میرے حوالے سے فاضل کالم نگار سلیم صافی صاحب کا غصہ فرو ہونے کو نہیں آ رہا، چنانچہ وہ کالموں کی سیریزلکھ رہے ہیں اور جواب دینا اور اپنے موقف کا دفاع کرنا میرا شرعی و قانونی حق ہے۔ انہوں نے جنابِ فواد چوہدری کو اپنے پروگرام میں کہا ’’آپ ان کو برطرف کیوں نہیں کردیتے‘‘، انہوں نے جواب دیا’’ میرے اختیار میں نہیں ہے‘‘۔ پھر موصوف نے اپنے آخری کالم میں لکھا ’’لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس سے مطالبہ کر رہے تھے، کیا وہ نہیں جانتے کہ کمیٹی کا چیئرمین بدلنے کے لیے انہی کی جماعت کے وزیر مذہبی امور کے سیکشن آفیسر کا ایک نوٹیفکیشن درکار ہے‘‘۔ اُن کا یہ رویہ صرف میرے ساتھ نہیں، سب کے ساتھ ایسا ہے، مثال پیش کرتا ہوں:گزشتہ حکومت نے جب صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ جنابِ سردار مہتاب احمد خان عباسی کو گورنر خیبر پختونخوا بنایا تو موصوف نے لکھا ’’مہتاب عباسی کو پشتو آتی ہی نہیں اور نواز شریف نے انہیں گورنرخیبر پختونخوا بنا دیاہے‘‘، اس سے عصبیت جھلک رہی تھی اور اس میں یہ پیغام مستور تھا کہ خیبر پختونخوا کے جس شہری کی مادری زبان پشتو نہیں ہے، وہ اپنے صوبے کا گورنر بننے کا اہل نہیں ہے۔ اس طرح تو ہزارہ ڈویژن، پشاور و کوہاٹ (پشاور اور کوہاٹ کے قدیم شہریوں کی مادری زبان بھی ہندکو ہے)، ڈی آئی خان (وہاں کے شہری باشندوں کی زبان سرائیکی ہے)، سوات کے بعض علاقوں میں گجر برادری بستی ہے، سو اب صافی فارمولے کے مطابق ان سب کا صوبے کے آئینی عہدوں پر استحقاق نہیں رہے گا۔ تو ان علاقوں کے رہنے والے اگر الگ صوبے کا مطالبہ کریں تو جواز بنتا ہے یا انہیں یہ آپشن دیا جائے کہ وہ اس صوبے کے ساتھ الحاق کریں جو انہیں قبول کرے۔ پھر جب اسی حکومت نے اصلی اور نسلی پشتون جنابِ اقبال ظفر جھگڑا کو گورنر خیبر پختونخوا بنایا تو صافی صاحب نے لکھا ’’وہ تو بوڑھے ہیں چل پھر نہیں سکتے‘‘، پھر خالص پشتون بھی نااہل قرار پائے۔ اسی طرح اسی حکومت نے اصلی اور نسلی پشتون جنابِ سرتاج عزیز کو قبائلی علاقوں کا مستقبل طے کرنے کے لیے کمیشن کا سربراہ بنایا تو صافی صاحب نے لکھا ’’وہ اگرچہ مردان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اب وہ ایک عرصے سے لاہور میں رہائش پذیر ہیں‘‘، یعنی پشتون ہونے کے باوجود وہ اس کے اہل نہیں رہے، حالانکہ جنابِ سرتاج عزیز سابق بیوروکریٹ ہیں، اپنی پارٹی میں خزانہ اور خارجی امور کے وزیر یا مشیر رہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا، لیکن چونکہ صافی صاحب کی دانش کی رو سے لاہور میں رہنے کی وجہ سے وہ ’’پنجاب زدہ‘‘ ہو گئے ہیں اس لیے کمیشن کی سربراہی کے لیے ان کا انتخاب نامناسب تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ ہر بات میں اپنے آپ کو کس حدتک حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔
جنگ کے بانی میر خلیل الرحمٰن مرحوم انتہائی وضع دار آدمی تھے، انہوں نے اپنی محنت سے اس ادارے کو میڈیا اِمپائر بنایا، کبھی بھی انہوں نے کسی مکتبِ فکر کے علماء کی توہین کو اپنا شعار نہیں بنایا مگر اب پالیسی پر لبرل ازم کا غلبہ آگیا ہے اور لگتا ہے کہ اہلِ دین پر چڑھائی کرنے کے لیے صافی صاحب کو آگے کر رکھا ہے۔
