علامہ اقبال
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا
سماں ’الفقر فخري‘ کا رہا شان امارت ميں
’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را‘‘
گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا
غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے
جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں
مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کيا رونا کہ وہ اک عارضي شے تھي
نہيں دنيا کے آئين مسلم سے کوئي چارا
مگر وہ علم کے موتي ، کتابيں اپنے آبا کي
جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارا
’’غني! روز سياہ پير کنعاں را تماشا کن
کہ نور ديدہ اش روشن کند چشم زليخا را‘‘