نادیہ اظفر
دیکھنے میں آیا ہے کہ کام کی ابتدا میں جب مشکلات اور سختیاں آتی ہیں، تو بیش تر نوجوان ہمت ہار جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی واضح نظام ہے، نہ ایسی اکیڈمی ہے، جواُن کی صلاحیت کو جانچ کر انہیں رہنمائی فراہم کریں اور نہ ہی ہمارا نصاب تعلیم ایسا ہے، جس سے طالب علم خود اپنی منزل کا تعین کر سکیں۔ بالخصوص نچلے اور متوسط طبقے کے طالب علموں کے لیے، یہ ان کی تعلیمی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے۔ پالیسی ساز اداروں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیئے، جو طلبا کی اس حوالے سے رہنمائی کرسکے۔ اس ضمن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض نوجوان اپنے والدین کے دباؤ، دوستوں کی رائے یا کسی شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے لیے پیشے کا انتخاب کرلیتے ہیں، چاہے اس میں ان کی دل دلچسپی، رجحان اور اس شعبے کے لیے مطلوبہ صلاحیتیں ہوں یا نہ ہوں، نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بعض نوجوان ذاتی تجربوں کو کام یابی کا زینہ بناتے ہیں، ذاتی تجربوں کے ذریعے کام یابی کا حصول مشکل ہوجاتا ہے، کام یابی اسی وقت مقدر بن سکتی ہے، جب ہم دوسروں کے تجربات سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے، جو اپنے لیے مضمون یا شعبے کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ، حالات انہیں جس سمت بہا کر لے جائیں، وہ اسی رخ میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کا بیش تر حصہ گزارنے کے بعد انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جس شعبے یا مضمون کا انتخاب کیا ہے، وہ ان کے لیے درست نہیں ہے، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ لوگ خوش بخت ہوتے ہیں، جو اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق ہی شعبے کا انتخاب کرتے اور ملازمت بھی اسی شعبے میں مل جاتی ہے۔ اس طرح کام ان کے لیے ایک مشغلہ بن جاتا ہے، کام کو انجام دینے میں انہیں تھکن، کوفت یا پریشانی کا احساس نہیں ہوتا، وہ پرمسرت اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو متعلقہ شعبے میں نوکری نہ ملنے کے باعث کسی دوسرے شعبے میں نوکری کرنے پر مجبور اور اس بنا پر خود کو ناکام تصور کرتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کو، کوشش کرنے کے باوجود اپنے شعبے میں ملازمت نہیں مل رہی لیکن، آپ ہمت ہارنے کے بجائے دوسری جگہ نوکری کر رہے ہیں، تو اس میں بھی آپ کی کام یابی ہے، کیوں کہ مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانا انتہائی آسان ہے، مگر مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ایسے نوجوان، جو خود کو ناکام سمجھتے ہیں، وہ ان باتوں پر عمل کرکے اپنی خود اعتمادی بحال کرسکتے اور اپنی ناکامی کو کام یابی میں بدل سکتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنی خوبیوں اور خامیوں کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے، کام یابی کا اہم راز یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنے کی کوشش کریں، جو آپ کے ذوق کے مطابق ہوا گر یہ ممکن نہیں تو، جو بھی کام کریں اس لگن کے ساتھ کریں کہ اس میں آپ کا شوق خود بہ خود پیدا ہوجائے۔ مطالعے اور مشاہدے سے کوئی بھی کام باآسانی ذہن نشین ہوجاتیں، لمبی مدت تک یاد رہتے ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتو، ہمارا ذہن اسے فراموش کردیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ، جو کام آپ کر رہے ہوں اس سے متعلق مکمل معلومات حاصل، دل چسپی پیدا کریں اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے کاموں کو ہرگز نہ کریں، جنہیں کرنے سے آپ ذہنی کوفت یا انتشار کا شکار ہوتے ہوں، کیوں کہ وہ کبھی خوشی یا سکون کا باعث نہیں بن سکتے۔ مشکلات اور شختیاں ارادے میں پختگی اور مضبطی کا باعث بنتی ہیں۔ مضبوط قوت ارادی کے ذریعے ہی منزل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹایا جاسکتا ہے، ہر کام کا آغاز مضبوط قوت ارادی اور کام یاب ہونے کے جذبے کے ساتھ کریں پھر منزل تک پہنچنے کی تگ دو میں لگ جائیں۔ جذبہ ایک ایسا ہتھیار ہے، جو ہماری پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرتا ہے، اس لیے جذبے کے بغیر فتح کا حصول ناممکن ہے۔
آپ کسی لکڑی پر کلہاڑی سےمسلسل ضرب لگاتے ہیں، کچھ ضربیں گانے کےبعد لکڑی دوحصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، آپ آخری ضرب کوہی کام یابی سمجھتے ہیں، جب کہ کام یابی آخری ضرب لگانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ضرب لگانے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے منزل کے حصول کے لیے، ایک اہم راز مسلسل جدوجہد ہے، اس کے بغیر آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یکسوئی بھی ہے۔ یہ فکر اور سوچ کو ایک نقطہ پر مرکوز رکھتی ہے، جس سے انسان کے سامنے آنے والی مشکلات اس کے سامنے سے اُٹھ جاتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی شخص مثبت سمت میں کام کرتا ہے، جہاں اس کے بہت سے لوگ حامی اور مددگار ہوتے ہیں۔ وہاں اس کی مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے، ایسے حالات میں مایوس نہیں ہونا چاہئے، ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا راستہ خود تلاش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے آپ کو اپنے اندر یقین کی قوت پیدا کرنی ہوگی۔ یقین ایک ایسا سرمایہ ہے، جس کی بدولت کایابی کا یقین ندگی کے سخت لمحات میں بھی کوشش سے دست بردار نہیں ہونے دیتا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ، اکثر اوقات بار بار کوشش کرنے کے باوجود انسان ناکامی سے دوچار رہتا ہے، ایسے حالات می مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کو بہت سے کامیابیاں، ناکامیوں کے بعد ہی نصیب ہوئی ہیں، کیوں کہ شکست کھانے والے ایک نئے عزم کے ساتھ کوشش کرتے اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔ یاد رکھے شکست چاہے کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو، دیر پا نہیں ہوتی، اسے صرف اور صرف جہد مسلسل اور یکسوئی کے ذریعے ہی شکست دیا جاسکتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کامیابی کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ آپ زندگی میں کس مقام پر پہنے ہیں بلکہ ، فیصلہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ نے مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہاری، منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا اور دشواریوں پر قابو پایا۔
یاد رکھیں زندگی ایک طویل تھکا دینے والے سفر کا نام ہے، اس میں وہی اپنی منزل پر پہنچتے ہیں، جو راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