آپ کے مسائل اور اُن کا حل
مہر مثل اور مہر فاطمی کی مقدار اورحقیقت
سوال: مہر مثل اورمہر فاطمی کیا ہے،کیا مہر فاطمی مقررکرنا ضروری ہے؟(نورین فاطمہ)
جواب: ۔جو مہر لڑکی کے خاندان میں اس جیسی لڑکی کا ہو وہ اس کا مہرمثل ہے ،جیسے اس کی بہن اور چچازاد یا تایازاد یا پھوپھی زاد بہن وغیرہ۔ماں یا خالہ کا مہر اس کے لیے مہر مثل نہیں، جب کہ وہ دوسری برادری یا خاندان کی ہو، البتہ اگر ماں اسی خاندان کی ہے، مثلا اس کے باپ کی چچا زاد بہن ہے تو اس کا مہر بھی اس کے لیے مہر مثل ہے۔ جس لڑکی کا مہر اس کے لیے مہر مثل ہے ،ضروری ہے کہ وہ درج ذیل صفات میں اس جیسی ہو،عمر،جمال اور مال میں اس کے مشابہ ہو،دونوں ایک ملک اور ایک زمانے کی ہوں،عقل، سلیقہ ،پارسائی اور علم وادب میں بھی دونوں یکساں ہوں،دونوں کنواری ہوں یا دونوں ثیّب (شادی شدہ)ہوں اور اولاد ہونے یا نہ ہونے میں دونوں برابر ہوں،کیونکہ ان چیزوں میں اختلاف ہوتو مہر بھی مختلف ہوتا ہے۔شوہر کا حال بھی ملحوظ ہوگا، کیونکہ جوان اور بوڑھے کے مہر میں فرق ہوتا ہے۔جن امورکا ذکر ہوا، ان میں یکساں ہونے کا اعتبار نکاح کے وقت ہے،اگر نکاح کے بعدان اوصاف میں فرق آگیا تو اس کا اعتبار نہیں۔اگر لڑکی کے خاندان میں کوئی عورت ایسی نہ ہو، جس کا مہر اس کےلیے مہر مثل بن سکے تو کوئی دوسرا خاندان جو اس خاندان کے مثل ہے اور اس میں کوئی عورت اس جیسی ہوتو اس کامہر اس کےلیے مہرمثل قراردیا جائے گا۔مہر مثل کے بارے میں تفصیل کاحاصل یہ ہے کہ جو مہر لڑکی کے پدری رشتے دارعورتوں میں اس جیسی لڑکی کا ہو اور آبائی خاندان کی لڑکیوں کے شوہروں اور اس لڑکی کے شوہر میں قابل ذکر مناسبت موجود ہو تو وہ مہرمثل کہلاتا ہے۔
’’مہرِ فاطمی ‘‘ اُس مہر کو کہا جاتا ہے جو نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات ؓکا مقرر فرمایا ، اُس کی مقدار ۵۰۰ ؍ درہم چاندی ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ ازواج مطہراتؓ کے مہر کے بارے میں روایات میں بارہ اوقیہ اورایک نش کی صراحت آئی ہے۔حضرت ابوسلمہؒ سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ ﷺ نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تمہیںمعلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا، نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا، یہی ازواج مطہراتؓ کا مہر تھا‘‘۔(صحیح مسلم :۱۰۴۲؍۲)ایک اوقیہ چالیس درہم کا اورنش نصف اوقیہ یعنی بیس درہم کا ہوتا ہے،اس طرح مجموعہ پانچ سو درہم ہوتا ہے۔یہی مقدار مہر فاطمی سے مشہور ہے۔ مہر فاطمی موجودہ وزن سے ایک کلوپانچ سو تیس (۵۳۰) گرام، نوسو (۹۰۰) ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔قدیم تولہ سے ایک سو، سوااکتیس (131.25) تولہ ہوتا ہے۔ مہر فاطمی بڑامتبرک مہر ہے اور ہرزمانے میں ایک معقول مقدار ہے، اس لیے حتیٰ الامکان اس کی فضیلت حاصل کرنی چاہیے ،مگر ضروری یہ بھی نہیں ہے ،کیونکہ عورت کا اصل حق مہر مثل کا ہے، یہاں تک کہ اگر نکاح میں کوئی مہر مقرر نہ ہوا ہو یا نکاح اس شرط پر ہوا ہوکہ لڑکی کا کوئی مہر نہیں ہوگا تو یہی مہر مثل واجب ہوتا ہے۔