• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا مودودی ؒکی ذات ِبا صفات اسلام کی خدمت اور تبلیغ میں گزری۔ وہ نہ صرف ایک بڑی دینی جماعت کے سربراہ تھے بلکہ انہوں نے ’’تفہیم ُالقرآن ‘‘ کے عنوان سے قرآن پاک کی تفسیر کی چھے جلدیں بھی مرتّب کیں،جن کی وجہ سے قرآن کریم کو سائنسی اور جدید علوم کی روشنی میں سمجھنا بہت آسان ہوگیا۔تفہیم القرآن، تمام علمائے دین کی تفسیر میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ مولانا صاحب نےاپنی تحریروں کے ذریعے بالخصوص نسلِ نومیں جو انقلاب برپا کیا، اُ س کی مثال نہیں ملتی۔ ’’پردہ‘‘ مولانا صاحب کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ اس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں شایع ہوچکا ہے اور اس کا شمار مولانا مودودیؒ کی’’ Best seller‘‘کتب میں ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی حیات ہی میں سوائے ’’پردہ‘‘ کہ اپنی تمام تصانیف کے حقوق جماعت اسلامی کے اِشاعتی ادارے کو دےدئیے تھے ۔اس وقت ہمارے پیشِ نظر اس کا پہلا ایڈیشن ہے، جس کے دیباچے کے نیچے ابو الاعلیٰ، 22محرم 59ھ چَھپا ہوا ہے۔ دیباچے میں مودودی صاحب نے جو لکھا ہے، وہ ملاحظہ کیجیےتاکہ کتاب کی تاریخی حیثیت کااندازہ ہو سکے۔’’پردے کے مسئلےپر اب سے چار سال پہلے مَیں نے ایک سلسلۂ مضامین لکھا تھا، جو ’’ترجمان القرآن ‘‘کے کئی نمبرز میں شایع ہوا ۔ اس وقت بحث کے بعض گوشے قصداً نظر انداز کر دیئے گئے تھے اور بعض کو تشنہ چھوڑ دینا پڑا تھا،کیوں کہ کتاب کی بہ جائے محض ایک مضمون ہی لکھنا مدّ ِ نظر تھا۔ اب ان اجزا کو یک جا کر کے ضروری اضافوں کے ساتھ یہ کتاب مرتّب کی گئی ہے۔ گرچہ ، یہ دعویٰ اب بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ موضوع پر آخری چیز ہے، لیکن میں کم سے کم یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ جو لوگ آج اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں ، وہ اس سےبڑی حد تک اطمینان بخش مواد اور دلائل پائیں گے وبااللہ التّوفیق وھو المستعان۔‘‘

کتاب کے پہلے باب میں مولانا مودودیؒ نے’’نوعیت ِ مسئلہ‘‘ کے عنوان سے موضوع کا مفصّل جائزہ لیا ہے کہ قدیم یونانی تہذیب سے لے کر رَوم تک کی تہذیب میں عورت کی حیثیت کیا تھی اور وہ مسیحی یورپ میں اخلاقی انحطاط کے جس چنگل میں پھنسی تھی ، اس کی جکڑ سے نکلنا مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔ پھریہ بھی ہوا کہ اپنی ان حیوانی خواہشات میں وہ قومیں اس قدر مغلوب ہو گئیں کہ پوری تہذیب اپنی تاریخ کے ساتھ زمیں بوس ہو گئی۔ مولانا مودودیؒ نے کافی تحقیق و جستجو کے بعد فرمایا کہ ’’تین ہزار سال کے تاریخی نشیب وفراز کی یہ مسلسل داستان ایک بڑے خطّۂ زمین سے تعلق رکھتی ہے،جو پہلے بھی دو عظیم الشّان تہذیبوں کا گہوارہ بن چکا ہے اور اب پھر اُس تہذیب کا ڈنکا دنیا میں بج رہا ہے۔ ایسی ہی داستان، مصر بابل، ایران اور دوسرے ممالک کی بھی ہے۔ خود ہمارا ملک ہندوستان (1947ء سے قبل) بھی صدیوں سے افراط و تفریط میں گرفتار ہے۔ ایک طرف عورت داسی بنائی جاتی ہے، مرد اس کا سوامی اور پتی دیو، (یعنی مالک ومعبود )بنتا ہے۔ اس کو بچپن میں باپ کی ، جوانی میں شوہر کی اور بیوگی میں اولاد کی مملوکہ بن کر رہنا پڑتا ہے، شوہر کی چِتا کی بھینٹ چڑھاکر مِلکیت اور وراثت کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہودیوں اور یونانیوں کی طرح گناہ اور اخلاقی و روحانی پستی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی مستقل شخصیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس بام مارگی تحریک کی باقیات اور غیر صالحیات ہی تو ہیں، جو ایران، بابل، یونان اور روم کی طرح ہندوستان میں بھی تہذیب و تمدّن کی انتہائی ترقّی کے بعد وبا کی طرح پھیلیں اور ہندو قوم کو صدیوں کے تنزّل و انحطاط کے گڑھے میں پھینک گئیں۔‘‘مولانا صاحب کی اس تحقیقی عبارت پر ذرا غور کیجیے اور دیکھیے کہ کیاآج کئی سال بعد بھی حالات ویسے ہی یا بدتر نہیں ہیں؟ مولانا مودودیؒ نے انیسویں صدی کے آخری زمانے میں مسلمانوں میں آزادیٔ نسواں کی جو تحریک بیدار ہوئی ، اس کے محرّکات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور دَورِ جدید کے ’’مسلمان‘‘ کا حال بیان کیا ۔ ‘‘

