• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے نظام شمسی کے ایک سیارے کا نام زہرہ ہے، چند سال میں ایک مرتبہ یہ سیارہ زمین اور سورج کے درمیان سے گزرتا ہے، اس مخصوص وقت میں اگر زمین کے مختلف حصوں سے اس کی گردش کا مشاہدہ کیا جائے تو ہم بآسانی زمین اور سورج کے درمیان فاصلہ ماپ سکتے ہیں۔ 1769میں لندن کی رائل سوسائٹی نے اس سیارے کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے سائنسدانوں کا ایک مشن کینیڈا اور کیلیفورنیا کے دور دراز علاقوں تک بھیجا مگر ان کی تسلی نہیں ہوئی، سو رائل سوسائٹی نے ایک ستارہ شناس چارلس گرین کو تاہیتی بھیجنے کا فیصلہ کیا، گرین اس مشن پر اکیلا نہیں گیا بلکہ اس کے ساتھ آٹھ سائنسدانوں کی پوری ٹیم گئی جن میں ماہر نباتات بھی تھے اور ایسے لوگ بھی جنہوں نے اس علاقے کی زمین، چرند، پرند، انسانوں اور حیوانات کے بارے میں تحقیق کرنا تھی، اس ٹیم کو اس زمانے کے بہترین اور مہنگے آلات سے لیس کیا گیا اور ٹیم کی کمان کیپٹن جیمز کُک کے حوالے کی گئی جو ایک منجھا ہوا جغرافیہ دان تھا۔ یہ مہم جو لندن سے تاہیتی کے لیے 1768میں روانہ ہوئے ، 1769میں تاہیتی میں زہرہ کا مشاہدہ کیا اور پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک گئے اور بالآخر1771میں برطانیہ واپس پہنچے۔ ان ماہرین نے صرف زہرہ کا مشاہدہ ہی نہیں کیا بلکہ یہ نباتات، حیوانیات، فلکیات، مردم شناسی، جغرافیہ اور موسمیات سے متعلق بیش بہا معلومات کا خزانہ بھی لے کر لوٹے جس کی مدد سے تحقیق کے میدان میں نئے جھنڈے گاڑے گئے۔ اس زمانے میں بحری سفر کے دوران لوگ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہو کر مر جاتے تھے، اس بیماری میں مسوڑھوں سے خون رِسنا شروع ہو جاتا، دانت گرنے لگتے، مریض کو بخار اور یرقان ہو جاتا اور ہاتھ پیر کام کرنا چھوڑ جاتے، ایک اندازے کے مطابق سولہویں اور اٹھارہویں صدی کے درمیان اس بیماری سے بیس لاکھ افراد بحری سفر کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1747میں جیمز لنڈ نامی ڈاکٹر نے دریافت کیا کہ یہ بیماری بحری سفر کے دوران کھانے میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، طویل بحری سفر میں لوگوں کو یہ چیزیں میسر نہیں ہوتی تھیں سو وہ اس بیماری کا شکار ہو کر مر جاتے تھے۔ ڈاکٹر جیمز لنڈ کی اس دریافت کو کیپٹن جیمز کُک نے یوں ثابت کیا کہ جب وہ تاہیتی اور آسٹریلیا وغیرہ کے سمندری سفر پر روانہ ہوا تو دورانِ سفر کھانے میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کا ڈٹ کر استعمال کیا، نتیجے میں جب یہ مشن واپس پہنچا تو ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو اس پراسرار بیماری کا شکار ہو کر مرا ہو۔ اصل کہانی مگر یہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جیمز کُک صرف ایک ملاح نہیں تھا بلکہ نیوی افسر بھی تھا، کُک کے مشن کے اخراجات لندن کی رائل سوسائٹی نے برداشت کیے مگر بحری جہاز برطانوی نیوی نے فراہم کیا، اس بحری جہاز میں سائنس دانوں کے ہمراہ توپ خانے، بارود اور ہتھیاروں سے لیس پچاسی نیوی افسران بھی شامل تھے جو معلومات جیمز کُک کے اس مشن نے اکٹھی کیں وہ جغرافیہ، فلکیات، موسمیات وغیرہ سے متعلق تھیں مگر ان کی عسکری اور سیاسی اہمیت کہیں زیادہ تھی۔ بحری سفر کی پراسرار بیماری پر قابو پانے اور ایسی بیش قیمت سائنسی معلومات حاصل کرنے کے نتیجے میں تاج برطانیہ کے پاس یہ صلاحیت آگئی کہ وہ دور درواز براعظموں تک اپنی فوج بھیج سکے اور سمندر عبور کرکے فتح کے جھنڈے گاڑ سکے اور یہی ہوا، تسمانیہ سے لے کر افریقہ تک انگلستان نے یونین جیک لہرا دیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کوئی اور کیوں نہ کرسکا، مسلمان کیوں نہ کرسکے، وسائل کی کمی تھی یا ذہانت کی؟ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی، اورنگزیب کا سکہ پورے برصغیر پر چلتا تھا، اس نے چالیس لاکھ مربع کلومیٹر علاقہ فتح کیا، پندرہ کروڑ لوگوں پر حکمرانی کی، ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا جس کا حجم پورے مغربی یورپ سے زیادہ تھا، مگر اس کے باوجود اورنگزیب کی فوج آسٹریلیا تک جا سکی نہ افریقہ تک، اورنگزیب نے سائنس کے میدان میں بھی کوئی معرکہ نہیں مارا، کوئی ایجاد مغل شہنشاہ نے نہیں کی اور نہ ہی میڈیکل سائنس میں کوئی قابل ذکر تحقیق کی۔ آخر یورپ کے پاس وہ کیا گیدڑ سنگھی تھی جو ہمارے پاس نہیں تھی، کون سا ایسا راز تھا جو انہوں نے پالیا تھا اور ہم محروم رہ گئے، کیا ایسی کوتاہی ہم سے ہوئی جو یورپ سے نہیں ہوئی! اور یہ صرف کوتاہی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں پورے ایشیا کا یہی حال تھا، چین، ترکی، ایران اور ہندوستان کی سلطنتوں نے بےتحاشا فتوحات کیں، معاشی ترقی کی، 1775تک ایشیا کا عالمی معیشت میں حصہ اسّی فیصد تھا اور صرف دو ممالک ہندوستان اور چین کی پیداوار کل عالمی پیداوار کے دوتہائی کے برابر تھی، مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے یورپ نے ایشیائی طاقتوں کو نکیل ڈالنا شروع کی، 1900ء تک یہ حال ہوگیا کہ عالمی معیشت یورپ کے قبضے میں چلی گئی، 1950تک امریکہ اور مغربی یورپ کی پیداوار کل عالمی پیداوار کے نصف ہوگئی جبکہ چین کا حصہ پانچ فیصد رہ گیا۔

