان دنوں مشاہد صاحب کا مخصوص جملہ ’’کڑاکے کڈ دیاں گے‘‘ خاصا مشہور تھا حیرت ہوئی جب کانفرنس سے پہلے پاکستانی میڈیا کی سشما سوراج سے غیر رسمی گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے کانفرنس ہال کی طرف جاتے ہوئے معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ۔۔ آپ کے مشاہد صاحب کڑا کے نکالنے کے موڈ میں ہیں یا خوشگوار ماحول میں بات ہوگی۔ جس پر قہقہہ لگا اور وہ کانفرنس ہال میں چلی گئیں۔ کارروائی کے باضابطہ آغاز سے پیشتر سشما سوراج نے اپنے ابتدائیے میں کہا کہ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کا کوئی ذکر نہیں ہو گا ایجنڈا واضح ہے صرف ایجنڈے پر ہی بات ہو گی۔ اگر کشمیر پر بات ہوئی تو ہم کانفرنس کا بائیکاٹ کریں گے۔ جس پر وہاں سناٹا چھا گیا مشاہد صاحب نے فوری طور پر حکمت عملی وضع کی اور جواباً کہا کہ بھارت کی موجودگی میں پاکستان کی کوئی نشست اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم پر احتجاج نہ کرے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے انتہائی تیزی سے کشمیر کے حوالے سے مختصر لفظوں میں پاکستان کا موقف بیان کرنا شروع کیا لیکن ان کی نظریں سشما سوراج پر تھیں جیسے ہی انہوں نے اٹھنے کے لئے پہلو بدلا اور اپنے پرس کی طرف ہاتھ بڑھایا مشاہد حسین سید نے اسی لمحے یہ کہتے ہوئے کہ ۔۔اگر ہمیں کانفرنس میں کشمیر پر بات کرنے کی اجازت نہیں تو ہم کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہیں کانفرنس سے باہر نکل گئے ان کے ساتھ پورا میڈیا بھی ان سے گفتگو کرنے کے لئے باہر آگیا اور اس طرح یہ سارا شو پاکستان کے وزیر اطلاعات نے اپنے ملک کے نام کر لیا۔
بنگلہ دیش کی سڑکوں پر شاید ابھی تک وہ رکشے سواری کے لئے عام ہیں جنہیں پسینے میں شرابور جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی میلی بنیان پہنے نحیف و نزار بوڑھے ہانپتے کانپتے کھینچتے ہیں۔ ایک ایسے ہی رکشے کے معمر شخص سے گفتگو کی۔ اس سوال کے جواب میں کہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی تو اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں بتایا کہ ’’جب سے اس نے آنکھ کھولی اپنے بزرگوں کو رکشہ چلاتے ہی دیکھا ہے اوراب اس کا پوتا بھی رکشہ ہی چلاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ میری زندگی میں تو رکشہ بھی نہیں بدلا حالات کیا بدلنے تھے‘‘۔ سیلاب کی تباہ کاریاں بھی بنگلہ دیش کے عوام کا مقدر بن چکی ہیں ایک ایسے موقع پر ڈھاکہ جانے کا اتفاق ہوا ،خالدہ ضیاء اس وقت بنگلہ دیش کی وزیراعظم تھیں ۔اس سرکاری دورے میں ’’بہاری کیمپوں‘‘ میں جانے کا موقع بھی ملا جن کے کیمپ دارالحکومت ڈھاکہ سے خاصے فاصلے پر بنائے گئے ہیں تاکہ ان کے کیمپوں کی متعفن زندگی دارالحکومت کے ماحول کو خراب نہ کرے اور ان کیمپوں کے بے شناخت شہری اپنی شناخت کا مطالبہ کرنے اور بھوک و افلاس سے تنگ آئے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق احتجاج کے لئے ڈھاکہ نہ پہنچ جائیں۔ وہاں سے آنے والے بتاتے ہیںکہ اب بھی وہاں کچھ نہیں بدلا وہی صورت حال ہے۔۔ لیکن شاید بنگلہ دیش کے حکمراں ضرور بدل گئےہیں۔ خاص طور پر موجودہ حکمراں جس کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہےکہ پانچ سال قبل نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والی وزرائے اعظم سربراہی سارک کانفرنس میں بنگلہ دیش کی نمائندگی وزیراعظم حسینہ واجد کر رہی تھیں۔ نواز ۔ مودی ملاقات کی خبروں کے بارے میں قیاس آرائیاں تو پہلے سے جاری تھیں لیکن ایک موقع پر یہ بھی سننے میں آیاکہ حسینہ واجد اور میاں نواز شریف کی ملاقات بھی متوقع ہے میڈیا کے نمائندوں نے کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ ملاقات ’’اٹک ‘‘گئی ہے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وزیراعظم ملاقات کے لئے ان کے پاس آئیں جبکہ پاکستان کو یہ شرط منظور نہیں تھی اور بات یہاں تک پہنچی کہ کانفرنس کے اختتام پر جب سارک ممالک کے سربراہان کا گروپ فوٹو بننے لگا تو حسینہ واجد کے اسٹاف نے منتظمین کو ان کی جانب سے یہ ہدایت پہنچائی کہ گروپ فوٹو میں پاکستان کے وزیراعظم ان کی وزیراعظم کے ساتھ نہ کھڑے ہوں۔ آج بھی صورت حال یہ ہےکہ بنگلہ دیش میں کئی ماہ سے پاکستانی سفیر کا منصب خالی ہے جس کی وجہ وہاں کی حکومت کا طرز عمل ہے۔
جدائی کا دکھ کتنا شدید ہوتا ہے انسانوں سے بھی اور زمین سے بھی مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کی یادوں اور واقعات نے اس تقریب کے مناظر کو بھی یکسر تبدیل کر دیا تھا کچھ دیر پہلے جو تقریب سالگرہ کے طور پر منائی جا رہی تھی جہاں پر زندگی کا ایک ہنگامہ پوری طرح آباد تھا اب اس پر کسی سوگ کا گمان ہورہا تھا ۔۔ چار دہائیوں کا سوگ……