• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز جس خطے میں واقع ہے، اس میں ماضی میں رونما ہونے والے واقعات جس انداز میں پاکستان پر اثر انداز ہوتے رہے، انہیں سامنے رکھتے ہوئے نئی تبدیلیوں پر نہ صرف نظر رکھنا بلکہ ان کے منفی اثرات سے بچتے ہوئے خطے اور عالمی امن کے مفاد میں سرگرم حکمت عملی ضروری ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے برسلز میں یورپی یونین کی سیاسی و سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کو دیکھا جائے یا پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی برطانیہ میں وفود کی سطح پر اور ون آن ون ملاقاتوں کی تفصیلات کو سامنے رکھا جائے، یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں امن عمل کی کامیابی کیلئے اسلام آباد نہ صرف ہر ممکن طریقے سے سہولت کاری کررہا ہے بلکہ خطے کو عدم استحکام کے نئے امکانات سے بچانے کی کوششوں میں بھی حتی الامکان کردار ادا کررہا ہے۔ پاکستان میں افغان حکومت اور دیگر افغان گروپوں کے وفود کے مجوزہ مذاکرات سے ان امن کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کی امید بڑھی ہے جن کے لئے کافی عرصہ سے تگ و دو جاری ہے۔ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل باوجوہ ان دنوں سرکاری دورے پر برطانیہ میں ہیں۔ انہوں نے منگل کے روز برطانوی مشیر قومی سلامتی اور سیکریٹری دفاع سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرکے افغان مفاہمتی عمل اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جس کے دوران علاقائی امن کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کے روز کابل میں صحافیوں سے جو گفتگو کی، اس میں تو واضح طور پر یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ افغان امن سمجھوتہ یکم ستمبر تک طے پاجائے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے واضح لفظوں میں یہ اعتراف بھی کیا کہ اس باب میںپاکستان کا کردار اہم ہے۔ قبل ازیں صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امن کی گھڑی قریب آچکی ہے۔ مائیک پومپیو نے اسی بات کو دہراتے ہوئے مزید کہا ’’ہم متفق ہیں کہ امن ہماری اولین ترجیح ہے اور یہ کہ افغان سرزمین پھر کبھی بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز نہیں بنے گی۔‘‘ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، اس کیلئے اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہو اور وسطی ایشیا کے ملکوں سے تیل اور گیس کی فراہمی سمیت بین الاقوامی تجارت کا صدیوں پرانا راستہ پھر آمدورفت کی سرگرمیوں کا مرکز نظر آئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں اس راستے سے تجارتی نقل و حرکت کے لئے زیادہ آسانیاں فراہم کردی گئی ہیں۔ تاہم جیسا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یورپی یونین کی سیاسی و سلامتی کمیٹی میں کہا، اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ افغانستان میں بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ انہوں نے مذکورہ کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے خلاف دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے سنجیدہ ثبوت ہیں۔ بے بہا قربانیاں دے کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا رخ موڑنے والی پاکستانی قوم سے زیادہ کون اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے کہ سوویت یونین اور امریکہ کے بعد افغانستان میں جو ملک حیلوں بہانوں سے اپنے قونصل خانوں کے ذریعے مداخلت بڑھا رہا ہے، اسے افغانستان میں حقیقی امن کے قیام میں رکاوٹ پیدا کرنے، پاکستان میں دہشت گردی کرنے اور بین الاقوامی تجارتی راہداری کو سبوتاژ کرنے سے روکا جانا عالمی امن کی ضرورت ہے۔ ایسے وقت، کہ افغان مسئلے کے حل کی کوششیں ابھی راستے میں ہی ہیں، امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھنے، کئی ناخوشگوار واقعات کے رونما ہونے، تہران پر اضافی پابندیاں عائد کئے جانے اور سخت بیانات کے تبادلے نے ایسی فضا پیدا کردی ہے جس میں معاشی مشکلات کی شکار پاکستانی قوم کے تمام حلقوں میں یکجہتی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی قوتیں انفرادی شرائط سے بالا ہوکر ملکی مفادات کے لئے مل جل کر لائحہ عمل بنائیں اور گردوپیش سامنے آنے والی نئی صورتحال میں مستقبل کے خطرات کی موثر روک تھام کریں۔ عالمی برادری کو بھی ادراک ہونا چاہئے کہ مستحکم پاکستان اس خطے میں ا من کی امید ہے اور تجارتی سرگرمیوں کے سنگم کی صورت میں عالمی خوشحالی کی ضرورت بھی۔

تازہ ترین