یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ما ضی بعید میں زیادہ تر شہردریا ؤں کے کنارے آباد ہوئے اور وہاں کی قدیم تہذیبیں آج بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں،خاص کر سندھ کی۔ دنیا کے بڑے دریاؤں کا جائزہ لیں تو ان میں سے صرف چار نے اپنے کناروں پر بڑی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ ان میں دریائے نیل، دجلہ، فرات اوردریائے سندھ شامل ہیں۔ اس سے قبل ایک اور تحقیق کے مطابق بھارت کے دریائے سرسوتی کے کنارے بھی سندھ کی قدیم تہذیب کے آثار ملے تھے جب کہ باقی دریاؤں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ دریائے سندھ کے کنارے بستیاں آباد ہونے کی اہم وجہ یہ تھی کہ وہاں ایک تو زمینیں زرخیز تھیںجس کی وجہ سے جنگلات کی فراوانی تھی جب کہ گردونواح میں ریگزار بھی موجود تھے۔ ۔جب بستیاں بسائی گئیں تو عمارتی لکڑی کی ضرورت پیش آئی اور ایندھن کے طور پر جلانے کے لیے بھی لکڑی ضرورت پیش آئی۔ پختہ اینٹوں کے بھٹے جلانے کے لیے لکڑی پاس موجود تھی۔Indus Valley Civilization 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی بنو آدم کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادیٔ سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں سےشروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں، جو اس دور کی جدید تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی۔ اس تہذیب کےباسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس سفری ذریعے کے طور پربیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔
قدیم زمانے میں ذرائع نقل و حمل کا نظام اورمواصلاتی ذریعہ صرف بحری راستوں کا مرہون منت تھا، یہاں تک کہ تجا رتی سامان کی ترسیل بھی دریائی راستوں سےہوتی تھی۔انیسویں صدی میں ریلوے کا نظام نقل و حمل کا ذریعہ بنا ، جس کے بعد ریلوے لا ئن کے ساتھ ساتھ اور اسٹیشنوں کے قریب بستیاں بسنے لگیں۔ جب 20 ویں صدی میں تیل دریافت ہوا تو پھر سڑکوں کی تعمیرشروع ہوئی ور آمدورفت باربرداری کے لیے پٹرول سے چلنے والی مشینی گا ڑیاںچلنے لگیں، جس کے بعد سڑکوں کے قریب تا حد نگاہ بستیاں آباد ہو تی گئیں۔
نظریہ ضرورت کے کلئیے کے تحت دریائے سندھ کے کنارے جو شہر آباد ہوئے، دریا کے رخ تبدیل ہونے کے ساتھ ان کی جگہ اور مقام بھی بدلتے رہے۔ وادی مہران اس قدیم دریا ’’ ہا کڑو ‘‘ پر آبادہوئی تھی۔ یہ دریا قدیم دور میں سندھ کے مشرق کی طرف سے نکلتا تھا اور ما تھیلو ( مو مل جی ماڑی )چیچڑو ،اروڑحالیہ روہڑی اور عمر کوٹ سے ہو تا ہوا دیبل تک جا تا تھا جس کا ذکر قدیم شعراء نے سندھی زبان میں بھی کیا ہے ۔ اس مضمون میں ہم دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے والے سندھ کے قدیم شہروں میں سے ایک شہر،چیچڑو شہر کے بارے میں بتائیں گے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ چیچڑو را ئے حکمرا نوں کے دور میں ماتھیلو اور اروڑ ( جہاں را جہ دا ہر کا قلعہ اور قدیمی مسجد محمد بن قاسم کے آثار ابھی تک مو جود ہیں ) ملا نے والی با د شاہی سڑک پر ایک منزل تھا دو سری طرف ما تھیلو سے رو ہڑی جانےوالی لشکری سڑک پر بھی ایک منزل تھا۔ ما تھیلو کے قلعے سے جب مجا ہد خان کا لشکر ابو الخیر گورنر کی قیادت میں اوربکھر سے سلطان محمود کو کلتاش جنگ کے لئے آئے توسندھ کی مشہور تاریخ، مظہری شاہجہانی اور تا ریخ معصومی کے مطا بق محمود خان کا بھا ئی سلطان زین العا بدین چیچڑو کے با لا ئی حصہ لنجواری کے مقام پر مدمقابل ہو ئے جس میںگورنر حیدر سمیت کو کلتاش کےسیکڑوں آدمی ما رے گئے اور زین العابدین شکست کھاکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔ لڑائی کے دور ان مارے جانے والے تمام افراد کی تدفین چیچڑو کے قرب و جوار میں کی گئی۔جنگ کے خاتمے پر مجا ہد خان ماتھیلو سے چیچڑو کی طرف جانے والی والی سڑک کے ذریعے ’’پہنواری‘‘ سے کشتیوں کے زر یعے دریا پار کر کے بکھر پہنچے۔ چیچڑو 1940 ء سے قبل ایک تجا رتی مر کز تھا جس کے آثار ابھی تک موجود ہیں، جن میں مٹی سے تعمیر کی گئی قدیم عمارتیں اور با زار شامل ہیں۔ اس شہر میں ہندو بھی رہتے تھے جن کی اکثریت اورنگ زیب کے زما نے میں مسلمان ہو ئی تھی لیکن ان کے رسم و رواج میں اسلام قبول کرنے کے بھی بھی ہندووانہ تہذیب کی جھلکیاں نمایاں طور سے موجود تھیں۔ ان نو مسلم افراد کوراسخ العقیدہ اور شعائر اسلامی ، عقائداور رسم و رواج سے روشناس کرانے کے لیے حضرت مولانا تا ج محمد امرو ٹی اور ان کے خلفاء نے بڑی جدو جہد کی خا ص طور پر شدی تحریک اورسنگھٹن تحریکیں چلیں تو امکان پیدا ہوا کہ شاید یہ لوگ دوبارہ ہندو مذہب کی طرف لو ٹ جا ئیں جس کی نور محمد عرف طوطل شیخ نے سخت مخا لفت کی ایسی رپورٹ مشہور مؤرخ مو لا نا دین محمد وفا ئی نے اخبار تو حید میں 1921 تا 1927 کے شما روں میںشائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہاں ایک پرا ئمری اسکول ہے جس کی قدیمی عما رت ہے جو کہ مغل طرز کی نشاندہی کر تی ہے۔ چیچڑو میں سنت ایسر داس کی مڑھی کے آثار تا حا ل مو جود ہیں اور ایسر داس کی سما دھی پر ایک مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی مو جود ہے۔ اس سما دھی پر سندھ اور ہند کے عقیدت مند کبھی کبھار حا ضری دیتے ہیں۔ یہاں پر مہیسر قوم کا سردار عیسیٰ خان رہتا تھا جس کو مغل بادشاہوں نے سند حکمرانی عطا ہوئی تھی جو کہ ان کے خاندان کے پاس مو جود تھی۔ ان کی بڑی جا گیریں جو سندھ میں کئی مقامات پر موجود تھیں۔کراچی تا لا ہور مین ریلوے لا ئن پر پنوعاقل اور گھو ٹکی کے درمیان مہیسر ریلوے اسٹیشن بھی اس کی غمازی کرتی ہے۔ اس خا ندان کی تعمیر کردہ ایک قدیم مسجد تا حا ل مو جود ہے جو کہ اس زمانے کی شان و شوکت کی ترجمانی کر تی ہے۔مسجد کی تعمیر میں قدیم طرز کی تعمیرات کی جھلکیاں موجود ہیں، تا ہم اس کی مرمت اور تزئین و آرئائش ہوتی رہتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو تو بھارت چلے گئے لیکن ان میں سے جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ان کی اولادیںپنو عاقل شہر میں بس گئیں، جو شیخ قوم کے نام سے معروف ہیں۔ یعنی شیخ قوم بھی پنو عا قل شہر منتقل ہو گئی جس کی وجہ سے چیچڑو شہر کی رو نقیں ماند ہونے لگیں ۔
چیچڑو کے ساتھ ایک اور تا ریخی قبرستان مو جود ہے ۔ نامور ادیب اور محقق پرو فیسر سر ور سیف ، پرو فیسرغلام مر تضیٰ کلوڑ اور فضل اللہ مہیسر کی را ئے یہ کہ اس قبرستان کی ابتدا اول الذکر لڑا ئی میں قتل ہو نے والےافراد کی تدفین سے ہوئی تاہم اس قبرستان میں کئی اولیا ء اور بزرگان دین مدفون ہیں۔ با دشاہی سڑک جو کہ ہا کڑو در یا کے جنوب میں وا قع ہے جہاں پر بحری بیڑے لنگر انداز ہو تے تھے اس کے نشانات اب بھی مو جود ہیں علا وہ ازیں اس بند ر گاہ کے قریب باریک اینٹوں سے تعمیر کی گئی قدیم دور کی مسجدکے نشانات ا بھی تک مو جود ہیں۔ اس میں مو جود دو ترا شیدہ سنگ تقریباًڈھائی فٹ اونچے ہیں جو کہ لکڑی کے ستونوں کے نیچے نصب تھے تا کہ مٹی اور دیمک وغیرہ سے لکڑی کا بچا ئو ہو سکے ۔یہاں پر تقریباً دریا کی سطح سے دس فٹ کی بلندی پرایک قبرستان ہے اور اس کی اونچائی پر صحن بنا ہوا ہے۔
تا ریخ معصومی مترجم مخدوم امیر احمد ایڈیشن 2006 ء کے صفحہ نمبر 218 پر لنجواری کے قلعہ کا ذکر ملتا ہے جو کہ بکھر سے ما تھیلو کی طرف 18کو س پر مو جود بتا یا گیاہے ۔یہ قرین از قیاس ہے تا ریخ معصومی میں مذکو رہ قلعہ نے قبرستان کی صورت اختیار کی ہو جو کہ ایک اونچی جگہ پر دکھا ئی دیتا ہے۔ اس میں جو مشہور اور معروف بزرگ دفن ہیں وہ ہیں ’’با ید سلطان ؒ ‘‘ حضرت کی مرقد تقریبا ً دس فٹ لمبی ہے اور اس پر بہت خو بصورت اینٹو ں سےتعمیر کیا ہوا ایک مقبرہ بھی مو جود ہے اس مقبرہ میں ایک اور قبر بھی ہے۔ اس مقبرے کا طرز تعمیر اروڑ کے’’ سہا گن‘‘ اور’’ ڈھا گن ‘‘کے مقبروں سے زیادہ مشاہبت رکھتاہے ۔معروف محقق پرو فیسر غلام مر تضیٰ کلوڑ نے لکھا ہے کہ مقامی آبادی کے مطا بق مرقدپر ایک کتبہ بھی لکھا ہو اتھا لیکن قبور کی اندرونی مرمت کے دوران اس کی ٹو ٹ پھوٹ ہو گئی۔
اس قبرستان کی چار دیوار ی کی تعمیر کے لئے سا بق وزیر اعلیٰ سندھ سر دار علی محمد خان مہر نے اپنے دور میں ایک سروے اور فزیبلٹی رپورٹ تیار کرا ئی تھی جس میں اس دیوار کی پیما ئش 8500 فٹ تھی لیکن ان کی حکومت کے خاتمے کے بعداس کام میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔مذکورہ قبرستان کے بالکل نزدیک گا ئوں رو جو مہیسر میں 400 سالہ قدیم مسجد بھی ہے جس کی تعمیر درگاہ سو ئی شریف کے بزرگوں کے حکم پر ہو ئی تھی۔ اس مسجد کی قدامت کے متعلق تنظیم فکر و نظر سندھ کے صدر اور ما ہر تعلیم استاد فضل اللہ مہیسر نے بتا یا کہ ہما رے بزرگ سینہ بسینہ بتا تے آئے ہیں کہ اس کی تعمیر میں صرف اور صرف حفاظ کرام نے با وضو ہو کر اور تلا وت کر تے ہو ئے حصہ لیا تھا ۔ یہ مسجد اپنی قدیم حالت میں مو جود ہے ۔قدیم آثار کے محکمے او ر حکومت کی جانب سے چیچڑو شہر کی جانب سے ہمیشہ عدم توجہی برتی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے قدیم آثار مٹتے جارہے ہیں۔ ہا کڑے دریا کےکنارےپر یہ حسین علا قہ اب قدیم قبرستان و دیگر قدیم آثار کی صورت میں مو جود ہے۔