وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کا رویہ انتہائی افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ہمیں 30 مئی کو بتایا گیا کہ ہم سندھ کو 666 بلین روپے دیں گے،پھر 4 جون ایک خط لکھا کہ 662 بلین روپے دیں گے اور پھر وفاقی بجٹ میں 631 بلین روپے کا اعلان کیا۔
کراچی میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ میں گذشتہ 10 سال سے بجٹ بنا رہا ہوں ، لیکن اس طرح کی صورتحال کبھی پیش نہیں آئی، میں حزب اختلاف کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور جس طرح انہوں نے احتجاج کیا وہ ناقابلِ برداشت تھا، یہ اپوزیشن اصل میں بجٹ کی منظوری میں حصہ لینا نہیں چاہتی، اپوزیشن کو اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ضرور دوں گا۔
مرا د وعلی شاہ نے کہا کہ اپوزیشن سیاسی میدان میں نااہل ہے لیکن اُن کے غلط رویوں پر بھی ہم صبر کا دامن تھامے ہوئے ہیں کیونکہ ہماری لیڈر شپ نے ہمیں منع کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 18-2017 میں سندھ حکومت نے ڈپولپمنٹ میں رکارڈ سرمایہ کاری کی تھی،ہمارے ترقیاتی بجٹ کا سائز 18-2017 میں 274 بلین روپے تھا جبکہ ہم اسے 252 بلین روپےپر لے آئے ہیں جبکہ دیکھا جائے تو ایک طرح سے پنجاب حکومت نے بجٹ بنایا ہی نہیں ،انہوں نے 635 بلین روپے کا ترقیاتی بجٹ بنایا اور اُس کو 238 بلین روپے تک لے آئے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ 30 اپریل 19-2018 سندھ نے 137 بلین روپے خرچ کیے جبکہ پنجاب نے 389 بلین روپے استعمال کیے اور رواں سال 19-2018 میں ہم نے 80.5 بلین روپے استعمال کیے، اس سال ہم اپنی اے ڈی پی میں 100 بلین روپے کم خرچ کریں گے اور فنڈز کم کروائیں گے۔ہمیں 31 مئی 2019 تک 631 بلین میں سے 492.1 بلین روپے دیئے گئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس بات کا ذکر میں اسمبلی میں کروں گا کہ 140 بلین روپے وفاق نے سندھ حکومت کو دینے ہیں،این ای سی کا اجلاس 28 مئی کو ہوناتھا، جب خاقان عباسی پاکستا ن کے وزیراعظم تھے تو خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور سندھ نے این ای سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 29 مئی کے این ای سی کا اجلاس جو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت میں ہواتھا میں نے اُس اجلاس میں کہا تھا کہ گذشتہ این ای سی کا اجلاس ناخوشگوار تھا، اس میں بہتری لائیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ آج 29 مئی کو ہونے والے این ای سی کے اجلاس کے منٹس آئے ہیں اور جس میں ہماری 29 اسکیمیں ختم کردی گئی ہیں اورمنٹس میں اسکیم ختم کرنے کا الزام پچھلی حکومت پر لگایا گیاہے جبکہ اس این ای سی اجلاس کا بائیکاٹ وزیراعظم نے خود کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 835 بلین روپے جو وفاقی حکومت سے نئے سال میں آنے ہیں اُن کو اور اپنی آمدن کو سامنے رکھتے ہوئے بجٹ بنایا ہے ۔ہم نے ایک متوازن بجٹ بنایا ہے ۔ہمارے بجٹ میں نہ خسارہ ہے اور نہ کوئی اضافہ ہے اور بالکل معیاری بجٹ ہے ۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میں 25 فیصدتنخواہیں بڑھانا چاہتا تھا لیکن فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے 15 فیصد بڑھائیں۔پنجاب نے 237 بلین روپے کا اضافی بجٹ دیا ہے لیکن تنخواہوں کی مد میں خاطر خواہ کا اضافہ نہیں کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے آنے پر یہ اضافی بجٹ بنایا ہے، اگر بجٹ کے پیسے اسٹیٹ بینک میں رکھیں گے تو اُس پر منافع نہیں ملتا اور اگر قرض لیں تو اس پر سود لیتے ہیں،وزیراعظم کے ہر اجلاس میں ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے بجٹ کا آئوٹ لے 1.2 ٹریلین روپے ہے ،جس کا 28 فیصد ترقیاتی اور 71 فیصد غیر ترقیاتی ہے ۔اس 71 فیصد میں لوکل حکومت کی او زیڈ ٹی اور مختلف اداروں جیسے ایس آئی یو ٹی وغیرہ کو گرانٹس جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیم کو 220 بلین روپے کا بجٹ دیا ہے جوکہ گذشتہ سال سے 18 فیصد زیادہ ہے اسی طرح صحت کو 19 فیصد زیادہ ،خصوصی تعلیم کو 76 فیصد زیادہ، امن و امان کو 57 فیصد زیادہ دیا ہے ۔ وفاقی حکومت کا پی ایس ڈی پی 951 بلین روپے ہے جس میں سندھ کو کُل 3.5 فیصد حصہ دیا گیا ہے ۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ اس سال ہمیں ترقیاتی پورٹ فولیو کے لیے 228 بلین روپے ، ڈسٹرکٹ اے ڈی پی کے لیے 20 بلین روپے ، ایف پی اے کے لیے 51 بلین روپے، وفاقی پی ایس ڈی پی 4.9 بلین روپے ملیں گے۔ہم نے جاری اسکیموں کے لیے 78 فیصد فنڈز مختص کیے ہیں اور نئی اسکیموں کے لیے 22 فیصد رکھے ہیں،ہم نے این آئی سی وی ڈی ، جے پی ایم سی اور این آئی سی ایچ کے لیے فنڈز رکھے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے وفاقی حکومت کو کہا کہ آپ ان اسپتالوں کو سنبھالنے کے لیے سندھ حکومت سے بات کریں اور ہم سے بات کیے بغیر ہی نوٹیفکیشن نکال دیا کہ وفاقی حکومت نے ان اداروں کو ٹیک اوور کرلیاہے، وفاقی حکومت نے ان اداروں کے لیے بجٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں رکھا۔ اگر ہم وفاقی حکومت کے ٹیک اوور نوٹیفکیشن پرعمل کرتے تو یہ اسپتال بند ہوجاتے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ 2011 میں 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے بجٹ کے بعد یہ بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے این آئی سی وی ڈی ، جے پی ایم سی، اور این آئی سی ایچ کے فنڈز نہیں رکھے، ہم نے ان اداروں کے لیے بجٹ کا انتظام کر رکھا ہے اورانہیں چلارہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ بہت پریشانی کا شکار ہے ، ہم نے آبپاشی کے شعبے میں 28 بلین روپے سے کم کر کے 22 بلین روپے کر دیا ہے۔