اسلام آباد (انصار عباسی) وزیر داخلہ چوہدری نثار ایم کیو ایم اور را کے درمیان تعلقات کے معاملے کو ایک ساتھ ہی نمٹانے کے خواہاں ہیں جس میں یا تو پارٹی اور اس کے رہنمائوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی یا پھر انہیں صاف قرار دیدیا جائے گا۔ اس نمائندے کو بھیجنے جانے والے بیان میں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ شواہد ملنے کی صورت میں ایم کیو ایم اور اس کی قیادت کیخلاف ملک کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ بصورت دیگر، ایم کیو ایم کو کلین چٹ دیدی جائے گی۔ وزیر کا کہنا تھا کہ دونوں صورتوں میں حکومت ایف آئی اے کی انکوائری کو عام کرے گی۔ دی نیوز کی خبر ’’کیا ایجنسیوں کے پاس ایم کیو ایم اور را کے درمیان تعلقات کے ثبوت ہیں؟‘‘ کے جواب میں وزیر داخلہ نے واضح کیا کہ وزارت داخلہ نے پہلے ہی سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سندھ حکومت سے رابطہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ ایف آئی اے سے کسی بھی ایسی معلومات کا تبادلہ کریں جو ایم کیو ایم اور را کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ان کے پاس موجود ہیں۔ اگر اس طرح کے الزامات درست ثابت ہوئے اور ان کےثبوت ہوں گے تو حکومت کارروائی کرے گی بصورت دیگر ایم کیو ایم کو ان الزامات سے بری قرار دیا جائے گا جو گزشتہ دو دہائیوں سے اس کے ساتھ جڑے ہیں۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ تمام سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایک درخواست کے ساتھ ریفرنس بھیجا گیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے ساتھ کسی بھی طرح کے شواہد یا معلومات کا تبادلہ کریں جو ایم کیو ایم اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہیں یا پھر ایم کیو ایم اور را کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ہیں۔ وزیر نے کہا کہ اسی طرح کی ایک درخواست سندھ حکومت سے بھی کی گئی ہے کیونکہ اس طرح کے الزامات کے حوالے سے رابطہ کرنے کیلئے وہی متعلقہ صوبائی حکومت ہے۔ سرفراز مرچنٹ کی جانب سے جیو نیوز کے انٹرویو میں الزامات عائد کیے جانے کے بعد، ایف آئی اے نے حال ہی میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را کی ایم کیو ایم کو فنڈنگ کے حوالے سے الزامات کی تحقیقات شروع کی ہے۔ سرفراز مرچنٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ 2014ء میں لندن میں الطاف حسین کے گھر پر چھاپے کے دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ نے دھماکا خیز ہتھیاروں کی فہرستیں برآمد کی تھیں۔ 2012ء میں منی لانڈرنگ کے الزامات سامنے آنے کے بعد کسی بھی ٹی وی چینل کو اپنے پہلے انٹرویو میں انہوں نے پارٹی کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے انہیں فہرست دکھائی اور ان سے معلوم کیا کہ آیا ہتھیاروں کیلئے انہوں نے ادائیگی کی تھی یا اس فہرست پر موجود دستخط کس کے ہیں۔ فہرست کے مطابق ہتھیاروں کیلئے 65؍ ہزار برطانوی پائونڈز کی ادائیگی کی گئی تھی اور اسی فہرست میں بھارتی کرنسی میں اس کی تبدیلی کا ذکر بھی شامل تھا۔ سرفراز مرچنٹ نے کہا تھا کہ تفتیش کاروں نے انہیں بتایا تھا کہ ان کے پاس ایسی دیگر فہرستیں بھی موجود ہیں۔ ان کے مطابق، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ان سے پوچھا کہ آیا انہیں علم ہے کہ ایم کیو ایم کو بھارتی ذرائع سے رقوم ملی تھیں اور یہ بھی کہ کیا ان کا اس رقم کے حصول کے سلسلے میں کوئی کردار ہے؟ مرچنٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے انہیں ایک دستاویز دی تھی جس میں لکھا تھا کہ ان کے پاس ’’مصدقہ شواہد‘‘ ہیں کہ ایم کیو ایم کو بھارت سے فنڈز ملے تھے اور محمد انور اور طارق میر نے پولیس کے روبرو اعتراف کیا تھا کہ انہیں بھارتی ایجنسی را سے پیسے ملے تھے۔ ایف آئی اے نے تفتیش کے سلسلے میں پہلے ہی سرفراز مرچنٹ سے انٹرویو کی درخواست کر رکھی ہے۔ ایف آئی اے نے مصطفیٰ کمال سے بھی رابطہ کیا ہے جنہوں نے حال ہی میں ایم کیو ایم قیادت پر را کے ساتھ تعلقات کا الزام عائد کیا تھا۔