• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تشدد کے بچوں پر فوری اور طویل مدتی، دونوں طرح کے شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جسمانی تشدد کے نتیجے میں بچے کی موت، زخمی ہونا یا معذوری ہوسکتی ہے، جبکہ دیگر اقسام کے تشدد (جن کا ذکر مضمون میں آگے جاکر کیا جائے گا) کے نتیجے میں دماغی نشوونما متاثر اور اعصابی و مدافعتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں میں ادراکی صلاحیت تاخیر سے پروان چڑھتی ہے، اسکول میں ان بچوں کی کارکردگی خراب رہتی ہے، ذہنی صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خودکشی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں، خود کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں دلچسپی لے سکتے ہیں اور بڑے ہوکر دیگر بچوں پر تشدد کرسکتے ہیں، اس طرح معاشرے میں بچوں پر تشدد کا رجحان فروغ پانے کے خدشات بڑھتے جاتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، بچوں پر تشدد کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے پریشان کن اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ایک نوجوان آبادی والا ملک ہے، جہاں کل آبادی کا 35.4فیصد 14سال تک کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد کی صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔

بچوں پر تشدد کیا ہے؟

بچوں پر تشدد سے مراد کسی دوسرے کا ایسا اقدام ہے، جس سے بچے کو تشویش ناک حد تک نقصان پہنچے۔

بچوں پر تشدد کی اقسام

بچوں پر تشدد کئی طرح سے ہوتا ہے، جیسے 1) گھریلو تشدد، 2) جنسی تشدد، 3) نفسیاتی تشدد، 4)بچے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کا تشدد، 5)آن لائن تشدد

گھریلو تشدد

قانون کے مطابق، کم عمر بچوں سے جسمانی مشقت نہیں لی جاسکتی لیکن پاکستان میں کم عمر بچوں اور بچیوں سے جسمانی مشقت لینا عام بات ہے۔ مزید برآں، امیر گھرانوں میں کام کرنے والے کم عمر بچوں اور بچیوں پر بے جا سختیاں کی جاتی ہیں اور اکثر اوقات ان پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

جنسی تشدد

ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روزانہ 6سے 15سال کی عمر کے 10سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ گھر میں بچے پر جنسی تشدد سوتیلے ماں باپ کی طرف سے، کسی رشتے دار کی طرف سے، گھر آنے والے دوست و احباب کی طرف سے، گھر پر کام کرنے والے ملازمین کی طرف سے اور گھر پر ٹیوشن پڑھانے کے لیے آنے والے اساتذہ یا ٹیوٹر کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ جنسی تشدد گھر سے باہر بھی ہو سکتا ہے، مثلا ً:دوست کی طرف سے، پڑوسی کی طرف سے، استاد کی طرف سے، بچے کا خیال رکھنے والے کسی فرد یا اجنبی کی طرف سے۔

عام طور پر بچوں پر جنسی تشدد کی واضح جسمانی علامات نہیں ملتیں۔ کچھ علامات صرف ڈاکٹر کے مکمل معائنے کے بعد ہی سامنے آتی ہیں۔ جن بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاتا ہے، ان میں مندرجہ ذیل علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔

1- خلاف معمول جنسی نوعیت کی چیزوں میں دلچسپی لینا یا جنس سے وابستہ ہر چیز سے گریز کرنا۔

2- نیند کے مسائل کا شکار ہو جانا یا برے برے خواب دیکھنا۔

3- ڈپریشن کا شکار ہو جانا یا دوستوں اور گھر والوں سے الگ تھلگ رہنا۔

4- اس طرح کے جملے کہنا کہ ان کا جسم گندا ہے یا اس کو نقصان پہنچ چکا ہے۔

5- اسکول جانے سے انکار کرنا، اسکول سے بھاگنا ۔

6- زیادہ تر باتوں کو خفیہ رکھنا۔

7-عصمت دری کے حوالے سے کھیل کود، ڈرائنگ یا تخیل میں اظہار کرنا۔

8- خلاف معمول غصے کا اظہار کرنا۔

9- خودکشی کی طرف مائل رویہ۔

والدین مندرجہ ذیل طریقوں سے بچوں پر ممکنہ جنسی تشدد کے امکانات کو کم کرسکتے یاروک سکتے ہیں۔

1- بچوں کو بتائیں کہ اگر کوئی ان کے جسم کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے یا ان کے ساتھ ایسا کام کرے جو انھیں عجیب لگے تو اس شخص کو سختی سے منع کریں اور والدین کو آکر بتائیں۔

2- بچوں کو سکھائیں کہ بڑوں یا بزرگوں کی عزت کرنے کا مطلب ان کی اندھی فرمانبرداری نہیں ہوتی، مثلاً بچوں کو یہ نہ کہیں کہ آپ ہمیشہ ہر وہ کام کریں جو آپ کے ٹیچر یا آپ کا خیال رکھنے والے آپ کو کہیں۔

3-اسکولوں میں جنسی تشدد سے بچاؤ کے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کریں۔

ایسے بچے، جن کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا ہے، ان کو فوراً ماہرانہ معائنے، مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔مناسب اور مؤثر علاج سے بچے میں آگے چل کر جوانی میں شدید مسائل پیدا ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

نفسیاتی یا جذباتی تشدد

جب والدین یا خیال رکھنے والے بچے کے ساتھ اس طرح پیش آئیں کہ بچے کی ذہنی اور سماجی افزائش متاثر ہو تو اسے نفسیاتی یا جذباتی تشدد میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہرچند کہ اس نوعیت کے ایک عمل کوبھی نفسیاتی تشدد کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے لیکن بچے کو اس کا طویل مدتی نقصان اس وقت ہوتا ہے جب بچے کے ساتھ والدین کا ایسا رویہ معمول بن جائے، جیسے بات بات پر بچے کو ڈانٹنا، بہتر تعلیمی نتائج کے لیے بچے پر دباؤ بڑھانا، سختی کرنا یا سزا دینا، اس کی باتوں اور جذبات کو نظرانداز کرناوغیرہ۔

بچے کو نظر انداز کرنے کا تشدد

جب والدین یا دیکھ بھال کرنے والے بچے کے جسمانی تحفظ کا خیال نہ رکھیں، اس کی مناسب نگہداشت نہ کریں، اسےمطلوبہ توجہ، پیار اور جذباتی سپورٹ نہ دیں، اس کی صحت اور مجموعی جسمانی بہتری کے لیے مطلوبہ تعاون نہ کریں اور اس کی تعلیم کو نظرانداز کریں، تو ان تمام باتوں کو بچے کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے تشدد کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ جو بچے زندگی میں مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے تشدد کے کرب سے گزرتے ہیں، ان میں سے اکثر بڑے ہوکر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

آن لائن تشدد

ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچے ٹیبلٹس، موبائل فونز اور گیمنگ کنسولز کے عادی ہوچکےہیں۔تاہم یہ بچوں پرتشدد کا ایک اور ذریعہ بن رہے ہیں۔ بچوں پر آن لائن تشدد انٹرنیٹ پر آن لائن گیمز، سماجی ویب سائٹس جیسے فیس بک، انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس ٹیکنالوجیکل دور میں والدین پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے ہر طرح کے آن لائن تشدد سے محفوظ رہیں۔

تازہ ترین