پھر وہی بات کہ پاکستان کی دیواروں پہ لکھا ہوا یہ نعرہ ’’آصف علی زرداری کو رہا کرو‘‘ کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی زرداری کے جیالے تو اسے ’’ضمیر کا قیدی آصف زرداری‘‘ کہتے ہیں۔ کتنے وزرائے اعظم، صدور اور سپہ سالار و قاضی القضاۃ آئے لیکن زرداری اور زندان جیسے الفاظ آپس میں ملتے جلتے رہے۔ جیسے بلاول بھٹو زرداری بینظیر بھٹو پر لکھی ہوئی میری اک نظم ’’وہ قیدی تھی زرداروں کی‘‘ کو تروڑ مروڑ کر ’’وہ قیدی تھی زندانوں“ کی پڑھتا ہے۔
’’اگر میں آپ لوگوں کے مشوروں پر عمل کرتا تو آج تک جیل میں پڑا رہتا‘‘ یہ پارٹی اجلاسوں میں زرداری پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی طرف رویہ سخت کرنے یا حزب مخالف میں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردار ادا نہ کرنے جیسے مشورے دینے والوں سے کہتے رہے تھے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ زرداری اپنی پارٹی کے اندر ایسے لوگوں کے ایسے مشورے قبول نہ کرنے کے باوجود بھی پکڑا گیا۔ تاریخوں پر تاریخیں اور اپنی اور اپنی بہن ادی فریال تالپور کی عبوری ضمانتوں کی توسیع پر توسیع آخر کار ختم ہوئی اور اب وہ تصویر بھی تاریخ کا حصہ بن گئی جس میں بلاول ہائوس اسلام آباد میں آصف علی زرداری کی گرفتاری کے وقت بلاول بظاہر خوش نظر آرہا ہے لیکن آصفہ بہت ہی اداسی سے اپنے والد کو پولیس یا نیب کی گاڑی میں الوداع کہہ رہی ہے۔ اب آنے والے دنوں میں نیب یا عمران خان کی حکومت کا ایسا ’’کارنامہ‘‘ شاذ و نادر لیکن یہ آصفہ بھٹو والی تصویر بڑے دنوں تک ان کے حامیوں یا چاہے عام ووٹروں کو بے چین کرتی رہے گی۔
’’زرداری کی کہانی ختم ہے‘‘۔ کسی نے پوچھا۔ میں نے کہا: کیا یہ کم ہے کہ اس وقت بھی ہزاروں میل دور نیویارک کے یونین اسکوائر کی ایک قدیم بار کی ٹیبل پر ہم زرداری کا ذکر لئے بیٹھے ہیں۔ نجانے کیوں؟ ایک ٹیکسی ڈرائیور سے لیکر برین سرجن، چاہے نفسیاتی ماہرین تک سب کا زرداری ایک مرغوب موضوع ہے۔ ایک بڑی کہانی ہے۔ سسپنس اور لڑائی مار کٹائی سے بھرپور۔ جیلر تے قیدی ٹائپ۔ کوئی اسے ضیاء الحق کے بعد ملکی تاریخ کا سب سے شاطر سیاستدان و حکمران کہتا ہے۔ کوئی اسے صرف میٹر۔ میٹر پھرتے دیر نہیں لگتی۔
نوابشاہ شہر میں اخبار سندھ نیوز کے مقامی رپورٹر کی طرف سے ’’بینظیر کی منگنی زرداری کے ساتھ“ جیسی درست خبر دینے کے باوجود اس اخباری رپورٹر کی جیالوں کے ہاتھوں پٹائی سے لیکر ٹائم میگزین کے سرورق پر بینظیر کے امریکی دورے کے دوران روایتی بلوچی پٹکہ (پگڑ) باندھنے تک اور کھڑتالی (کھڑتالی کسی زمانے میں سندھی قوم پرستوں کی طلبہ سیاست میں ایک گروپ کہلاتا تھا) کٹ کپڑے (لمبی قمیص شلوار پہنے) پیشیاں بھگتنے والی تصاویر تک اور اب غلام اسحاق خان ٹائپ واسکٹ کا شلوار قمیص کے جوڑے کے کلر کے مطابق انتخاب اور مونچھیں تراش خراش کے ساتھ کہ گویا اب بھی ایوانِ صدر کے ہی مہمان ہوں، ایک بڑی کہانی ہے۔ جو چل نہیں دوڑی جا رہی ہے۔ جنہوں نے بھی زرداری کی زیر صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کی ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ مکالمہ ہوتا تھا ’’ابھی بھی کھیلنے کو میرے پاس بہت پتے باقی ہیں‘‘۔ اک بار وفاق میں حکومت اور قصر صدارت سنبھالنے اور سندھ میں گزشتہ دس برسوں میں دو بار حکومت میں رہنے کے باوجود آصف علی زرداری تیسری بار جیل جا چکے ہیں۔ وہ شاید پاکستان میں جی ایم سید کے بعد سب سے طویل مدت تک جیلیں کاٹنے والے سیاستدان ہیں۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سندھ کی جو موجودہ درگت بنائی گئی ہے اس میں زرداری اینڈ کمپنی کا بہت بڑا ہاتھ ہے کہ آج کے امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق سندھ کےصرف ایک ضلع میں ایچ آئی وی کے دو سو مریض بچے ہیں۔ ان کے مخالفین نیب میں زیر التوا کئی مقدمات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے 37ارب روپوں کی کرپشن کی ہے لیکن یہ کام تو عدالتوں کا ہے کہ ان پر جرم ثابت کرنا یا بری کرنا۔ لیکن یہ ہم سب جانتے ہیں، سب سے بڑی بات کہ پبلک سب جانتی ہے کہ ان کی پکڑ کرپشن پر نہیں سیاسی وجوہات پر ہوئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مسئلہ اٹھارہویں ترمیم اور وفاق اور سندھ اور پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ میں کھینچا تانی کا ہے۔ بقول سینئر صحافی اور میرے دوست سہیل سانگی کے ایک مضمون کہ زرداری کی گرفتاری سے فائدہ اس کی پارٹی کو پہنچے گا۔ وہ پارٹی جو سندھ تک محدود رہ گئی تھی وہ بھی اے ٹی ایم مشینوں تک۔ ادا اور ادی کے حکم اور مرضی سے سندھ میں پتا تک نہیں ہلتا تھا اور نہ ہلتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب کہ زرداری کی گرفتاری مرے ہوئے گھوڑے کو کوڑے مارنے کے مترادف ہے، کہیں یہ معاملہ صوبائی خودمختاری اور وفاقی حکومت کی اس میں روزمرہ کی مداخلت کا تو نہیں۔ اگر یوں ہے تو پھر یقین مانیے کہ ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
اب مجید نظامی کا ’’مردِ حر‘‘ بوڑھا ہو چکا ہے۔ کہیں شیخ ایاز کی شاعری میں اس بوڑھے عقاب کی طرح تو نہیں کہ جتنا بوڑھا ہو جائے، پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانے کی خواہش تب بھی رکھتاہے۔ بقول سہیل سانگی اس دن یعنی گرفتاری کے دن کا انتظار کرتے ’’رئیس بڑا‘‘ (زرداری کا نام۔ اس کے اثر و رسوخ کے علاقے میں اس کے قبیلے اور علاقے کے لوگ اسے کہتے ہیں) اور اس کی پارٹی والے بھی تھک گئے تھے۔ لیکن اب وہ لوگ کہاں سے آئیں جو اسے پھر ’’نیلسن منڈیلا“ قرار دیں۔ حالانکہ میرا خیال ہے وہ ونی منڈیلا زیادہ رہے تھے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والوں میں خالد شہنشاہ بھی تھا جو نیویارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے زرداری کی رہائی کے مطالبے پر بھوک ہڑتال پر بیٹھا تھا۔