• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا شاہد برلاس

ناسا کے خلائی جہاز’’انسائٹ لینڈر‘‘ نےچند ماہ قبل مریخ کے پہلے کمزور سے زلزلے کو محسوس کیاتھا۔ پچھلے سال نومبر میں یہ خلائی جہاز سیارہ مریخ پر اُتراتھا ، جس کادورانیہ40سیکنڈ تھا۔ یہ زمین اور چاند کے زلزلوں کی پیمائشوں کے بعد کسی اور اجرام فلکی کے زلزلے کی پہلی ریکارڈنگ تھی ۔ مریخ کا یہ ارتعاش سطح قمر کی سطح جیسا ارتعاش تھا جو اپولو مشن کے خلاہ پیمائوں نے 1960ءاور1970ءکی دہائیوں میں ریکارڈ کی تھیں۔

مریخ زمین کی بہ نسبت خاموش سیارہ ہے ،کیوں کہ زمین پر زلزلے اس کی سطح کی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے سبب وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ علاوہ ازیں آتش فشانی بھی اس کا بڑا سبب ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ آتش فشاں پہاڑوں کی زیریں حرکت ،سونامی اور آتش فشاں پہاڑوں کا پھٹنا بھی شامل ہوتا ہے۔ زلزلی آوازوں کے علاوہ زمین پرہوائوں اور سمندروں کا شور جیسی آوازیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

ہم نے خیال کیا تھا کہ یہ جھٹکے زمین اور قمر(چاند) کے درمیان تھے۔ یہ بات ناسا کے الاباما میں ہنٹسول کے مارشل اسپیس فلائٹ سینٹر کی پلینیٹری سائنس دان رینی ویبر نے کہی تھی۔ یہ اگرچہ مشن کی ابتدا کے جھٹکے کی بات ہے کہ یہ زمینی جھٹکے کی بجائے قمری جھٹکہ زیادہ لگتا تھا۔

گو ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جھٹکا مریخ کے اندرپیدا ہوا تھا یا پھر مریخ کی سطح پر کسی شہاب ثاقب کے ٹکرانے کے سبب سے یہ ار تعاش پیدا کیا تھا۔ طولوس میں قائم فرانس کے نیشنل ہائر انسٹیٹیوٹ آف ایروناٹکس اینڈ اسپیس کے سائنسدان ڈیوڈ میمون جو اس مشن کا حصہ ہیں کہتے ہیں کہ اس کے سگنل اتنے کمزور تھے کہ شروع میں یہ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیایہ ارتعاش حقیقی ہیںیا ان کی وجہ کوئی اور چیز ہے ۔

انسائٹ نے اس زلزلے کو فرانس کے بنائے ہوئے زلزلے پیما کے ذریعہ سنا تھا، جس میں تین انتہائی حساس سینسر ایک گنبد میں بند ہیں، تاکہ ان میں ہوا کی وجہ سے ارتعاش پیدا نہ ہو جائے۔ چونکہ مشن کے سائنسدان اس سے قبل مریخی ہوائوں کے ارتعاش سن چکے تھے جو اس کے اوپر سے گذرتی رہی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ جو ارتعاش ہوا وہ مریخ کے اندر سے پیدا ہوا تھا ۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ انسائٹ کا ریکارڈ کردہ اور جمع شدہ ڈیٹا مریخ کی اندرونی ساخت کے اسٹرکچر کی بابت کافی معلومات فراہم کرے گا،جس سے اس کی اوپری سطح کی موٹائی ، کثافت ، مینٹل ،اندرونی کور کاسائزاوراس میں گرمی کی منتقلی کی بابت وافر ڈیٹا تک رسائی ہو جائے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس کے اندر پانی موجود ہے یانہیں۔چوں کہ یہ تمام معلومات مریخ پر پہنچانے کے مشن کے لیے بہت ضروری ہیں ،جس کے لیے انسانوں کی تر بیت کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے ۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے حا صل شدہ تمام معلومات پھر بھی ناکافی ہوں گی لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوگیا ہے کہ مریخ میں زلزلیاتی (seismic) سرگرمی ہے جو ایک نئے شعبہ یعنی مریخی زلزلیاتی تحقیق کی بنیاد بن جائے گی۔2020ءمیں ناسا اس سرخ سیارہ کی تحقیق کی بابت ایک روباٹک مشن بھیجے گا،جس کانام ’’مارس ایکسپلوریشن پروگرام‘‘ ہوگا،جس میں بہت سی تحقیقاتی معلومات کے علاوہ اس کا سب سے اہم کام ماضی میںکسی قدیم زندگی کی موجودگی کے آثار، کسی جراثیمی زندگی کی موجودگی ، وہاں پر رہائش کے امکانات اور موجود وسائل کی بابت بھی انتہائی اہم معلومات کا حصول ہوگا۔

اس مشن میں اس کی سطح پرایک ڈرل سے کھدائی کے بعداہم چٹانوں کے ٹکڑوں کے نمونے ایک جگہ جمع کرنے ہوںگے، پھر اس اہم نمونوں کو اگلے مشن کے ذریعہ زمین پر لایا جائے گا ۔ اس کے بعدان تمام نمونوں کا خاص طور پر بنائی گئی ایک کمرے کے برابر لیباریٹری میں تجزیہ کیا جائےگا،کیوں کہ اتنی بڑی لیباریٹری کومریخ پر پہنچانا مشکل اور مہنگا ہوگا۔ 

ان تجربوں میں ایک انتہائی اہم تجربہ مریخ کے ماحول میں آکسیجن تیار کرنے کا ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کی سطح کے نیچے پانی کی موجودگی کی دریافت بھی انتہائی اہم ہوگی۔ ستاروںکے موسموں اور اس کے ماحول میںمختلف اوقات اور مقامات پر درجۂ حرارت کی مقدار بھی کار آمد ہوگی۔ یہ معلومات مستقبل میں مریخ پر رہائش اورکام کرنے والے خلابازوں کو متاثر کرنے والے عوامل کی نشان دہی بھی کرسکیں گی۔

اس مشن کی روانگی کا مناسب وقت2020 ء میں جولائی اور اگست کے مہینے ہوں گے، جب مریخ اور زمین ایک دوسرے سے ایسی پوزیشن میں ہوں گے جب اس کی زمین سے روانگی اور مریخ پر لینڈنگ بہت مناسب ہوگی، کیوں کہ اس کی روانگی کے لیےکم قوت درکار ہوگی اور اس کوفاصلہ بھی کم طے کرنا پڑےگا جو اس کے وقت اور اخراجات میں کمی کے علاوہ مشن کی کامیابی میں بھی معاون ہوگا۔ جب کہ ناسا کے2020 ءکے مشن میں لیباریٹری کی تیاری کے منصوبےکی ڈیزائننگ بھی کی جائے گی، جس میں اس کی تیاری کے مواد اور اس کا آرکی ٹیکچرل پلان تیار کرنا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین