روشنیوں کے شہر کراچی کی اندھیری سڑکوں پر نظر آنے والی موت ، ٹارگٹ کلرز، اُن کا خوف اور پھر موت کے سوداگروں کے انجام پر عکس بند کی گئی فلم ’’لال کبوتر‘‘ کی ملک بھر کے سنیما گھروں میں اونچی اُڑان جاری ہے ۔ ’’جیو ‘‘ اس فلم کا میڈیا پارٹنر ہے۔چھوٹے بجٹ کی بڑی فلم نے دھوم مچا دی ہے۔ لالچ ، طاقت اور انتقام کی دلچسپ کہانی میں احمد علی اکبرکا مرکزی کردار ہے۔اس فلم اور اپنے کردار کے بارے میں جو کچھ انہوں نے بتایا،نذر قارئین ہے:
٭… آپ شوبز کی دنیامیں کیسے آئے؟۔
احمد علی اکبر … 2004ء میں کراچی آیا تھا، کھیلنے کا شوقین تھا، کرکٹ بھی کھیلی، اسکواش بھی کھیلا۔ اِن سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہار اور جیت سے مجھ میں حوصلہ پیدا ہوگیا۔ کھیل میں ہار مجھ میں جیت کا عزم پیدا کردیتی تھی جبکہ فتح مجھے اپنے کھیل میں مزید نکھار پیدا کرنے کا حوصلہ دیتی تھی ۔ دوستوں کے ساتھ ایک میوزک بینڈ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اِسی شعبے میں آگے بڑھا تو قسمت تھیٹر کی دہلیز پر لے گئی اور پھر آہستہ آہستہ شوبز انڈسٹری میں آگیا۔
٭… تھیٹر ، ٹیلی ویژن اور فلم میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟۔
احمد علی اکبر … اگر آرٹسٹ کو اپنا فن جانچنا ہو تو تھیٹر سب سے بہترین میڈیم ہے۔ ٹیلی ویژن کے شعبے میں رائٹر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہی سیریل کے اُتار چڑھائو کو سیٹ کرتا ہے جبکہ فلم انڈسٹری وہ شعبہ ہے جہاں ایک ایک آرٹسٹ بڑے پردے پر اپنے پرستاروں کو اداکاری کے جوہر دکھا کر حیران کرسکتا ہے۔
٭… کیا آپ کو یقین تھا کہ فلم ’’لال کبوتر‘‘ کامیاب ہوگی؟۔
احمد علی اکبر … میں نے فلم کے ہدایتکار کمال خان کا کام پہلے دیکھا ہوا تھا اس لئے بہت اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ پروجیکٹ ناکام ہرگز نہیں ہوگا بلکہ اس میں کامیابیوں کے امکانات بہت زیادہ نظر آرہے تھے، خدا کا شکر ہے ایسا ہی ہوا، فلم جس تیزی اور کامیابی کے ساتھ آگے مقبول ہو رہی ہو یہ ہدایتکار اور ٹیم ممبران کی محنت کا نتیجہ ہے۔
٭… ’’لال کبوتر‘‘ کے لئے سنیما کے باہر طویل قطار دیکھ کر کیا احساس ہوتا ہے؟۔
احمد علی اکبر … وہ احساس تو ناقابل بیان ہے، لیکن توقعات سے بڑھ کر رسپانس مل رہا ہے۔ بہت فخر ہوتا ہے جب سنیما ہال میں لوگ اداکاروں کے بہترین سین پر تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے ہیں۔
٭… کیا فلم ’’لال کبوتر‘‘ کے لیے باقاعدہ آڈیشن دیا تھا؟۔
احمد علی اکبر … چند برس پہلے میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ایک میوزک ویڈیو دیکھی وہ جس طرح ڈائریکٹ کی گئی تھی میں اُس سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر اِس طرح کا کوئی ڈائریکٹر ملا تو میں اُس کے ساتھ فلم میں کام ضرور کروں گا، وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ ’’لال کبوتر‘‘ کے ہدایت کار، کمال خان نے مجھے ایک تھیٹر پلے میں کام کرتے دیکھا تھا، ایک دِن اُن کا فون آیا کہ میں آپ کو ایک فلم میں کام دینا چاہتا ہوں، آکر آڈیشن دے دیں۔ میں آڈیشن کے لیے گیا اور پھر انہوں نے مجھے فلم کا حصہ بنا لیا۔