دنیا کا پہلا ریلوے نظام 1830میں برطانیہ میں قائم کیا گیا، 1850تک مغربی یورپ میں ریل کی پٹریاں چالیس ہزار کلومیٹر تک بچھا دی گئیں، جبکہ پورے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں کل ملا کر چار ہزار کلومیٹر کے ٹریک بچھے، چین میں پہلا ٹریک 1876میں بچھایا گیا جو پچیس کلومیٹر طویل تھا اور یہ کام بھی یورپ نے کیا، اگلے برس چینی حکومت نے یہ ریلوے ٹریک تباہ بھی کر دیا۔ایسی بات نہیں تھی کہ ایران، ہندوستان اور چین ریلوے انجن نہیں بنا سکتے تھے، یہ ایشیائی ممالک وہ سب کچھ بنا سکتے تھے جو اس وقت یورپ میں بن رہا تھا، کوئی بھی ایجاد خفیہ نہیں تھی، جو ملک چاہتا نقل کرکے وہ سب کچھ بنا سکتا جو یورپ میں ایجاد ہو رہا تھا، مگر ہم ایسا نہیں کر پائے جبکہ فرانس، امریکہ اور مغربی ممالک نے برطانیہ کی ایجادات سے دل کھول کر فائدہ اٹھایا اور صنعتی انقلاب کے ثمرات سمیٹے۔ مرغے کی مگر پھر وہی ایک ٹانگ، آخر یہ خوش بختی یورپ کے حصے میں کیوں آئی، ہم کیو ں محروم رہ گئے! اس کا جواب اگلے کالم میں، پکا وعدہ!

کالم کی دُم:اس کالم میں جو حقائق اور واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ نوحا حراری کی کتاب Sapiensسے لئےگئے ہیں۔

تازہ ترین