اقبال عبد الرحمٰن
رنچھوڑ لائن کا ذکر اس علاقے کے مرکز میں آباد سلاوٹ برادری کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس برادری سے وابستہ بابا میر محمد بلوچ اور ہاشم گذدر نے برادری کو ایک علیحدہ شناخت دی۔ یہ شناخت تقسیم ہند سے قبل بھی تھی اور اس کے بعد بھی رہی۔انگریزوں سے آزادی کی جد و جہد میں بھی ان کا بڑا کردار رہا ہے۔
’گزدر آباد‘ کو عام طور پر ' رنچھوڑ لائن کے طور پر زیادہ جانا جاتا ہے۔گزدر نام درحقیقت ایک خطاب تھا جو ہاشم گزدر کے والد کو راجھستان کے راجا نے شاہی محل کے مین گیٹ کے اوپر بادل ولاس تعمیر کرنے پر دیا تھا۔ہاشم گزدر 1941 اور 1942 میں کراچی کے میئر تھے، تحریک آزادی کے ایک فعال رکن اور قائد اعظم کی گڈ بک میں شامل تھے۔تقسیم سے پہلے وہ سندھ کے وزیر رہے اور بعد میں پاکستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بن گئے"۔ محمد ہاشم گزدر ایک اعلی تعلیم یافتہ رہنما تھے ۔ پاکستان کی قانون ساز مجلس میں سندھ کی نمائندگی کی، ان ہی کے نام پر1951 میں رنچھوڑ لائن کے نام کو تبدیل کر کے گزدر آباد کردیا گیا تھا ۔ نام کی تبدیلی کا اندازہ بس سرکاری ریکارڈ سے ہوتا ہے یا رنچھوڑ لائن میں واقع چند نجی عمارت کی پیشانی پر درج عمارت کے نام کے ساتھ گزدرآباد لکھا ہونے سے۔ آج بھی یہ علاقہ رنچھوڑ لائن ہی کے نام سے معروف ہے۔یہ کراچی شہر کے غریب علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں ہر جگہ تجاوزات کی بھرمار ہے، مگر ان گلیوں کے وسط میں قدیمی مسلمان مارواڑی آباد ہیں۔یہ بہت گنجا ن اور پر رونق علاقہ ہے، ان کی ایسوسی ایشن سلاوٹہ جماعت کے نام سے ہے، سلاوٹ کے معنی پتھر کے کام کے ہوتے ہیں ۔جو برصغیر کی تقسیم سے قبل راجھستان کے شہر جیسلمیر سے کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے۔
اس علاقے کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ یہ علاقہ رنچھوڑ نام کی کسی ہندو شخص کے نام سے انگریزوں کے ابتدائی دور میں آباد ہوا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے گنجان علاقہ آباد ہو گیا۔ تقسیم سے قبل یہاں ہندوؤں کی اکثریت بھی آباد تھی۔ انیسویں صدی میں برٹش راج کے دنوں میں جب شہر میں تعمیرات کا کام بڑھا تو راجھستان کے ضلع جیسلمیر سے آئے پہلے سے آباد رنچھوڑ لائن کی مارواڑی برادری کے گویا بھاگ کھل گئے۔ جیسلمیر سے ہر سطح کے ماہر تعمیرات کراچی آنا شروع ہوئے اور اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا۔ مارواڑی برادری آپس میں جڑ کر رہنے والی ہے، رنچھوڑ لائن (گزدرآباد) کی آبادی ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور وہ اپنے آباؤ اجداد کی جانب سے بسائے گئے علاقے سے منتقل ہونے کے لیے تیار نہیں۔یہاں کی مرکزی شاہراہ متعدد گلیوں سے منسلک ہے جن کے پرانے نام ابھی تک برقرار ہیں جیسے پیرو بدھا اسٹریٹ، کلیان جی اسٹریٹ ۔
کراچی شہر کی تاریخ میں آبادی کا موازنہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس شہر کی اولین مسلمان آبادی یہی مارواڑی برادری تھی ۔اس علاقے میں کراچی میں پائی جانے والی قدیم ترین ایک مسجد آج بھی ہے جو جامع مسجد بیچ والی “ وچلی “کے نام سے معروف ہےیہ تقریباً دو سو برس قدیم ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے میں پانچ مساجد ہیں جن کا سنگی کام یہاں کے رہائشیوں کےآباو اجداد نے کیا تھا۔جبکہ جامع مسجد بادامی 1875 سے موجود ہے۔ بنگی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک صدی پرانی ہے، جبکہ سب سے 'کم عمرجامع مسجد پاکستان ہے جو 1940 میں قرارداد پاکستان کی یاد میں تعمیر کی گئی۔رنچھوڑ لائن میں بھی ایک کلاک ٹاور قائم ہے، جس کو پونا بھائی کلاک ٹاور کہتے ہیں پونا بائی نامی ایک خاتون کے نام سے بنایا گیا تھا۔یہ ٹاور بھی اپنی رونقوں بیٹھکوں چائے خانوں اور منفرد طرز زندگی کی بناء پر مشہور و معروف تھا، آج بھی اس کے اطراف کے علاقوں کا طرز زندگی وہی ہے لیکن اب ترجیہات بدل گئی ہیں نئی نسل کو اس بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں۔
