• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’سفاکی کی انتہا‘‘ اپنے ہی بیوی بچوں کو زندہ جلا دیا

شہر قائد طویل عرصہ دہشت گردی کا شکار رہا ۔بالآخرحکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے خلاف 2013میں کارروائی کا فیصلہ کیا اوردہشت گردوں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کرکے کسی حد تک شہر میںامن کو قائم کیا ،لیکن لوگوں نے دہشت گردی کی آڑ میں اپنی دیرینہ دشمنیاں نکالیں۔

کراچی میں اسی سلسلےکاانتہائی افسوس ناک واقعہ 22مارچ کو جمشید کوارٹر کے علاقےبجلی گراونڈکےقریب پیش آیا جب ایک باپ نے اپنے دو معصوم بچوں اور بیوی کو زندہ جلا دیا ، تاہم جمشید کوارٹر تھانے کے سینئرانویسٹی گیشن افسر،(ایس آئی او) امیتاز باندے نے ماں اور اس کے دو کمسن بچوں کو زندہ جلائے جانے کےواقعےمیں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئےبروقت کارروائی کرکےسفاک باپ کو تہرے قتل کے کیس میں اس وقت گرفتار کیا جب وہ بیرون ملک فرار ہونے کی تیاری مکمل کرچکا تھا ۔انویسٹی گیشن آفیسرنے نمائندہ جنگ کوبتایا کہ جمشیدکوارٹر تھانے کی حدود میں گزشہ ماہ 22مارچ کو بجلی گراؤنڈکے قریب مکا ن میں آگ لگ گئی تھی جس میں 35 سالہ شمائلہ زوجہ جنید ، 5 سالہ بیٹی انیسہ دختر جنید اختر اور 11 سالہ بیٹا سفیان ولد جنید اختر جل کر جاں بحق ہوگئے تھے۔آ تش زدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ بتائی گئی تھی تاہم پولیس نےجب کیس کی تحقیقات کی تو یہ تہرے قتل کا واقعہ نکلا جس میںگھر کا سربراہ ملوث تھا۔ پولیس نےدرندہ صفت شوہرو باپ جنید اختر کو گرفتار کرلیا۔ ایس آئی یو کے مطابق، اس واقعے کے بعد جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تووہاں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوگیا تھا کہ آگ شارٹ سرکٹ سے نہیں لگی بلکہ لگائی گئی ہے۔جس کے بعدانہوں نے جنید اختر کو بلوایا تو اس کے بھائیوں نے پولیس کو بتایاکہ ان کا بھائی جنید اختر ملائشیا میں ملازمت کرتا ہے، وہ وہیں ہے، اسے اس واقعے کی اطلاع کردی گئی ہےاور ایک روز بعدپاکستان پہنچ رہا ہے ۔ دوروز بعد پولیس نے معلومات کی تو پتا چلا کہ جنید پاکستان پہنچ گیا ہے لیکن جب اس کو مقدمہ درج کرانے کا کہا گیا تو اس نے پولیس سےکہا کہ اس کے بیوی بچے تو اس حادثے کے بعد دنیا سے چلے گئے ہیں اس کی زندگی ہی اجڑ گئی ہے اس لیے اب وہ مقدمہ درج نہیں کروانا چاہتا ۔

اس جواب کے بعد پولیس کا شک مزید پختہ ہوا اور ایس ایچ او نے ائیر پورٹ ارائیول کاؤنٹرسےبیرون ملک سے پاکستان آنے والے مسافروں فہرست حاصل کی تو 22مارچ کی فہرست میں جنید اختر کا نام ہی نہیں تھا اور جب دو ہفتے کی تفصیلات حاصل کی گئیںتو معلوم ہوا کہ ملزم جنید 16مارچ کو ہی پاکستان آگیا تھا جس کے بعدایس ایچ او جمشید کوارٹر نے ، اعلی حکام کو اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیااور ان کی اجازت کے بعد سرکار کی مدعیت مقدمہ درج کرکے ملزم کے گرد گھیرا تنگ کردیا۔جب ملزم کے موبائل فون کا کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کیا گیاتوعلم ہوا کہ ملزم 16 مارچ کو ہی پاکستان آگیا تھا اور بیوی اور دیگر اہل خانہ کو اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی ،بلکہ ائیر پورٹ اتر کرڈالمیا کے ایک گیسٹ ہاوس میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ دو دن وہاں رہنے کے بعد ڈیفنس میںمنتقل ہو گیااور 22مارچ کو اس نے اپنی بیوی کو فون کیاتھا ۔موبائل ڈیٹا سے ملنے والی تفصیلات کے بعد، ملزم جنید کو باقاعدہ گرفتار کرلیاگیا۔ملزم نے دوران تفتیش پولیس کوبتایا کہ 4سال قبل ملازمت کی غرض سے ملائشیا گیا تھا۔ وہاں اس کا ایک لڑکی سے افیئر چل گیا تھا۔ اس کی بیوی علیحدہ گھر لینے کا مطالبہ کرتی تھی اور یہی مطالبہ ان کے درمیان وجہ تنازع بنا۔

