عمران خان کا دورِ حکومت اپنی مثال آپ ہے۔ نہ ہنگامی حالات ہیں نہ مارشل لا بلکہ عمرانی دور جمہوری دور کہلاتا ہے پھر بھی ملک میں دو بڑی حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما جیلوں میں بند ہیں، لوگ ہیں کہ ایک وقت کی روٹی کو پریشان ہیں۔ ڈالر ڈیڑھ سو روپے سے اوپر اڑ رہا ہے۔ ایک بڑا تماشا ہے۔ جمہوریت تو ہے پر حکمرانوں کا مزاج جمہوری ہے نہ فطرت۔ ’’سیاستدان سب چور ہیں، ڈاکو لٹیرے ہیں‘‘ (وہ بھی صرف اپوزیشن کے) یہ کہہ کر پیش کئے جا رہے ہیں۔ کہیں اسمبلی کا اسپیکر قید ہے، کہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر تو کہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اپنی دیانتداری اور بے خوفی میں معروف سینئر جج کو ریفرنس کا سامنا ہے۔ ملکی عدالتی تاریخ میں اب تک صرف ایک ہی جج کو جوڈیشل سپریم کونسل کے ذریعے فارغ کیا گیا تھا اور وہ تھے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اخلاق حسین۔ جسٹس اخلاق حسین لاہور کے ایک اور قلندر نما رضا کاظم کے والد تھے۔ والد تو آصفہ اور بلاول اور مریم نواز کے بھی ہیں۔ ایک ملک کا سابق منتخب صدر اور دوسرا سابق وزیراعظم۔ دونوں پابند سلاسل۔ احتساب ضرور کریں لیکن ان سے جمہوری اور آئینی سلوک تو روا رکھیں۔ زرداری کا کیا ہے! وہ تو میں نے دیکھا کہ تالی بجا کر جیل جا رہا ہے۔ جیسے تقسیم سےقبل پرانے کانگریسی جیل جاتے تھے۔ میں نے دیکھا وہ جیل لے جانیوالوں سے بھی جلدی میں تھا۔ سب بولو سندھ ماترم۔ آصف علی زرداری اس حاکم علی زرداری کا بیٹا ہے جس کے استاد و پیر حسرت موہانی تھے، حسرت موہانی جنہوں نے کہا تھا ’’ہے چکی کی مشقت بھی اور مشق سخن جاری‘‘۔ میں تو کہتا ہوں کہ زرداری کو اپنی جیل کی تمام زندگی پر ایک کتاب لکھنی چاہئے۔ بقول میرے دوست اور سندھ کے یگانہ جدید شاعر مظہر لغاری کے ’’کتاب لکھو۔ اس سے پہلے کہ تم پر کتاب لکھی جائے‘‘۔ پھر ان کی بہن فریال تالپور بھی گرفتار ہے، جن کے سسر میر علی بخش تالپور ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دور میں ولی خان اور ان کی جماعت کے بلوچ پشتون رہنمائوں و دیگر ساتھیوں کے ساتھ نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں قید رہے تھے۔ اپوزیشن کی اس قدر پکڑ دھکڑ کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہاں البتہ موجودہ حکومت کے سیاسی تاریخ کے حوالے سے کئی کیسوں میں جہاں تک حزب مخالف یا سیاسی مخالفین سے برتائو کا تعلق ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت سے ملتی جلتی ہے۔ یعنی فقط اس حوالے سے عمران خان بھی بھٹو بننے جا رہا ہے! فرق صرف یہ ہے ذوالفقار علی بھٹو ملکی تاریخ میں سب سے مقبول ترین وزیراعظم تھے اور اسی زعم میں انہوں نے ہر قسم کی سیاسی مخالفت کو کچلا، اس سے ان کی ذات اور ملک کو جو نقصان ہوا وہ سب تاریخ ہے۔ عمران خان کو یہ سبق لینا چاہئے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ پی این اے تحریک کی صورت میں نکلا تھا۔ اب بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایم آر ڈی یا پی این اے طرح کی تحاریک چل پڑیں۔ اگر اپوزیشن کو اپنے اظہارِ اختلاف رائے کا حق پارلیمان میں بھی نہ ملے تو پھر فیصلہ سڑکوں پر ہی ہوتا ہے۔ اس سے قبل، ماضی بعید میں تہران، منیلا، ماضی قریب میں تیونس اور مصر میں ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بھی۔ مگر یہاں تو پارلیمان میں اپوزیشن کے قیدی منتخب اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جا رہے۔ ایسا تو ضیاء دور کی غیر پارٹی پارلیمان میں بھی شاید ہی ہوا تھا۔ یہ ماننا پڑے گا زرداری نے اپنے ادوارِ حکومت میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز کیا، سوائے سندھ میں اپنے دوست اور پھر منحرف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور نواب شاہ میں مقامی مخالفین کے۔ سندھ میں احتجاجی لیڈی ہیلتھ ورکروں، خواتین و مرد اساتذہ، شوگر ملوں کے خلاف آبادگاروں و کسانوں پر لاٹھی، گولی اور آنسو گیس کا استعمال کیا جاتا رہا۔ عمر کوٹ کے غریب کولہی قبیلے کے مرد و عورتوں پر پولیس کے ذریعے تشدد کرایا گیا تھا۔ زرداری کو بھی یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ سندھ میں لوگ تو درکنار خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکن سڑکوں پر یا گھروں سے باہر شاذو نادر ہی نکلتے ہیں مگر ان کو یہ غلط فہمی اور خوش فہمی رہی کہ یہ ووٹر ان کے ووٹر ہیں جبکہ ان کے ووٹر اصل میں بھٹو کے ووٹر ہیں۔ ’’اگر تم بھٹو کے ووٹر ہو تو پھر کام بھی بھٹو کو جا کر کہو‘‘ سندھ میں اکثر پیپلز پارٹی کے وڈیرے دروازے پر آنے والوں سے کہا کرتےہیں۔