• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متعدد مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ دولت کا انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں، ایسی دولت جو ناجائز ذرائع سے بنائی جائے، ایسا مال جو حرام ہو، حیرت ہے ایسے لوگوں پر جو دولت کو عزت کی علامت سمجھتے ہیں، حیرت ہے ایسی سوچ پر جو ہر وقت دولت کے گرد گھومے، افسوس ہے ایسے حکمرانوں پر جن کا مقصد حیات دولت کا حصول ہو، یہ کون لوگ ہیں جنہیں قبریں یاد نہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کے حلق میں حرام رزق کے ٹکڑے اتارتے ہیں جبکہ انہیں بتایا گیا کہ حرام رزق کھانے والوں کی عبادات بھی قبول نہیں ہوتیں۔ انکے دعائیں آسمان کو چھونے سے محروم رہتی ہیں، انکی اولادیں نافرمانی کو عقلمندی تصور کرتی ہیں۔ یہ کیسے لوگ تھے جو اس پاک وطن پر حکمرانی کرتے رہے، اسے لوٹتے رہے،یہاں کے یتیموں کا مال کھاتے رہے حالانکہ انہیں منع کیا گیا تھا کہ ایسا نہ کرنا، یتیموں کا مال نہ کھانا مگر یہ بدنصیب لوگ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیتے رہے، ہمارے پیارے وطن کا مال لوٹتے رہے، اب ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے،انکے وکیل جتنی مرضی چکربازیاں کرلیں یہ نہیں بچ سکیں گے۔ انہوں نے اس پاک وطن کو لوٹا ہے جس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ کیا انہیں یاد نہیں تھا کہ وطن سے محبت ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے پھر یہ لوگ کیوں بے ایمانی کرتے رہے، کیا اپنے گھر کو آگ لگانے والے گھر کے دوست تھے؟ کیا ہمارے پیارے وطن کو لوٹنے والے ہمارے وطن کے دوست تھے۔ ان لوگوں پر بھی ترس آتا ہے جو ان کیلئے استعمال ہوتے رہے، جو منی لانڈرنگ کی فلموں میں اداکاری کرتے رہے اور ان لوگوں پر بھی ترس آتا ہے جو سہانے مستقبل کی آس میں ان لٹیروں کو ووٹ دیتے رہے۔ ان ماڈلز پر بھی ترس آتا ہے جو تھوڑے سے معاوضے کیلئے کئی ملکوں کے چکر لگاتی رہیں،ان بیچاروں پر تو رحم آتا ہے جو آسوں امیدوں کی جھولیاں لیکر معمولی معاوضے پر بے وقوف بنتے رہے، اپنے شناختی کارڈ حوالے، ہنڈی کی نذر کرتے رہے بلکہ خود اس گھناؤنے کھیل کی نذرہوتے رہے۔ آج تو مجھے اس خاندان پر بھی افسوس ہو رہا ہے جس کا جوان لڑکا چند برس پہلے ایک شراب پارٹی میں زخمی ہوکر اسپتال پہنچا تھا، اسپتال بھی اسے لڑکیوں نے پہنچایا پھر خاندان والے میڈیا کے ترلے کرتے رہے کہ ہمارے خاندان کی عزت کی خاطر یہ خبر نہ چلنے دینا کہ ہمارا لڑکا اسپتال پہنچا ہے، اس کا سر پھٹا ہے اور یہ بھی نہ بتانا کہ اسے تین لڑکیاں اسپتال لیکر آئیں۔ یہ خاندان بھی دولت کی زلفوں کا اسیر نکلا۔ ایسی عزت پر بھی حیرت ہے جو شراب پارٹی میں لے جائے، جہاں سر پھٹ جائے اور پھر لڑکیاں اٹھا کر اسپتال لے جائیں۔ ایسی عزت پر مزید حیرت اس وقت ہوتی ہے جب میڈیا کو ایسی خبریں چلانے سے روکاجائے۔ لوگو! یاد رکھو ہر وقت طاقت آپ کا ساتھ نہیں دیتی، ہر وقت لوگ آپ کے قیدی نہیں رہتے کیونکہ وقت کسی کا قیدی نہیں ہے، ہر وقت اقتدار بھی آپ کے ساتھ جڑا ہوا نہیں رہتا، ہر وقت دولت بھی آپ کا ساتھ نہیں دیتی۔ لوگو!عزت خدا دیتا ہے مگر حیرت ہے ایسے لوگوں پر جو اسے دولت میں تلاش کرتے ہیں۔ ناموری نیکی، شرافت اور انسان دوستی یعنی اعلیٰ اخلاق میں ہے لوگ اسے بدی، مکاری،چکر بازی اور انسان دشمنی میں تلاش کرتے ہیں۔ بلندی ،عاجزی اور انکساری میں چھپی ہے۔ حیرت ہے مادہ پرست لوگ اسے غرور اور تکبر میں تلاش کرتے ہیں۔ فالودے والے کے قصے سامنے آئے، اومنی گروپ کی داستان میں ہزار داستانیں پنہاں ہیں،اب کوئی چینی والا تو کوئی پاپڑ فروش سامنے آ رہا ہے،منی لانڈرنگ کرتے ہوئے ان لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی شرم نہ آ سکی،یہی انکا اخلاقی دیوالیہ پن ہے،یہی انکی مکاری اور چکر بازی ہے،جھوٹ سے تو یہ اب بھی باز نہیں آرہے شاید انہیں پتہ نہیں کہ جھوٹ کا انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ پانامہ کیس سے پہلے ایک صاحبزادہ ٹی وی پر نمودار ہوا تھا،وہ پروگرام الٹا پڑ گیا پھر وہ صاحبزادہ برطانوی شہری بن گیا۔ اب ایک اور صاحبزادہ شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام میں نازل ہوا ہے،آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے یہ پروگرام بھی الٹا پڑ گیا ہے،کوئی بات بن نہیں رہی، کوئی جواب بن نہیں رہا،بس ایک ڈھٹائی ہے کہ جسکا کوئی کنارہ نہیں۔ کوئی جواب نہیں دے رہا کہ قصور اور فیروزوالا میں 810کنال قیمتی اراضی کس خاتون کی ہے؟کوئی یہ بھی جواب نہیں دے رہا کہ یہ خاتون کیسے بارہ کمپنیوں میں 69لاکھ 56ہزار پانچ سوشیئرز کی مالک بن گئیں۔ کہا جا رہا ہے کہ میں تو پبلک آفس ہولڈر نہیں رہا تو حضور یہ بھی بتا دیجئے کہ کیا آپ کسی پبلک آفس ہولڈرکے صاحبزادے نہیں رہے؟ کیا آپکے خاندان کا کوئی فرد کبھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہا؟ وہ کون لوگ ہیں جو کبھی باہر بھی نہ گئے،جن کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں اور وہ باہر سے آپ کو کیسے پیسے بھیجتے رہے؟ رہ گئی بات ایف بی آر کی ، وہ تو آپ کی حکومتوں میں آپ کو ’’اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ عطا کرتا رہا۔ لوگو! سوچو کہ ایک صاحبزادے کے 95فیصد اور دوسرے صاحبزادے کے 99فیصد ڈکلیئرڈ اثاثے پراسرار افراد کی طرف سے بھیجے گئے پیسوں سے کیسے بن گئے؟ اکتوبر 2018ء میں تحقیقات شروع ہوتے ہی ایک صاحبزادہ خواتین کیساتھ کیوں بیرونِ ملک فرار ہوا؟

ہمارے وطن کو لوٹا گیا، ہم وطن پرستوں کے لئے فیض احمد فیض ؔکا شعر ہے کہ

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیض ؔ

اسی دولت کو ہم قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں

تازہ ترین