پاکستان آنےکے بارے میں اس نے بیوی کوکچھ نہیں بتایااور 20مارچ کو اس نے واٹس ایپ کال پر اپنی بیوی شمائلہ سے رابطہ کیا۔ 22مارچ کووہ اچانک اپنے گھر پہنچا،بیوی کو نیند کی دوادینے کے بعد پیٹرول ڈال کر اس کو جلادیالیکن آگ تیزی سےپھیل گئی۔ بچے بھی وہیں سو رہے تھے ، وہ بھی آگ کی زد میں آگئے۔ وہ بچوںکو بچانے کے بجائےان کو بھی زندہ جلتا چھوڑ کر فرار ہوگیا۔پولیس ذرائع سے مزید معلوم ہوا کہ سفاک قاتل نے پولیس کو ابتدائی بیان میں بتایا تھاکہ اس کو ملائشیا سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا تاہم انویسٹی گیشن پولیس نے اس کا پاسپورٹ چیک کیا توپتہ چلا کہ اس کا ویزا 19جولائی تک کے لیے کارآمد تھا۔ پولیس نے جب ملائشیا سے مزید معلومات حاصل کیں توانکشاف ہوا کہ جس کمپنی میں ملزم جنید اختر ملازمت کرتا تھا اس کا کاروباری لائسنس ملائشین حکومت نے منسوخ کردیا تھاجس کی وجہ سے وہ بھی بے روزگار ہوگیا تھا۔ بے روزگاری کے دوران ہی اس نے پاکستان آنے اور بیوی سےچھٹکارا حاصل کرنے کا شیطانی منصوبہ بنایا اور بیوی بچوں کو زندہ جلانے کے بعد اس نے دوبارہ ملائشیا فرار ہونے کی کوشش شروع کردی تھی اور ویزہ حاصل کرنے کے لیے دستاویزات بھی بنوالی تھیں، اگر پولیس بر وقت کارروائی نہ کرتی تو ملزم بیرون ملک فرار ہونے میں کامیاب جاتا ۔سب سے ذیادہ مشکلات کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب کرائم سین کو آپریشن پولیس محفوظ نہیں رکھ سکی جس کی بنیادی وجہ واقعے کے پانچ روز بعد مقدمے کا درج ہونا بتایا گیاہے۔ پولیس کے مطابق، اگر مقدمہ فوری طور پر درج کرلیا جاتا تو انویسٹی گیشن پولیس کو کرائم سین سے ثبوت اکٹھے کرنے میں آسانی ہوجاتی لیکن اس مخدوش صورتحال کے باوجوداس نے کیس کی انتہائی باریک بینی کے ساتھ تحقیقات جاری رکھیں اور اس واقعہ کا ہر پہلو سے جائزہ لیا۔ ایس آئی یو کے مطابق ،ملزم نے دوران تفتیش کہا کہ مقتولہ شمائلہ سے اس کی محبت کی شادی تھی اورچھ سالوں سے وہ ملائشیا میںمقیم تھااور اس دوران وہ صرف تین مرتبہ پاکستان آیا تھا۔،انوسٹیگیشن پولیس نے تو بروقت کارروائی کرکے تہرے قتل کے ملزم کو گرفتار کرلیا ۔۔دریں اثناء خاتون اور بچوں کو زندہ جلانے کے خلاف علاقہ مکینوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ،مظاہرین کا کہنا تھا کہ جمشید کواٹر میں سفاک قاتل کو کو گرفتار کر کے اپنا کام پورا کر دیا آگئے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی،قتل کی واردات میں ملوث ملزم کے ساتھیوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا،پولیس بھی کوئی خاطر خواہ جواب دینے سے قاصر ہے،مظاہرین نے گرفتار ملزم کو سزا موت دینے کا مطالبہ بھی کیا ، احتجاج کے دوران لسبیلہ روڈ پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہو گئی ۔

تازہ ترین
تازہ ترین