کتاب کے مزید مندرجات میں اسلامی نظامِ معاشرت کے تحت تنظیمِ معاشرت کے سلسلے میں صنفی میلان اور محرّکات کے حوالے سے کُھل کر بحث کی گئی اور سورۃ النسا ء میں موجود آیات کی تفسیر کے تحت حرمت ِزنا کی اہمیت اور بے راہ روی کی پابندی پر ’’النساء‘‘ کی چوتھی آیت کا ترجمہ درج ہے۔’’ان عورتوں کے سوا جو عورتیں ہیں، انہیں تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے کہ تم اپنے اموال کے بدلے (مہر دے کر ) ان سے احصان (نکاح) کا باضابطہ تعلق قائم کرو ، نہ کہ آزاد شہوت رانی ۔پس، ان عورتوں کے متعلقین کی رضا مندی سے ان کے ساتھ نکاح کرو۔‘‘پھر آگے چل کر مرد کی قو ّامیت سے متعلق قرآن میں درج ’’النساء‘‘ کی چھٹی آیت کا ترجمہ ہے ’’مرد، عورتوں پر قوّام ہیں، اس فضیلت کی بناپر جو اللہ نے ان میںسے ایک کودوسرے پر عطا کی ہے اور اس بنا پر کہ وہ ان پر ( مہر و نفقہ کی صورت میں) اپنا مال خرچ کرتے ہیں، مرد اپنی بیوی اور بچّوں پر حکم ران ہے اور اپنی رعیّت میں اپنے عمل پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔صالح بیویاں شوہروں کی اطاعت گزار اور اللہ کی توفیق سے شوہروں کی غیر موجودگی میں ان کی ناموس کی محافظ ہیں۔ ‘‘اس سورۃ میں مرد کی حاکمیت نہ صرف بیوی پر بلکہ اپنے بچّوں پر بھی جس طرح ظاہر کی گئی ہے، اس میں نہ تو مزید کسی تشریح کی گنجایش ہےاور نہ ہی کسی کمی بیشی کی۔ایک ا ور اقتباس دیکھیے’’غضِ بصر، کے لیے ضوابط کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کے اسباب اورپابندی نہ کرنے کے نتیجے میں معاشرتی خرابیوں کی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔سب سے پہلا حکم ،جو مَردوں اور عورتوں کو دیا گیا ہے ،وہ یہ ہے کہ غضِ بصر کرو۔ عموماً اس لفظ کا ترجمہ ’’نظریں نیچی رکھو ‘‘ یا ’’نگاہیں پست رکھو‘‘ کیا جاتا ہے ، مگر اس سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ حکم ِالٰہی کا اصل مقصد یہ نہیں کہ لوگ ہر وقت نیچے ہی دیکھتے رہیں اور کبھی اوپر نظر ہی نہ اُٹھائیں۔ مدّعا دراصل یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو،جس کو حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے۔ اجنبی عورتوں کے حُسن اور ان کی زینت کی دِید سے لذّت اندوز ہونا مَردوں کے لیے اور اجنبی مَردوں کو مطمعِ نظر بنانا عورتوں کے لیے فتنے کا موجب ہے،فساد کی ابتداء طبعاً و عادتاً یہیں سے ہوتی ہے۔ اسی لیے سب سے پہلے ا سی دروازے کو بند کر دیا گیا ہے اور ’’غضِ بصر‘‘ سے یہی مراد ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان ، آنکھیں کھول کر دنیا میں رہے گا، تو سب ہی چیزوں پر اس کی نظر پڑے گی۔ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی مرد کسی عورت کو اور کوئی عورت کسی مرد کو دیکھے ہی نہیں۔ شارع نے اس کے متعلق فرمایا کہ اچانک نظرپڑ جائے، تو معاف ہے۔ دراصل جو چیز ممنوع ہے، وہ یہ ہے کہ ایک نگاہ جس میں تم کو حُسن محسوس ہو،وہاں دوبارہ نظر دوڑائو اور اس کو ہدف ِنظر بنائو ۔ ‘‘

’’پردہ‘‘ کے اس مختصر جائزے کے اختتام سے قبل ضروری ہے کہ کتاب میں موجود اسلامی نظامِ معاشرت کے دوسرے حصّے پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے ، تاکہ موضوع پر بات مزید صاف ہو جائے۔ اس باب میں تحفّظات کے تحت اصلاحِ باطن ،دل کے چور، فتنۂ نظر، فتنۂ زبان ،فتنۂ آواز، فتنۂ خُوش بُو اور فتنۂ عُریانی پر گفتگو کی گئی اور بتایا گیا ہےکہ عورت کو ان تمام فتنوں سے بچنے کی ضرورت ہے،تاکہ پردے کی حُرمت اس کی شخصیت پر پوری طرح محیط ہو جائے۔ آج جب مغرب سے اٹھتا ہوا’’فیمنزم‘‘کا یہ طوفان تمام مشرقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے،توہمیں ضرورت ہے کہ پردےکے احکام کو اس کی صحیح روح کے ساتھ سمجھیں اور اپنی تحریروں میں اسےگفتگو کا موضوع بنا کر پیش کریں۔

تازہ ترین