• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواںماہ میرا پاکستان تحریک ِ انصاف میں شمولیت کا ایک سال مکمل ہو گیا ، یہ7اپریل 2018ء کی تاریخ تھی اور ہفتے کاایک سہانا دن تھا جب پی ٹی آئی چیئرمین جناب عمران خان میری رہائش گاہ تشریف لائے، اس موقع پر پی ٹی آئی کی سینئر قیادت بشمول جہانگیر ترین، شبلی فراز،فواد چوہدری وغیرہ بھی ان کے ہمراہ تھے، ہردلعزیز لیڈر کا استقبال کرنے کیلئے پاکستانی ہندو کمیونٹی کی بڑی تعداد بھی میری رہائش گاہ پر موجود تھی جن میں پاکستان ہندوکونسل کے سابق صدر راجا اسرمال منگلانی، چیلارام کیلوانی سمیت ملک کی نمایاںہندو کاروباری شخصیات شامل تھیں۔ میری پی ٹی آئی میں شمولیت کے حوالے سے میڈیا میں ایک دن پہلے سے ہی خبریں گرم ہوچکی تھیں اور تقریباََ تمام ٹی وی چینلز میرے فیصلے کو بطور بریکنگ نیوز نشر کررہے تھے، یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن)میں اپنی سیاسی زندگی کا نمایاں حصہ گزارنے کے بعد میرے لئے کسی دوسری سیاسی جماعت کا حصہ بننا کوئی آسان فیصلہ نہ تھا، میں اپنے ایک کالم میں تفصیلاََ تذکرہ کرچکا ہوں کہ میرامسلم لیگ (ن)کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک تھا کیونکہ میں دیگر دیرینہ کارکنوں کی طرح ہمیشہ اپنے سابق قائد میاں نواز شریف کا خیرخواہ رہا، کسی کو مشکل وقت میں چھوڑ دینا میری طبیعت کا حصہ نہیں لیکن میاں صاحب کی اپنے مخلص ساتھیوں کو نظرانداز کرنے اور ٹکراؤ کی پالیسی نے ہماری سیاسی راہیں جدا کردیں،میں نے (ن)لیگ میں رہتے ہوئے متعدد مرتبہ کوشش کی کہ میاں صاحب کو انکے خطرناک اقدامات کے نتائج سے بروقت خبردارکروں لیکن میاں صاحب کے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت نہ تھا، میں نے متعدد مرتبہ اصولی بنیادوں پر متروکہ وقف املاک بورڈکیلئے ہندو چیئرمین کی تعنیاتی کا مطالبہ کیا، اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ کے قابل احترام سابق چیف جسٹس رانا بھگوان داس کا نام بھی تجویز کیالیکن افسوس، میری تمام مخلص تجاویزکو نظرانداز کردیا گیا۔ ایسے حالات میں جب پاکستان تحریک ِ انصاف کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مجھے پارٹی میں شمولیت کی دعوت ملی اور جناب عمران خان میری رہائش گاہ پر بمعہ ساتھیوں کےتشریف لائے تو میں نے دل و جاں سے خیرمقدم کیا،میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی جدوجہد کا محور عوام کی خدمت ہونا چاہئے، میری نظر میں بانی پاکستان قائداعظم بطور رول ماڈل سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے بلند مقاصد کے حصول کیلئے کانگریس کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ میں شمولیت کادرست فیصلہ کیا۔میری خان صاحب کے ساتھ 35منٹ کی مشترکہ پریس کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے لائیو نشر کیا،اس موقع پرمیں نے غیرمسلم پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے عمران خان کوقائداعظم کے وژن کے عین مطابق ایک ایسا نیا پاکستان بنانے کیلئے بھرپور تعاون فراہم کرنے کا عزم کیا جہاں مستحکم معیشت، قانون کی بالادستی اور کرپشن کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے، میثاق ِ مدینہ کے ماڈل پر چلتے ہوئے ایک فلاحی ریاست قائم کی جائے جہاں تمام پاکستانی شہری اکثریت اور اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر صرف پاکستان کی ترقی کا سوچیں، میں نے اس وقت بھی یہ مطالبہ کیا اور میرا آج بھی یہی موقف ہے کہ اصولوں کی بنیاد پر قومی متروکہ وقف املاک بورڈ کا سربراہ کسی قابل ہندو پاکستانی شہری کو لگایا جائے۔ مجھے عمران خان سے جتنی مرتبہ تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ہے ، اس سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ وہ پاکستان کو کرپشن فری، منی لانڈرنگ سے پاک اور گڈ گورننس کا شاہکاربنانے کیلئے پْرعزم ہیں،انہوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے آپ کواحتساب کیلئے پیش کیا، آج دیکھا جائے تو احتساب صرف اپوزیشن تک محدود نہیںبلکہ اپنے بھی قانون کی گرفت میں لائے گئے ہیں، موجودہ قیادت نے بھارتی جنگی جنونیت کا جس سمجھداری سے جواب دیا ہے، اس سے بلاشبہ عالمی برادری میں پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہوا ہے۔میری نظر میں موجودہ حکومت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ اسٹیٹس کو کی نمائندہ قوتوں کی جانب سے درپیش ہے، سالہا سال کے استحصالی نظام کی وجہ سے عام آدمی معاشی حالات میں بہتری نہ آنے کے سبب پریشانی کا شکار ہے اور یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ چاہے حکومت کسی کی بھی بنے، اس دیس پر استحصالی قوتوں کاراج ہی قائم رہے گا، عوام کا پی ٹی آئی پر اعتماد برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں جاری ہوشربا مہنگائی، چوربازاری اور روپے کی بے قدری کے عفریت پر جلدازجلد قابو پایا جائے، اس سلسلے میں میراذاتی تجزیہ ہے کہ عمران خان کو اپنے ایجنڈے کے نفاذ کیلئے سیاسی پِک اینڈ چُوز کو چھوڑ کر میرٹ کو ترجیح دینی چاہئے،ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ قائداعظم کے تمام ساتھی اور تحریک پاکستان کے اکابرین خلوص اور ایمانداری میں اپنی مثال آپ تھے لیکن آزادی کے بعد جب ملک چلانے کیلئے کابینہ بنانے کا وقت آیا تو قائداعظم نے میرٹ کو ترجیح دی اور ایسے ساتھیوں کو منتخب کیا جو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ آج ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تمام پاکستانیوں کی نظریں عمران خان کی جانب ہیں،بالخصوص غیرمسلم محب وطن پاکستانی شہریوں کو اپنی بقاکی جنگ میںتحریک انصاف کا تعاون درکار ہے۔میں پی ٹی آئی میں ایک سال مکمل ہونے کے بعد تمام پاکستانی ہموطنوں کو یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ میں ملک و قوم کی بہتری کی خاطر پارلیمنٹ، میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر قائداعظم کے وژن کا پرچار جاری رکھوں گا،میری خداسے دعا ہے کہ وہ عمران خان کی زیرقیادت پی ٹی آئی حکومت کو عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیابی سے ہمکنارکرے۔!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین