پروفیسر عفت بانو، کراچی
اردو کے نامور شاعر میر تقی میر نے کہا تھا !
؎ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
وہ ہمیں یہی بتانا چاہتے تھے کہ، دنیا میں زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں، دنیا کی مثال شیشے کے کارخانے کی سی ہے، یہاں ہر طرف شیشہ بکھرا پڑا ہے۔ یہاں انسان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔ اگر پاؤں ذرا سا بھی ٹیڑھا پڑے گا، تو نہ صرف شیشہ ٹوٹ جائے گا، بلکہ پاؤں بھی زخمی ہو جائے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے، جسے ہمارے نوجوانوں کو اوائلِ عمری ہی میں سمجھ لینا چاہئے۔ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے غور و فکر شعور و ادراک اور احتیاط بھی بہت ضروری ہے ۔
سب جانتے ہیں کہ نوجوانی کا دور ہی وہ دور ہے، جب انسان میں ہر جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ ان جذبوں کو صحیح سمت موڑنا والدین اور اساتذہ کا کام تو ہے ہی مگر نوجوانوں پر خود بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ، وہ اﷲکی طرف سے عطا کردہ صلاحیتّوں کو صحیح سمت میں استعمال کریں ۔
ہمارے نوجوان ملک کی آبادی کا چونسٹھ فی صد ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ، آبادی کے اس بڑے طبقے سے کیسے فائدہ اُٹھایا جائے۔ جس سے فرد، خاندان اور ملک ترقی کرسکے، کیوں کہ فرد کی ترقی اس کے خاندان کی ترقی ہے اور خاندان کی ترقی ملک کی ترقی ۔۔۔۔۔ آج کا مسئلہ یہی ہے کہ، ہمارا نوجوان کچھ ایسے مسائل میں الجھ گیا ہے، جو نہ صرف اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، بلکہ پورے ملک میں افراط و تفریط اور انتشارکا باعث بھی ہیں۔
دورِ حاضر میں نوجوانوں کا ایک اہم مسئلہ انتہا پسندی بھی ہے۔ وہ دو طرح کی انتہا پسندی کا شکار ہیں، ایک طرف وہ نوجوان ہیں، جو خود کو جدیدیت کا علم بردار کہتے ہیں، جن کے خیال میںعریاں لباس اورنشہ آور اشیاء کا استعمال مخلوط محفلوں میں بلا روک ٹوک شرکت ترقی کی نشانیاں ہے۔ یہ نوجوان اپنے یعنی اقدار سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے، انہیں اپنانا تو دور کی بات، انہیں جاننا بھی نہیں چاہتے، نہ انہیں اپنی تاریخ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اپنے تشخص کی خواہش۔ یہ نوجوان اسی روزو شب کو اپنی زندگی سمجھے بیٹھے ہیں انہیں اقبال کے اس پیغام سے کیا غرض کہ
؎ اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
یہ نوجوان نہ صرف اپنی زندگی سے کھلواڑ کر رہے ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے معاشرے میں بھی نا ہمواری، بے سکونی اور تناؤ کی کیفیت ہے۔ دوسرے وہ نوجوان ہیں، جنہوں نے صرف ظاہری لباس وضع قطع ہی کو اسلام سمجھ رکھا ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ہر کسی کو ڈنڈے کے زور پر مسلمان بنائیں کسی بھی قسم کے فنونِ لطیفہ سے ان کا دور دورکا بھی واسطہ نہیں ہے اور اگر کسی دوسرے فرد میں فنونِ لطیفہ سے متعلق کوئی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تو حتٰی الامکان اس کی مخالفت کی جاتی ہے اور اگر ان کی بات نہ مانی جائے، تو یہ تشدد پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ، کراچی کے ایک معروف گرلز کالج میں کتابوں کی نمائش جاری تھی، شومئی قسمت کہ اس نمائش میں محترمہ کشور ناہید کی آب بیتی ـ" بری عورت کی کتھا" بھی شامل تھی، طالبات نے جو صرف ایک ہی سمت میں دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھیں، یہ جانے اور جاننے کی کوشش کئے بغیر کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے، پرنسپل کے آفس میں جاکر احتجاج کرنا شروع کردیا کہ، کس قسم کی کتابیں نمائش میں رکھوائی گئیں ہیں۔ ان کا احتجاج اس قدر شدید تھا اور اس کے تشدد میں بدل جانے کا اندیشہ بھی تھا۔ وہ کچھ سننے،ماننے اور سمجھنے کو تیار نہ تھیں، مجبوراََ کتابوں کی نمائش روک دی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ دیگر طالبات جو ان کتابوں سے استفادہ کرنا چاہتی تھیں وہ کس سے احتجاج کرتیں ۔
میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بات دلیل سے نہیں کی جاتی، بیش تتر نوجوان مطالعہ پر یقین نہیں رکھتے، ادھوری معلومات پر ہی غلط سلط مفروضے قائم کرلیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ، دوسرے بھی ان ہی کے انداز میں سوچیں۔ اس روئیے کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، ایک طالبِ علم نے اپنے استاد کو اس لیے قتل کردیا کہ، بے راہ رو شخص ہے، مذہب سے بے گانہ ہے، اس کا دنیا میں زندہ رہنا فساد اور برائی کے پھیلنے کا باعث ہے۔ کاش اس شدت سے سوچنے والے نوجوان نبیِ رحمت ﷺ کے اس جذبے کو یاد رکھیں کہ، جب فرشتے نے آکر عرض کیا کہ، اگر آپ کا حکم ہو تو طائف کا پہاڑ طائف والوںپر الٹا دیا جائے۔ مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ، نہیں شاید ان کی آنے والی نسلوں میں نیک انسان پیدا ہوں۔ تو عزیز نوجوانو! آپ بھی یاد رکھئے، زندگی میں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اگر آپ تاریخ کا تھوڑا بہت مطالعہ کریں گے تو، بے شمار ایسی شخصیات سے واقفیت ہوجائے گی، جو کسی چھوٹے سے واقعے، کسی شخصیت ،کسی جملے سے متاثر ہوکر بدی کا راستہ ترک کر کے نیکی کی طرف آئے اور بقیہ زندگی نہایت متّقی ،پرہیز گار اور باشرع مسلمان کی حیثیت سے بسر کی ۔
دورِ حاضر کے خطرات و خدشات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ان نوجوانوں کی ضرورت ہے، جو متوازن شخصیت کے مالک ہوں۔ اسلامی تعلیمات کا صحیح شعور اور ادراک رکھتے ہوں۔ صبر و برداشت ،عفو و درگزر کی صفات سے مالا مال ہو ں، جن کا مطالعہ وسیع ہو، جو دلیل سے اپنی بات منوانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ نہ کہ چیخ و پکار اور تشدد سے دوسرے کی آواز دبانے کی کوشش کریں۔