بابا میر محمد بلوچ اس برادری کے معروف رہنما گزرے ہیں ، میر صاحب بمبئی اسمبلی کےممبر تھے، باٹا شوز کو برٹش ا نڈیا میں متعارف کروانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے ۔ ا ن کی قد آور شخصیت کی بنا پر لیاری کا ایک اسکول اور ایک سڑک بھی ان کے نام سے موسوم ہے ۔اسی برادری کے ایک بزرگ عبد الطیف ڈینو سلطان صاحب سلاوٹو نے قرآن مجید کے عربی متن کو سندھی رسم الخط میں منتقل کرکے عربی سے نابلد سندھ کے لوگوں کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کو آسان بنایا تھا، معروف فنکار لیاقت سولجر کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے-
تاج محل کی تعمیر مارواڑ ( راجھستان ) کے معماروں کا شاہکار ہے۔تعمیرات ان کا پیشہ ہے۔ دور مغلیہ میں شہرہ آفاق تعمیرات کرنے والوں کی اولادیں کراچی کی تعمیرات میں پوری طرح شریک رہی ہیں۔علاقے میں رہنے بسنے والے یہ مارواڑی منفرد زبان اور روایات کے حامل ہیں، یہاں کے نوجوانوں میں ایک ہی رنگ اور ڈیزائن کے کپڑے پروگرام کے تحت سلوا کر پہننے کا رواج ہے۔ شادی کی تقریب میں آمد بارات پر دولہا کا استقبال خواتین کی جانب سے تھالیاں بجا کر کرنے کی ایک منفرد روایت ہے۔ اس طرح کا خیر مقدم کبھی کبھارکسی خاص مہمان کی آمد پر بھی کیا جاتا ہے جیسے 1977 میں انتخابات کے موقع پر بھٹو صاحب کا جلوس رنچھوڑ لائن سے گزرا تو سیاسی وابستگی سے قطع نظر بلڈنگ کی بالکنیوں سے والہانہ انداز میں تھالیاں بجائی گئیں جو سلاوٹہ برادری کی منفرد مہمان نوازی کا آئینہ دار تھا ۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب رنچھوڑ لائن کی نبی بخش روڈ سے متصل گلیوں میں ہر وقت کسی نہ کسی چیز بچنے والے کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں، صبح سویرے فقیروں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ کچھ لوگ سائیکل کے دونوں طرف کھجور کی بڑی ٹوکریاں باندھے بیکری بنے گلی میں چلے آتے تھے، ہر کوئی اپنی علیحدہ مخصوص صدا سے پہچانا جاتا تھا، صبح کے اوقات میں ڈبل روٹی، انڈے اور مکھن پر زور ہوتا تھا اور شام میں یہی لوگ گرما گرم آلو کے پیٹس اور کیک رس لے کر آتے تھے۔
آج بھی ہر گلی کےنکڑ پر لکڑی کی بینچیں ہر کونے میں رکھی ہیں، جہاں ہر وقت ہی لوگ موجود رہتے اور بھیل پوری سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو کہ اس علاقے کی خاص سوغات ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس علاقے میں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔گزدرآباد کی تنگ گلیاں نہ صرف دن کے اوقات میں پرہجوم رہتی ہیں بلکہ لوگوں کی آمدورفت رات میں بھی جاری رہتی ہے۔ گھر آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ با مشکل ہی آسمان کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں کی گلیوں میں مقامی رہائشی لوٹ مار کے ڈر سے آزاد ہوکر آزادی سے گھومتے ہیں، گھر کے دروازے دن ہو یا رات کھلے رہتے ہیں۔یہاں سب لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ رات میں یہاںسلاوٹ برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک لائبریری قائم کر رکھی ہے جو تمام دن بند رہتی ہے، البتہ شام کو سلاوٹ جماعت کے بزرگ یہاں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں۔ جب رات کا سناٹا چھا جاتا ہے تو یہاں کی خواتین اپنے گھروں کے باہر رکھے تختوں پر آکر بیٹھنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ہنسنے ہنسانے میں مصروف یہ خواتین رات کے اس پہر گلیوں پر حکمرانی کرتی ہیں۔ وہ اپنا فرصت کا وقت بھرپور انداز سے گزارتی ہیں۔
آج رنچھوڑ لائن میں جا بجا بلڈوزر کھڑے نظر آتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ برادری اب سڑکوں اور دیگر میونسپل تعمیرات میں بھی مصروف عمل ہوگئی ہے ۔ یہاں کے لوگ اپنے جدّی پشتی پیشے یعنی تعمیرات کے کام سے تو وابستہ ہیںہی ساتھ فی زمانہ تعلیم کی جانب بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔یہاں میں اب تعلیم یافتہ لوگ بھی نظر آنے لگے ہیں، انجینئر بننا تو ان کے لئے کوئی کمال کی بات نہ تھی، مگر اس برادری نے شہر کو اچھے ڈاکٹر بھی دئیے ہیں۔ تعلیمی اور معاشی ترقی کے باوجود اس برادری کا رہنا بسنا اور اوڑھنا بچھونا اب بھی رنچھوڑلائن ہی ہے۔