٭… فلم کی شوٹنگ کے دوران کوئی یادگار واقعہ ؟۔
احمد علی اکبر … کوئی خاص واقعہ تو نہیں ہوا لیکن مزہ بہت آیا، ہم جہاں بھی فلم کی عکس بندی کے لئے جاتے لوگ اس فلم کا حصہ بننے کے لیے فوراً تیار ہوجاتے تھے۔ ’’لال کبوتر‘‘ کے چند مناظر ایسے ہیں جس میں کئی لوگ خود سے کود گئے اور ہم نے اُنہیں شاٹ کرلیا۔ البتہ کچھ چیزیں ہیں جہاں مجھے کافی دشواری ہوئی۔ میں تھیٹر میں کام کرچکا ہوں اس لئے کردار پر محنت کرنی کی عادت ہے، میرا تعلق پنڈی سے ہے اور یہ فلم کراچی کے موضوع پر بنائی جارہی تھی، میرا کردار بھی مرکزی تھا، لہٰذا میں نے کوشش کی کہ اپنے اوپر کراچی کے نوجوان کا روپ طاری کرلوں اور بول چال بھی ایسی رکھوں کہ سامعین کو نقص نکالنے کا کوئی موقع نہ ملے۔ میں سگریٹ نوشی نہیں کرتا لیکن اس فلم کیلئے کرنا پڑی، کان میں بالی بھی پہنی ۔بس یہی چند مشکلات تھیں۔ اس کے علاوہ میں ایک بات میں ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس فلم سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ ہدایتکار اچھی پرفارمنس کیلئے اکثر مجھے مشورے دیتے تھے، کچھ فلمیں دیکھنے کی ہدایت بھی کی۔ میں نے چند فلمیں بہت غور سے دیکھ کر اور اُن کرداروں کو بھی اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کی۔ ’’لال کبوتر‘‘ میں جس طرح کا کردار میں نے ادا کیا ہے اس پر میں کافی محنت کی ہے، مجھے اُمید ہے کہ کراچی کے لوگ میرا کردار دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔
٭… مرکزی کردار میں بڑے پردے پر دیکھ کر آپ کے گھر والوں کا کیا ردِعمل تھا؟۔
احمد علی اکبر … سب بہت خوش ہوئےجبکہ خاندان کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ بچے جو کچھ اپنی فلم میں دکھانا چاہتے تھے وہ دکھا دیا ہے۔ یہ بتادوں،سیکھنے کا عمل تو قبر تک جاری رہتا ہے، ہر نیا کام کچھ نہ کچھ سکھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ مجھے مختلف تجربات کرنے کا شوق ہے، دیگر فلموں میں بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لیےکام کرتا رہا ہوں اور آگے بھی کرتا رہوں گا۔ سیکھنے کا شوق مجھے ایک قدم آگے بڑھا دیتا ہے۔ ’’لال کبوتر‘‘ کا موضوع اور فلم کی کہانی بہت متاثر کن ہے۔ اُمید کرتا ہوں عوام میری پرفارمنس سے خوش ہوئے ہوں گے۔
٭…فلم انڈسٹری کو کہاں کھڑا دیکھ رہے ہیں؟۔
احمد علی اکبر … آج کے دور کے آرٹسٹ بہت خوش قسمت ہیں جن کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک سہولتیں ہیں۔ ہر چیز کو بخوبی جانچا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں چاروں جانب ایک سے بڑھ ایک کہانی موجود ہے جس پر پوری فلم بن سکتی ہے۔ انڈسٹری کے پاس جدید آلات بھی آرہے ہیں، میں سمجھتاہوں کہ اگر ہم اِسی طرح کی منفرد فلمیں بناتے رہے تو جلد ایک اچھا مقام حاصل کرلیں گے اور عوام کی بڑی تعداد کو سنیما گھروں میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ ’’لال کبوتر‘‘ پاکستان کی اچھی فلموں میں سے ایک ہے جو فلم بینوں کو سنیما گھر لانے میں کامیاب ہوگئی ۔