جس کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کے فیصلے پر اعتراض ہو، اس کے پاس استدلال کی دو بنیادیں ہیں: (۱) شرعی اصول (۲) فنی معیارات۔ ہم جواب دیں گے اور عصبیت سے بالاتر متوازن سوچ رکھنے والے کو مطمئن کریں گے، ہم شریعت کے پابند ہیں، کسی متکبر اینکر پرسن یا کالم نگار کی خواہشات کے پابند نہیں ہیں اور بھی لبرل کالم نگار مثلاً جنگ کے ادارتی صفحات پر وجاہت مسعود صاحب، یاسر پیرزادہ صاحب اور دیگر کالم نگار لکھتے رہتے ہیں، لیکن اختلافِ رائے کو ذاتیات اور شخصی اہانت تک نہیں لے جاتے، اس لیے ہم بھی ان سے تَعَرُّض نہیں کرتے، وہ سب مہربان شاد و آباد رہیں، اگر رویت ہلال کمیٹی کے حوالے سے ان کے دو چار کالم نکل آتے ہیں، تو ہمیں ایصالِ ثواب کر دیا کریں۔
بعض لبرل عناصر لوٹے بُدھنے، اونچے پائنچے، گھڑیوں کے استعمال، دُخانی ریلوے انجن، لائوڈ اسپیکر، موٹر کار، ہوائی جہاز اور خلائی جہاز تک کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ علماء کی نادانی کو ثابت کیا جا سکے، جن کا استدلال اس سطح کا ہو، اُن سے منہ لگانا وقت ضائع کرنا ہے۔ یہ سارے کرم فرما یہ تاثر دیتے ہیں کہ ساری سائنسی اور فنی ترقی میں رکاوٹ دین اور اہلِ دین ہیں، میں نے بارہا کہا ہے: اہلِ دین نے کب آپ کو سائنسی اور فنی ترقی سے روکا ہے، کوئی ایک مثال تو پیش کیجئے، سائنسی ترقی کے بارے میں سوال علماء سے نہیں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں سے ہونا چاہئے۔ مگر یہ لوگ تاثر دیتے ہیں کہ ہمارا خلائی جہاز روشنی سے دگنی چوگنی رفتار سے چاند کی طرف اڑا جا رہا ہے، آگے کہیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان دیوارِ چین بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور یوں سفر موقوف ہو جاتا ہے، ورنہ ہم کب کے چاند تو کیا سار ے سیّاروں اور ثوابت سے آگے نکل جاتے اور جدید سائنسی دنیا حیرت سے ہمیں تکتی رہتی۔ اسی طرح مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان فاصل کالم نگار سلیم صافی صاحب کے لیے زندگی اور موت کامسئلہ ہے، یا وہ رہیں گے یا یہ کمیٹی رہے گی اور ظاہر ہے کہ ان کے خیال میں دنیا اور ہر دور کے اہلِ اقتدار اُن کی زبان اور قلم کی کاٹ سے لرزتے رہتے ہیں اور جان کی امان کی تلاش میں رہتے ہیں، انشاء اللہ خان انشاءؔ نے کہا تھا:
جگر کی آگ بجھے جس سے، جلد وہ شَے لا
لگا کر برف میں ساقی، صراحیِ مے لا
پس کالم نگار کے جگر کی آگ بجھانے کے لیے جب تک ان کے مَن کی مراد پوری نہیں ہوگی، وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہم بھی جواب کے لیے حاضر رہیں گے۔ الحمدللہ! مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان میرا معاش نہیں ہے، لیکن اسٹوڈیوز کا آئینہ خانہ اور ادارتی صفحہ آپ کا معاش ہے۔ ایک صاحب سوشل میڈیا پر فروکش ہیں اور فرما رہے ہیں ’’مفتی منیب الرحمٰن کہتے ہیں: میں سائنس کو اپنے جوتے کی نوک پر مارتا ہوں‘‘، اس کا جواب فقط یہ ہے ’’جھوٹے پر اللہ کی لعنت‘‘۔ ایک طنز عینک کے حوالے سے کیا جاتا ہے، کیا عینک استعمال کرنے والا قضا کا اہل نہیں رہتا، مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کا منصب قضا ہے، اس طرح تو اعلیٰ عدالتوں کے عالی مرتبت جج صاحبان، مُسلح افواج کے سربراہان، وزیر اعظم اور صدرِ پاکستان سب کو نااہل ماننا پڑے گا کیونکہ وہ بھی بعض اوقات عینک استعمال کرتے ہیں، سو رویتِ ہلال پر اعتراضات اس دانش کے شاہکار ہوتے ہیں۔